یہ معرفت کی باتیں ہیں۔ عام آدمی کی سمجھ سے باہر۔ عام آدمی کی سمجھ سے بہت سی باتیں ویسے بھی باہر ہیں۔ معرفت۔ ادراک۔ ادراک جیسے حلیم میں بگھاری پیاز اور لیموں کے ذائقے کا ادراک، جیسے سبزی منڈی میں سامان کے ساتھ دھنیا پودینہ مفت دان کرنے والے دوکاندار کا ادراک، جیسے کسی تفتیش سے پہلے قصور معاملات میں بڑی سیاسی شخصیت کے ملوث ہونے کا ادراک، جیسے ڈارک ویب میں ڈوبے بغیر اس کی تہہ میں پائے جانے والے گند کا ادراک۔
معرفت کی معراج پانے کے لیے کافی وقت لگانا پڑتا ہے جبکہ راستے میں پیش آنے والی ذلت کا ادراک سچے عارف کو پہلے سے ہوتا ہے۔ “او میاں صاحب جان دیو، ساڈی واری آن دیو”۔ معرفت کی بلندی پہ پہنچ کر ملنے والے انعام کی عارف خواہش نہیں کرتا البتہ اس بلندی تک پہنچنے کے لیے ہر جتن کرنے کو تیار رہتا ہے۔ درویش کی عجز و انکساری ایک دن اس حد تک جا بیٹھتی ہے کہ اس کے اندر سے پیر کامل بولنے لگتا ہے۔ “میں لعنت بھیجتا ہوں اس پارلیمنٹ پر”۔ پیر کامل سے اس یکجائی تک پہنچنے کے لئیے درویش کو اپنی ذات اپنی انا سب قربان کرنی پڑتی ہے۔ “میں اسے کبھی اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں”۔
پیر کامل کو پالینے کی سچی خواہش درویش کے ہاتھوں معجزات کا جنم دلاتی ہے۔ یوں عارف کے معاصرین وقت اس سب کی گواہی دیتے ہیں جو صدیوں یاد رکھا جاتا ہے۔ “تحریک انصاف این اے ون پشاور کا الیکشن ہار گئی”۔ سچی راہنمائی کے متلاشی کی مثال اس بھوکے کی سی ہوجاتی ہے جس کے آس پاس مختلف انواع و اقسام کا کھانا ہو مگر وہ کھا نہ سکے۔ خواہشات اور آسائشیں سامنے مگر شجر ممنوعہ۔ خواہشات حکایات بن کے قصہ پارینہ بن کے یہ جا وہ جا! “عمران خان نے مجھے گندے میسج کیے۔ عائشہ گلالئی”۔
اس راہ میں کئی بار جھوٹے صنم ٹکرایا کرتے ہیں۔ ان جھوٹے خداؤں کی نشانی کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ ببانگ دہل اپنے خدا ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور بار بار کرتے ہیں۔ درویش کے لیے گمراہی کا مزہ چکھنا ضروری رہتا ہے۔ “میں ریفرنڈم میں مشرف کی تائید کرتا ہوں”۔ عارف بھلے اپنے وقت میں کتنا ہی گمراہ کیوں نہ ہو، ہادی کی ہدایت مل کے رہتی ہے۔ “ہم نے ریفرنڈم مین مشرف کا ساتھ دے کر غلطی کی”۔
معرفت کے اس کٹھن راستے میں کئی موڑ آتے ہیں۔ بظاہر عجز و انکساری سے بھرپور صوفی وقت آنے پر بے پناہ جاہ و جلال کا حامل بھی ہونا چاہئے۔ “اؤئے آئی جی میں تمہیں اپنے ہاتھ سے پھانسی دوں گا”۔ معرفت کے مجاہد کو وقت آنے پر صرف سینہ حاضر کرنا ہی نہیں، بلکہ عقل کا مکمل استعمال بھی آنا ضروری ہے۔ اس پرستم دنیا میں زندہ رہنا بھی تو آخر ایک گر ہے۔ “میں چھے فٹ لمبی چھلانگ مار کے بھاگا تھا اپنی ہمشیرہ کے گھر سے جب پولیس کا چھاپہ پڑا”۔ دنیا میں دین کے ذریعے عالم رویا تک پہنچانے والوں کی پہچان ہر کسی کے بس میں نہیں۔ اس نہج تک بس کوئی کوئی ہی پہنچ پایا ہے۔ “وہ مولانا رومی سے بڑھ کر معرفت والی ہیں”۔
عارف میں نسل شناسی کی خاصیت ہونا ضروری نہیں۔ یہ تو بس ایک نور ہے جو پیر کامل سے درویش میں وقت کے ساتھ ساتھ منتقل ہوتا رہتا ہے اور بالآخر چہرہ دیکھتے ہی عارف بندے کا شجرہ پڑھ لیتا ہے۔ “افریقہ کا ہر دوسرا بچہ بابر غوری جیسا ہے”۔ معرفت کی راہ پہ چلنے والا شخص دنیا و مافیہا سے اس قدر مدہوش ہو جاتا ہے کہ اسے اپنے کیے کہے سے کوئی غرض نہیں رہتی۔ بے لوث ہونے کی انتہاء پوچھنی ہے تو معرفت کی راہ پہ گامزن کسی درویش سے پوچھیے۔ “آفشور کمپنیاں کرپشن کی جڑ ہیں۔ میں نے آفشور کمپنی ٹیکس سے بچنے کے لیے بنائی”۔ مثل مسیح ابن مریم، ایاک نعبد ویالنستعین اور حضرت عمر والی عادات کے علاوہ درویش کی ایک خوبی انسانیت سے محبت بھی ہوتی ہے۔ درویش بے لوث محبت کا مکمل استعارہ ہوتا ہے۔ “میں طالبان کو دعوت دیتا ہوں وہ خیبر پختونخواہ میں دفتر کھولیں”۔ معرفت کی راہ میں چلنے والا طالب علم کبھی کبھار جلال میں آکر دنیا کو آگ لگانے تک کو تیار ہوجاتا ہے۔ بادی النظر میں یہ ٹھیک بھی ہے۔ صوفی کے لئے کیا دین کیا دنیا۔ اس کی کل کائنات تو بس پیر کامل ہے۔ “میرے نوجوانوں ہم ریاست کے خلاف سول نافرمانی کئ تحریک چلائیں گے”۔
معرفت کی راہ میں آخری قدم پیران پیر سے جڑ جانا ہوتا ہے۔ یہ صحیح معنوں میں معرفت ہوتی ہے۔ اذن الہی جب آن پہنچے تو پیر یا مرید کسی ایک کو حکم پہنچا دیا جاتا ہے۔ ساتھ یہ بھی بتلا دیا جاتا ہے کہ دنیاوی معاملات میں اس حکم الہی کی تعمیل کا ترجمہ کیسے کیا جائے۔ مریدِ درویش صفت کی قسمت کا فیصلہ اوپر والا اور فقط اوپر والا ہی تو کرتا ہے۔ وہ یہ فیصلہ صادر فرماتا ہے کہ ادراکِ کامل کی جانب سفر خوبصورت حسین سی چم چم کرتی بی ایم ڈبلیو میں بیٹھ کر کرنا ہے یا کسی ٹوٹی پرانی کھلی کھٹارہ بس میں۔ میں جانتا ہوں آپ کیا سوچ رہے ہیں لیکن بخدا میرا مطلب وہ نہیں۔ عقل والوں کے لیے نشانیاں ہر جا موجود ہیں۔ پیر مثلاً ایک مذکر لفظ ٹھہرا۔
کبھی کبھار اوپر والا گاڑیوں والی روایت چھوڑ کر امپائر کی انگلی کے پیچھے بھی لگا دیا کرتا ہے اور عالم رویا میں رلا رلا کر یہ پیغام دیتا ہے کہ پیر کامل تو اک جرنیل ہے۔ یہ معرفت کی باتیں ہیں۔ عام آدمی کی سمجھ سے باہر۔
معرفت اور ادراک بہرحال مرید کو پیر کامل کے در سے مل کے ہی رہتی ہے!