1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. بحوالہ آسٹریلین امگریشن (1)

بحوالہ آسٹریلین امگریشن (1)

دیکھیے میں کوئی کنسلٹینٹ تو ہوں نہیں، تاہم چونکہ اپنا ویزا میں نے بغیر کسی کنسلٹینٹ پراسیس کروایا لہٰذا اپنے مشاہدات، تجربات و معلومات کی روشنی میں جو آج تک مجھے سمجھ آیا اس کا لب لباب عرض کیے دیتا ہوں۔ یقیناً میرا کہا غلط ہو سکتا ہے لہٰذا میں دعوت دیتا ہوں کہ اسے کراس چیک کروا لیجیے۔

آبادی پر قابو پانا ہر ترقی یافتہ ریاست کی ترجیحات میں سرفہرست ہوتا ہے۔ آبادی پر قابو پانے سے مراد فقط خاندانی منصوبہ بندی ہی نہیں بلکہ اپنی آبادی کے حساب سے ریاستی وسائل و سہولیات فراہم کرنا اسی پراسیس کا حصہ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو ذہن میں یہ رکھیے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی آبادی میں فقط اضافے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اگر ایسے ممالک بیرونی دنیا سے افرادی قوت کو اپنے یہاں خوش آمدید کہتے ہیں تو اس میں اصل مقصد ریاستی مفاد ہوتا ہے ناکہ خدمت خلق۔ امگریشن اسی سلسلے کا ایک ذریعہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ ریاست کو امگریشن میں کیا فائدہ ہے؟ جواب آسان سا ہے۔ ریاست مجموعی طور پر اوسط درجہ صلاحیت کے حامل لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اب اگر ایک ملک میں افرادی قوت کی ضرورت ہے تو انہیں فقط افراد نہیں چاہیے ہیں بلکہ دوسرے ممالک خاص کر ترقی پذیر و غریب ممالک کے ذہین و تجربہ کار دماغ درکار ہیں۔ یہ ذہانت اور تجربہ ایک طریقہ کار اپنا کر پرکھا جاتا ہے۔

اس طریقے کے تحت امگریشن اپلائی کرنے والوں کی تعلیم، تجربہ، ریاستی زبان میں مہارت، عمر اور چند ایک ممالک میں مالی پوزیشن بھی دیکھی جاتی ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ امگریشن کے لیے صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر سے درخواستیں جمع کرائی جاتی ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلی بات جو ذہن میں رکھنی ہے وہ یہ کہ اگر آسٹریلیا نے ویزے کی اجراء میں اضافے کا اعلان کیا ہے تو اس کا اطلاق صرف پاکستان پر نہیں، دنیا بھر کے ممالک پر ہو گا۔

دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ کم از کم میرے پاس کوئی وجہ نہیں کہ کوئی بھی ملک بھارت کو چھوڑ کر پاکستان کی افرادی قوت کو فیور کرے گا، جبکہ بھارت کو فیور کرنے کے امکانات بھی کہیں زیادہ ہیں اور بھارت سے آنے والی ویزا درخواستیں بھی ہماری نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ تیسری تلخ حقیقت یہ کہ پاکستان کی وجہ تسمیہ دنیا بھر میں عمومی طور پر منفی ہی ہے۔ ممکن ہے آپ کو یہ سن کر برا لگے تاہم حقیقت یہی ہے۔

اب آتے ہیں میری معلومات کے مطابق آسٹریلیا کی جانب سے دستیاب ویزا سٹریمز یا ویزا پروگرامز پر۔ اس ضمن میں چار ویزے اہم ہیں جن کے بارے میں میرے پاس معلومات دستیاب ہیں۔ شاید اور بھی ہوں، مجھے نہیں پتہ۔

1۔ سٹوڈنٹ ویزا۔

غالباً یہ سٹریم ویزا سب کلاس 500 کہلاتی ہے۔ تفصیلی معلومات کے لیے کسی بھی آسٹریلین فیس بک گروپ کو جوائن کر لیجیے تاہم لب لباب یہ کہ قریب 25 ہزار آسٹریلین ڈالر ایک بیچلرز سمسٹر کے ایڈوانس جمع کروانے لازمی ہیں۔ اس کے علاوہ بینک سٹیٹمنٹ الگ جس کے بارے میں میرے پاس معلومات نہیں تاہم کوشش کروں گا کہ مل سکے۔ گوگل کے مطابق قریب 25 ہزار ڈالر ہی کی بینک سٹیٹمنٹ بھی درکار ہوتی ہے لیکن مجھے اس انفو پر یقین نہیں۔

سٹوڈنٹ ویزے پر آپ آن پیپرز محدود گھنٹے کام بھی کر سکتے ہیں تاہم عملی طور پر مقررہ وقت سے زیادہ کام کرنے کی جگاڑ نکل آتی ہے۔ مزید برآں سٹوڈنٹ ویزا ختم ہونے کے بعد ورک پرمٹ حاصل کرنا شاید آسان ہوتا ہے تاہم ایک بار پھر، میری معلومات اس ضمن میں محدود ہیں۔ یاد رہے، سٹوڈنٹ ویزے کی میعاد ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کے بعد ملنے والے ورک پرمٹ کی بھی میعاد ہوتی ہے اور ایک نہ ایک دن آپ نے پی آر کے لیے اپلائی کرنا ہی ہوتا ہے۔

ہاں سٹوڈنٹ ویزے پر پہنچ کر آپ آسٹریلیا میں محدود مدت کے لیے رہ سکتے ہیں اور تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس ویزے پر آپ کی فیس کسی آسٹریلین ریزیڈینٹ گا شہری سے تقریباً دوگنی ہوتی ہے۔ مزید برآں آپ دوران تعلیم آسٹریلیا میں مقیم رہتے ہیں جس کے پی آر اپلائی کرتے ہوئے غالباََ کچھ پوائینٹس ملتے ہیں۔ نیز، پی آر میں آسٹریلین ڈگری کے بھی پوائینٹس ہوتے ہیں۔ لب لباب یہ، کہ پاکستان سے نکلنا چاہتے ہیں اور بینک میں پیسہ موجود ہے، عمر زیادہ نہیں تو اس راستے سے آسٹریلیا قانونی طریقے سے داخل ہوا جا سکتا ہے۔

2۔ پرمننٹ ریزیڈینس 189۔

189 سکلڈ انڈیپینڈینٹ ویزا سب کلاس ہے، اور یہ خالصتاََ آپ کے skills اور آسٹریلیا میں ان کی ضرورت کے مطابق دیا جاتا ہے۔ پی آر پوری فیملی کو ملتی ہے (جن کا نام درخواست میں دیا گیا ہو)۔ پرمننٹ ریزیڈینس میں آپ کے پاس سرکاری نوکری اور ووٹنگ کے علاوہ تمام وہ حقوق میسر ہوتے ہیں جو ایک آسٹریلین پاسپورٹ ہولڈر کو دستیاب ہیں۔ پرمننٹ ریزیڈینس حاصل کرنے کے بعد قریب چار برس آسٹریلیا میں گزار کر شہریت حاصل کی جا سکتی ہے۔

میں اسی سب کلاس کے ذریعے آسٹریلیا پہنچا ہوں۔ اس سٹریم میں ویزا اپلائی تو ہو جاتا ہے تاہم کامیابی کے لیے آپ کے پاس کم سے کم 16 سالہ بیچلرز ڈگری، اپنی تعلیم کے حساب سے دس سالہ عملی تجربہ، IELTS میں 8، 8، 8، 8 یا پھر PTE میں 79 سے اوپر پوائینٹس، 35 کے اندر اندر عمر اور سب سے اہم۔ آپ کی قسمت، کہ جس فیلڈ سے آپ کا تعلق ہے اس کی آسٹریلیا میں ڈیمانڈ کتنی ہے۔ فی الوقت میڈیکل، آئی ٹی اور فائنانس ہی کی قلت ہے۔ مارچ 2022 تک 13، 322 درخواستیں پینڈنگ ہیں۔ اس پر مزید بعد آگے چل کر کرتے ہیں۔

3۔ پرمننٹ ریزیڈینس 191۔

191 سکلڈ انڈیپینڈینٹ ریجنل ویزا سب کلاس اور 191 میں بس ایک فرق ہے۔ 191 میں آپ ایک خاص ریجن یا سٹیٹ میں تین برس گزارنے کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ ویزا زیادہ تر ایسی سٹیٹس فراہم کرتی ہیں جہاں آباد کاری جاری ہو اور جہاں بڑے شہروں جیسے میلبرن اور سڈنی جیسی سہولیات نسبتاََ کم میسر ہوں۔ اس کا بنیادی مقصد ریجنل یا دور دراز کم آباد علاقوں کو بسانا ہوتا ہے۔

4۔ ورک پرمٹ 491۔

یہ دراصل وہ ویزا ہے جس کی گرانٹ آسٹریلیا کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ 189 اور 191 کے برعکس 491 میں آپ حکومت کو ٹیکس دینے کے پابند ہوتے ہیں تاہم حکومت آپ کو ٹیکس بینیفٹ دینے کی پابند نہیں ہوتی۔ آپ گھر یا زمین نہیں خرید سکتے، میڈیکل انشورنس وہ نہیں ہوتی جو ریزیڈینس یا شہریوں کو ملتی ہے۔ سٹوڈنٹ ویزے کے بعد اسی ویزے پر کام کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے حال ہی میں ہزاروں ورکرز کی قلت سے مطابق جو خبریں سنی ہیں اس کا زیادہ تر حصہ میری معلومات اور مشاہدے کے مطابق اسی ویزے کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔