1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. چار اپریل کی صبح ہوا ’’احتساب‘‘

چار اپریل کی صبح ہوا ’’احتساب‘‘

انگریزی شاعری میں صنعتی انقلاب اور دو عظیم جنگوں کی وجہ سے خود کو بے بس وتنہا سمجھنے والے اداس انسانوں کے خیالات کو روزمرہ مگر ڈرامائی زبان میں بیان کرنے والے T.S. Eliot نے اپریل کو سفاک ترین"The Cruelest" مہینہ قرار دیا تھا۔ یہ مہینہ اسے سفاک اس لئے محسوس ہوا کیونکہ بہار آتے ہی پودوں پر شگوفے پھوٹتے ہیں تو اداس انسانوں کے ذہن میں یادوں کا طوفان اُمڈ آتا ہے۔ یادیں،خواہشات کے ساتھ مل کر مزید پریشان کن بن جاتی ہیں کیونکہ دلوں کو ’’کاش ایسے نہ ہوا ہوتا‘‘ والی کسک ملول کردیتی ہے۔

1979ء سے ہر سال کی 4 اپریل کی صبح کو میں بھی ایسی ہی کیفیات بھگتتا ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو اس صبح کو پھانسی لگادیئے گئے تھے۔ان کی لاش پھانسی کے بعد ورثا کے حوالے نہیں کی گئی تھی۔ ایک فوجی طیارے میں لادکر اسے لاڑکانہ پہنچا کر بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان میں دفنا دیا گیا تھا۔

اس صبح اپنی اداسی پر حیرت مجھے اس لئے بھی ہوتی ہے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کے اندازِ حکمرانی کو میں نے ایک نوجوان اور شاعرانہ خیالات کے حامل صحافی کے طور پر ہمیشہ ’’آمرانہ‘‘ محسوس کیا تھا۔ ان کے خلاف 1977ء کے انتخابا ت میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلی تو میں اس کا تقریباً لاتعلقی سے مشاہدہ کرتا رہا۔ دھاندلی کے خلاف چلی یہ قطعاً سیاسی تحریک جب ’’نظام مصطفےؐ‘‘ کے نفاذ کا مطالبہ کرنے لگی تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ ان دنوں پاکستان میں مقیم سعودی سفیر ریاض الخطیب نے اپوزیشن کو حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کیا تو میں چونک گیا۔ سمجھ آگئی کہ معاملہ’’عالمی‘‘ ہوگیا ہے۔ ’’مقامی‘‘ نہیں رہا۔ مذاکرات بالآخر ناکام ہوئے اور 4 جولائی 1977ء کی رات پاکستان میں ایک اور مارشل لاء لگادیا گیا۔

وہ مارشل لاء لگا تو محض روزمرہ تجربات کی بدولت سمجھ آگئی کہ ’’آزادیٔ اظہار‘‘ اصل میں کیا شے ہے۔ حقیقی آمروں سے یہ برداشت کیوں نہیں ہوتی۔ مسئلہ فقط آپ کو اپنے خیالات کے اظہار سے روکنے تک محدود رہے تو شاید خاموش رہ کر برداشت کیا جاسکتا ہے۔ضیاء الحق اور اس کے رفقاء کی ضد مگر یہ بھی رہی کہ ہم سب ان ہی کی طرح سوچیں۔ پتلون کی بجائے’’قومی لباس‘‘ پہنیں۔ نماز باجماعت ادا کریں اور اپنے دائیں بائیں موجود ’’تخریبی سوچ‘‘ رکھنے والوں پر نہ صرف کڑی نگاہ رکھیں بلکہ ان کی ’’مکروہ‘‘عادات اور رویوں کے بارے میں ’’ایجنسیوں‘‘ کو باخبر بھی رکھیں۔ جن صحافیوں نے ’’باصفا‘‘ لوگوں کی قطار میں کھڑا ہونے سے گریز کیا انہیں روسی سفارت خانے سے رقومات لینے کا ملزم نہیں مجرم ٹھہرا دیا گیا۔ سینکڑوں صحافی کارکن نوکریوں سے محروم کردیئے گئے۔ ان کو نوکریوں پر بحال کرنے کی تحریک چلی تو ہمارے چار ساتھیوں کو برسرِعام کوڑے لگائے گئے۔ ’’دھاندلی زدہ‘‘ انتخابات کے بجائے ’’صاف شفاف انتخابات‘‘ کو نوے روز کے دوران کروانے کا وعدہ کرنے والے نے بالآخر’’پہلے احتساب اور پھر انتخاب‘‘ کا عہد کرلیا تآنکہ ’’مثبت نتائج‘‘ حاصل کئے جاسکیں۔ ’’مثبت نتائج‘‘ مگر ضیاء الحق کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے کئی سال بعد بھی آج تک حاصل نہیں کئے جا سکے ہیں۔ ’’پہلے احتساب اور پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ البتہ آج بھی زندہ ہے۔ مسلسل کسی’’دیدہ ور‘‘کا انتظار ہورہا ہے جو قدم بڑھائے اور ہم اس کے ساتھ چلنا شروع ہو جائیں۔

بہرحال ذوالفقار علی بھٹو پر انتخاب سے پہلے احتساب کے نام پر قتل کا مقدمہ قائم ہوا تو صحافت میں تقریباً نووارد ہونے کے باوجود اس مقدمے کی کارروائی کو رپورٹ کرنا میری ذمہ داری ٹھہری۔ صرف اس مقدمہ کی روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ کرنے کی وجہ سے میں نے دریافت کیا کہ احتساب ہرگز نہیں ہورہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ذات کو نشانہ بناکر اسے تذلیل کے ہر ممکن ہتھکنڈے کا شکار بنایا جارہا ہے۔ مجھے ’’ملزم‘‘ سے ہمدردی ہوگئی۔ اس پرخلوص ہمدردی کو نہ جانے کس طرح بیگم نصرت بھٹو نے دریافت کر لیا۔گھنٹوں میرے ساتھ اسلام آباد میں مرحوم ڈاکٹر ظفر نیازی کے گھر کے ایک کمرے میں بیٹھ کر دل کا حال بیان کردیتیں۔ ہر ہفتے غالباً بدھ کے روز انہیں بھٹو صاحب سے جیل میں چند گھنٹے ملنے کی اجازت ملتی۔اس ملاقات سے لوٹنے کے بعد وہ خود کو ایک کمرے میں کئی گھنٹوں تک بند کر لیتیں۔ اداسی اور تنہائی سے اُکتاکر جن لوگوں سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتیں میرا نام بھی ان لوگوں میں شامل ہوتا۔

ان کے ساتھ ہوئی کئی ملاقاتوں کی وجہ سے میں بہت دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو مکمل یقین تھا کہ ضیاء انہیں ہر صورت پھانسی چڑھائے گا۔ان کے سامنے اپنی جان بچانے کے کئی راستے بھی رکھے گئے تھے۔اپنے شوہر کی محبت میں فطری طورپر گرفتار بیگم نصرت بھٹو ان میں سے کم از کم میری دانست میں ایک راستے کے انتخاب کی خواہاں بھی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مگر مان کر نہیں دیا۔ بڑی سختی سے انہیں یہ بھی سمجھایا کہ عوامی جمہوریہ چین جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات استوار اور مستحکم کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، ضیاء الحق پر ان کی جاں بخشی کے لئے کوئی دبائو نہیں ڈالے گا۔پاکستان میں مقیم چینی سفارتکاروں کے ساتھ لہٰذا اس ضمن میں کوئی رابطہ نہ کیا جائے۔

ترکی وہ واحد ملک تھا جس کی کوششیں اس حوالے سے بہت ٹھوس اور سنجیدہ تھیں۔ان کی تفصیلات مگر آج تک لوگوں کے سامنے نہیں آئی ہیں۔ مجھے ایک بار ترکی میں وہاں کے سابق وزیراعظم بلندایجوت سے ملاقات کا موقعہ ملا تھا۔ مجھے گماں ہے کہ میں انہیں پسند آیا تھا۔اگر سب کچھ چھوڑ کر چند روز کے لئے ترکی میں ٹھہر جاتا۔ بلند ایجوت سے مزید ملاقاتیں کرتا تو شاید ان تفصیلات کو کتابی صورت میں بیان کر پاتا۔ ذات کا محض ایک رپورٹر ہوں۔ تحقیق کے لئے ضروری صبر سے قطعاً محروم اور اس لگن سے ناآشنا جو کالم نہیں کتابیں لکھواتی ہے۔

2 اپریل کی رات ایک میجر دوست کی طفیل خبر مل گئی تھی کہ بھٹو کو پھانسی لگانے کی تیاری ہو رہی ہے۔میرے پاس یہ خبر بریک کرنے کے لئے مگر کوئی اخبار نہیں تھا۔ بیروزگار تھا۔ ہمارے ایک بہت ہی شاندار مصور ہوا کرتے تھے غلام رسول۔ لینڈ اسکیپ کو Post Impressionism والی تکنیک کے استعمال سے دل موہ لینے والا بنادیتے تھے۔3اپریل کی شام ان کے ہاں چلاگیا۔موصوف رات کے کھانے کے بعد بلب کی روشنی میں مصوری کرتے تھے۔ہنر کا ایسا کمال صرف ان کی ذات میں دیکھا ہے۔رنگوں سے کھیلتے اور اسے کینوس پر منتقل کرتے ہوئے وہ مسلسل باتوں میں مشغول رہے اور رات کے تقریباً 3 یا 4 بجے ایک طیارے کے اڑان کی آواز سناٹے میں گونجی۔ ’’اس طیارے میں بھٹو صاحب کی لاش ہے‘‘۔ مرحوم غلام رسول نے جبلی طور پر اعلان کر دیا۔ بات ان کی صبح ہونے کے بعد درست ثابت ہوئی۔

ہم دونوں کو یقین تھا کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کی اطلاع مل جانے کے بعد لوگ بپھر کر سڑکوں پر آجائیں گے۔ان کے پاس ایک فاکس ویگن گاڑی ہوا کرتی تھی۔اس میں بیٹھ کر ’’احتجاج‘‘ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔اسلام آباد سے راولپنڈی اور پھر جی ٹی روڈ پر آکر لاہور تک چلے گئے۔زندگی معمول کے مطابق تھی۔ٹریفک رواں دواں تھی۔ بازاروں میں ہجوم تھا۔چائے خانوں میں لوگ روزمرہ کی گفتگو میں مصروف تھے۔راوی کا پل پارکرتے ہی میں نے ایک کیمسٹ سے سونے کو مدد دینے والی دوگولیاں لیں۔اپنے گھر اُتر کر اپنی ماں کا پیار پوری طرح لئے بغیر بستر پر جاکے سوگیا۔کئی گھنٹوں کے بعد آنکھ کھلی تو زندگی ویسے ہی رواں تھی جیسے عام دنوں میں ہوا کرتی ہے۔ ’’احتساب‘‘ ہوگیا تھا اور لوگ’’انتخاب‘‘ کے منتظر بھی نظر نہیں آرہے تھے۔