1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. عدالت کے باہر بھی عدالتیں

عدالت کے باہر بھی عدالتیں

ترکی یقینا ان معدودے چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں کے لوگ پاکستانیوں سے بے ساختہ محبت کرتے ہیں۔ مجھے آج بھی استنبول سے چند کلومیٹر دور کا وہ گاﺅں یاد ہے جہاں ترکی کے عام انتخابات کےلئے جاری انتخابی مہم کے دوران 1997ء میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ اردوان کی موجودہ جماعت ان دنوں ”فضیلت پارٹی“ کہلاتی تھی۔ اس پارٹی نے اس گاﺅں کےلئے ایک خاتون امیدوار کو چن رکھا تھا۔ اس خاتون کے شوہر لاہور سے تعلق رکھنے والے پاکستانی تھے۔ تعلق کبھی اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا تھا۔ اعلیٰ تعلیم کےلئے امریکہ چلے گئے تھے۔ وہاں ان کی ملاقات اس خاتون سے ہوئی اور وہ اس سے شادی کرکے استنبول آبسے۔ ”فضیلت پارٹی“ کے سیکرٹریٹ میں شاید وہ کسی اہم عہدے پر بھی فائز تھے۔ میری ان سے اچانک ملاقات ہوگئی اور انہوں نے مجھے اپنی بیوی کی انتخابی مہم کو فیلڈ میں جاکر دیکھنے کا موقع فراہم کردیا۔

اس خاتون امیدوار نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے غالباً اس بات کا ذکر بھی کیا کہ پاکستان سے ایک صحافی اس کے جلسے کا مشاہدہ کرنے آیا ہوا ہے۔ اس نے جب یہ بات کہی تو لوگ میری جانب دیکھ کر خوش آمدید والی کیفیت کا اظہارکرنےوالی تالیاں بجانا شروع ہوگئے۔ جلسے کے اختتام پر دس سے زیادہ بوڑھی خواتین میرے گرد ہالے کی صورت جمع ہوگئیں۔ ان کے سروں پر سکارف، آنکھوں میں خوشی کے آنسوں اور ہاتھوں کی انگلیوں میں مجھے شفقت پہنچانے کی گرمائش تھی۔ میں ان کی زبان سمجھ نہیں سکتا تھا۔ یہ بات مگر جبلی طورپر دریافت کرلی کہ وہ مجھے صرف ان کی بنائی لسی پینے کے بعد ہی اس گاﺅں سے جانے کی اجازت دیں گی۔

ان کی بے پناہ محبت نے مجھے ترکی کی تاریخ اور حالاتِ حاضرہ کو جاننے کی لگن میں مبتلا کر دیا۔ عمر زیادہ نہ ہو گئی ہوتی تو شاید ترکی زبان بھی سیکھنے کی کوشش کرتا۔ اب وہاں کے ادیبوں اور تبصرہ نگاروں کو صرف انگریزی تراجم کے ذریعے ہی پڑھ سکتا ہوں۔

ترکی اور عالمی اخبارات میں ترک صحافیوں کے لکھے مضامین میں گزشتہ ایک سال سے تواتر کے ساتھ یہ بات بہت دُکھ کے ساتھ لکھی جارہی ہے کہ ان کا ملک ”پاکستان“ بن رہا ہے۔ پاکستان ان کی دانست میں ایک پھلتا پھولتا ملک تھا۔ 1980ء کی دہائی میں لیکن ”افغان جہاد“ میں اُلجھ گیا۔ ترکی نے ایسی ہی غلطی، ان صحافیوں اور ادیبوں کی نظر میں، شام کے معاملات کو ملوث ہوکر دہرائی۔ اب اردوان کی ”بادشاہی“ ہے اور انتہاءپسندوں کی جانب سے تقریباََ ہر دوسرے ہفتے ہوا کوئی دہشت گرد حملہ۔ ترکی میں روسی سفیر کے قتل کے بعد نیوایئر کی رات استنبول کے ایک کلب میں ایک شخص گھس گیا۔ اندھا دھند فائرنگ سے اس نے تنِ تنہا 40 سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ سوچنے سمجھنے والا ہر حساس ترک اس واقعے کے بعد خود کو انتہاءپسندوں کے سامنے بالکل بے بس محسوس کر رہا ہے۔ خوفزدہ اور گھبرایا ہوا۔

ذرا غیر جذباتی انداز میں سوچیں تو 2017ء کا پاکستان دہشت گردی کے تناظر میں پچھلے کئی سالوں کی نسبت بہت پُرسکون دکھائی دیتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کے آپریشن ضربِ عضب کو سکون کی یہ فضاءقائم کرنے کا کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہو گی۔ ساتھ ہی اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کےلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔

دہشت گردی مگر انتہاءپسند سوچ کی انتہاءہوا کرتی ہے۔ اس سوال پر غور کرتے رہنا ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کے باوجود ہمارے ذہنوں میں ہم سے مختلف سوچ رکھنے والوں کےلئے برداشت کی عادت لوٹ آئی ہے یا نہیں۔ انتہائی دُکھ کے ساتھ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے ذہن ہرگز نہیں بدل رہے۔ اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں بٹا ہمارا معاشرہ بلکہ دن بدن متحارب گروہوں میں تقسیم ہوتا چلاجارہا ہے۔

اندھی نفرت اور عقیدت کا ثبوت درکار ہو تو آپ کو صرف سوشل میڈیا کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں۔ نام نہاد ریگولر میڈیا بھی جسے کبھی صحافتی تجربے سے مالا مال ایڈیٹرز وغیرہ کنٹرول کیا کرتے تھے اب Ratings کی تلاش میں قطعی دیوانہ ہوکر اپنا توازن کھو بیٹھا ہے۔ پانامہ دستاویزات کی وجہ سے اچھلا ہوا قضیہ ایک بار پھر سپریم کورٹ کے روبرو ہے۔ یہ کالم لکھنے کے بعد میں بھی ریموٹ اٹھا کر مختلف ٹی وی چینلوں کے ذریعے یہ جاننا شروع ہو جاﺅں گا کہ نئے سال کے پہلے ہفتے میں ایک نسبتاً نئے بنچ کے سامنے اس معاملے کو فریقین کس انداز میں پیش کریں گے۔

4 جنوری کی سماعت شروع ہونے سے ایک دن قبل مگر عمران خان صاحب نے ایک بھرپور پریس کانفرنس کردی۔ اس کانفرنس میں انہوں نے جہانگیر ترین کی معاونت سے چند دستاویزات دکھائیں جنہوں نے ان کی دانست میں یہ ”طے“ کر دیا کہ مریم نواز شریف لندن کے فلیٹ خریدنے والی آف شور کمپنی کے اصل مالکان میں سے ایک تھیں۔ ان دستاویزات کے دریافت ہوجانے کے بعد، عمران خان صاحب کے خیال میں، سپریم کورٹ نواز شریف اور ان کے بچوں کو ”مجرم“ قرار دینے کےلئے زیادہ سے زیادہ دو ہفتے درکار ہوں گے۔

عمران خان جب بھی پریس کانفرنس کرتے ہیں تو جواب آں غزل کے طور پر مسلم لیگ کی میڈیا ٹیم بھی ٹی وی سکرینوں پر براجمان ہو جاتی ہے۔ دونوں اطراف سے پریس کانفرنسیں ختم ہو جائیں تو شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک اینکر خواتین و حضرات اپنی عدالتیں لگا لیتے ہیں۔ ان پریس کانفرنسوں اور ٹی وی پر لگائی عدالتوں کی جہ سے ”فیصلہ“ ہو چکا ہے۔

اگر آپ عمران خان اور تحریک انصا ف کے حامی ہیں تو یہ بات طے کرچکے ہیں کہ شریف خاندان نے ناجائز ذرائع سے دولت کمائی، اسے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونِ ملک منتقل کیا، ان رقوم کو آف شور کمپنیاں بنا کر جائیدادیں خریدنے کےلئے استعمال کیا اور پاکستان کے لوگوں کو خبر تک نہ ہونے دی۔

نواز شریف کے چاہنے والے اس سوچ سے اتفاق نہیں کریں گے۔ ان دوفریقین کی Either/Or سوچ کے ہوتے ہوئے کسی منصف کےلئے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کوئی فیصلہ سنانے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ پانامہ والے قصے پر فریقین نے چونکہ اپنے ذہن بنا لئے ہیں، اس لئے جس فریق کی پسند کا فیصلہ نہ آیا وہ اپنا غصہ کسی نہ کسی صورت منصفوں پر ہی نکالے گا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی ساکھ اوروقار پر سوال اٹھیں گے تو معاشرے میں ابتری اور بے چینی مزید بڑھے گی۔ اس ابتری کا مگر ہم ادراک نہیں کر پا رہے ہیں۔

سیاسی حوالوں سے ہوئی اس خوفناک تقسیم کے ساتھ ہی ساتھ مذہبی انتہا پسندوں نے بھی اپنی قوت کا بھرپور اظہار عید میلاد النبیﷺ کے روز چکوال کے ایک نواحی گاﺅں میں کیا۔ کفر کے فتوے اب سلمان تاثیر کے بیٹے شان تاثیر کےلئے بھی جاری ہو رہے ہیں۔

مذہبی انتہاءپسندوں کی طاقت کا ادراک کرنا ہو تو ذرا یہ بھی جان لینے کی کوشش کر لیجئے کہ 3 جنوری کی سہ پہر اپنی پریس کانفرنس کے آغاز سے قبل عمران خان جیسے عوامی مقبولیت کی انتہاﺅں پر پہنچے اور ضدی واکھڑ مزاج مانے رہ نما کو انتہائی عاجزی کے ساتھ معافی کن حضرات سے اور کیوں مانگنا پڑی۔ عمران خان کی غیر مشروط معذرت و معافی سے چند ہفتے قبل موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کے عقیدے پر بھی خوفناک سوالات اٹھائے گئے تھے۔ ہمارے ایمان اور عقیدے کی ”تصدیق“ کا حق و اختیار لہذا مذہبی انتہاءپسند گروہوں نے قطعی طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ ہم بے بس ہوئے اس پر احتجاج کرنے کی ہمت سے بھی محروم ہوچکے ہیں اور ہمیں یہ ہمت لوٹانے کو ہماری ریاست تیار ہوکر ہی نہیں دے رہی۔