مجھے سال اور مہینہ تو اس وقت صحیح طورپر یاد نہیں آرہا۔ اپنے کمرے سے نکل کر گھر کے اس کمرے میں جائوں جہاں میری بیوی نے میرا چھپا ہوا کام مختلف جلدوں اور فائلوں کی صورت میں سٹور کر رکھا ہے تو شاید معلوم ہوجائے۔ صحیح تاریخ کی تلاش میں لیکن کئی گھنٹے صرف ہوجائیں گے۔ ویسے بھی میں ایک اخباری کالم لکھتا ہوں کتاب نہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک محترم جج نے چند ہی روز قبل بالکل درست فرمایا تھا کہ اخبارات کے صفحات بالآخر پکوڑے بیچنے کے لئے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ ایسے صفحات میں چھپے مواد کے لئے تحقیق کی مشقت سے کیوں گزروں؟
بہرحال محترمہ بے نظیر بھٹو کا دوسرا دورِ حکومت تھا۔ میں ان دنوں ایک انگریزی اخبار کے لئے قومی اسمبلی کی کارروائی پر کالم اور خارجہ امور کے بارے میں تجزیاتی رپورٹنگ کیا کرتا تھا۔ سردار آصف احمد علی ان دنوں ہمارے کل وقتی وزیر خارجہ ہوا کرتے تھے۔ خارجہ امور کے بارے میں اگرچہ وہ اتنے ہی بے خبر تھے جتنے ان دنوں چکری سے آئے دبنگ راجپوت بطور وزیر داخلہ اسلام ا ٓباد سے ’’گم شدہ‘‘ ہوئے شاعر کے بارے میں نظر آتے ہیں۔ امریکہ سے ہمارے تعلقات محترمہ کی جانب سے واشنگٹن میں تعینات ہوئی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے سپرد تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو جبلی طور پر علم ہے کہ خارجہ امور کے بارے میں ہدایات وزیراعظم کے بجائے کہیں اور سے لینا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ان دنوں بھی بہت کشیدہ تھے۔ قندھار کے ایک گائوں سے طالبان نمودار ہوکر کابل پر قبضہ کرنے کی جانب بڑھ رہے تھے۔محترمہ کے وزیر داخلہ مرحوم نصیر اللہ بابر کو طالبان کا ’’موجد‘‘ نہیں تو مربی اور سرپرست ضرور سمجھا جاتا تھا۔ وہ میرے ساتھ بہت شفقت فرماتے۔ انہیں دُکھ تھا کہ میرے اندر بیٹھا ایک ’’متعصب لبرل‘‘ طالبان کو صحیح تناظر میں رکھ کر نہیں دیکھ رہا۔ انہوں نے مجھے اورحامد میر کو ملاعمر سے ملاقات کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔
ملاعمر سے ملاقات کا بندوبست کرنے کے بہانے آنکھوں پر سیاہ چشمہ پہنے ایک خشک اور پستہ قد شخص نے ہم دونوں کو اسلام آباد کے ایک چینی ریستوران میں بہت مہنگا کھانا بھی کھلایا۔ مجھے ان صاحب کی ’’جاسوسانہ‘‘ کم گوئی اور احتیاط نے بہت بور کیا۔ حامد مگر "Adventurous" ٹائپ ہے۔ اکثر ایمان کی حرارت بھی اسے ضرورت سے زیادہ متحرک بنادیتی ہے۔ وہ اس ملاقات کے بعد ملاعمر کا انٹرویو کرنے قندھار چلا گیا۔ میں لیکن ’’باجو کی گلی‘‘ سے نکل گیا۔
مرحوم بابر صاحب میرے فرار سے بہت ناخوش ہوئے۔ میرا قندھار جاکر ملاعمر سے ملنا وہ اس لئے بھی ضروری سمجھتے تھے کیونکہ میں انگریزی اخبار کے لئے لکھتا تھا۔ محترمہ بھی میری تحریروں کو غور سے پڑھا کرتی تھیں اور اکثر کچھ باتوں سے ناراض ہوکر متعلقہ وزراء سے گلہ کرتیں کہ مجھے صحیح طورپر ’’بریف‘‘ کیوں نہیں کیا گیا تھا۔
ہمارے ہاں بہت کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ کابل میں موجود برطانیہ کا سفارت خانہ درحقیقت دلی میں بیٹھے وائسرائے کی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ وسیع وعریض رقبے پر قائم اس سفارت خانے کو برطانوی ہند کی وراثت کے طورپر پاکستان کے حصے میں آنا تھا۔ جاپان میں موجود برطانوی سفارت خانہ بھارت کو بھی اس ورثے کی صورت ملا تھا۔
برطانیہ ہماری وراثت کو پاکستان کے سپرد کرنے میں لیکن لیت ولعل سے کام لیتا رہا۔محترمہ کی دوسری حکومت کے دوران کابل کے خلفشار سے تنگ آکر اس نے بالآخر یہ عمارت پاکستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک حوالے سے اس عمارت کا ’’قبضہ‘‘ حاصل کرنے کے لئے وزارتِ خارجہ کے ایک بہت ہی بردبار افسر، قاضی ہمایوںصاحب، کو کابل بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ افغان دارالحکومت میں اپنے قیام کے دوران قاضی صاحب کو ان دنوں کے افغان صدر برہان الدین ربانی کو اسنادِ سفارت بھی پیش کرنا تھیں۔ بابر صاحب نے حکم دیا کہ میں قاضی صاحب کے ساتھ چلاجائوں۔ میں نے ان کا حکم ماننا ضروری سمجھا۔ اصل وجہ اس کی مگر یہ تھی کہ میں نے شاہ شجاع کے زمانے میں جو 1842ء کی خوفناک جنگ کے بعد ختم ہوا، اس سفارت خانے سے جڑی کئی داستانوں کو پڑھ رکھا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی بلیئرڈ ٹیبل بھی اسی سفارت خانے میں رکھی ہوئی تھی۔ بابر صاحب کو خوش کرنے سے زیادہ لالچ مجھے اس تاریخی عمارت کو دیکھنے کا تھا۔
غالباً 1995ء کا اختتام یا 1996ء کا آغاز تھا۔ کابل میں شدید سردی تھی۔ ہم طورخم سے جیپ کے ذریعے جلال آباد سے ہوتے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔ راستے میںکئی مقامات پر مختلف مجاہدین گروپوں کے لگائے ناکے موجود تھے۔ان میں سے ایک گروہ نے سروبی کے دہشت کردینے والے پہاڑوں کے دامن میں ایک مقام پر روک کر ہمیں زبردستی اپنا مہمان بناکر دوپہر کا کھانا کھلادیا۔اس گروہ کا کمانڈر تیس برس سے کم دکھتا ایک دبلا پتلا کمانڈر تھا۔ اس کی آنکھیں مست تھیں اور زبان کا لہجہ بہت نرم۔ وہ کئی گھنٹوں تک ہمیں سمجھاتا رہا کہ طالبان درحقیقت بھارت کے ایجنٹ ہیں۔ وہ پاکستان کے ’’دوست‘‘ مجاہدین کو کمزورکرنے کے لئے کھڑے کئے گئے ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ محض خوف کے مارے میں اس کمانڈر کی ’’پاکستان نوازی‘‘ کو منافقانہ انداز میں سراہتا رہا۔ قاضی صاحب نے بھی ایک جید سفارت کار کی طرح اس کی باتوں کو بہت اطمینان سے سنا۔
سفارت خانے کی وسیع وعریض عمارت میں واقع ایک کمپائونڈ میں رات بسر کرنے کے بعد صبح آنکھ کھلی تو پھولوں کی خوشبو سے معطر ہوا نے حیران کردیا۔ ہلکی بوندا باندی کے ساتھ برف کے بے ضرر ٹکڑے تنکوں کی طرح برس رہے تھے۔ کمرے میں بیٹھے رہنا ناممکن ہوگیا۔ میں ایک اور صحافی دوست کے ساتھ چمن میں چہل قدمی کرنا شروع ہوگیا۔موسم کی مناسبت سے کئی اشعار ذہن میں آنا شروع ہوگئے۔ میں نے انہیں ڈرامائی آواز میں پڑھتے ہوئے چہل قدمی جاری رکھی تو اچانک پہاڑوں سے چند میزائل فائر ہوئے۔ جن میں ایک ہم سے چند ہی قدم کے فاصلے پر گرا۔
ہم گھبرائے ہوئے سفارت خانے کی دفتری عمارت کی طرف بھاگے۔ وہاں موجود عملے نے آگاہ کیا کہ پاکستان کے سفارت خانے کی حدود میں ایسے میزائل روزگرتے رہتے ہیں۔ نظربظاہر انہیں مجاہدین کے متحارب گروہ ایک دوسرے کی پناہ گاہوں کی طرف پھینکتے ہیں۔ چند گروہ مگر جان بوجھ کر پاکستان کو اپنے وجود کا احساس دلانے کے لئے ایک آدھ میزائل ہماری حدود میں بھی پھینک دیتے ہیں۔ ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہیے اور خواہ مخواہ کی چہل قدمی سے گریز۔
ہمارے سفیر کو افغان صدارتی محل سے ملاقات کا وقت ملنے میں دیر ہورہی تھی۔ میں نے اپنے صحافی دوست ضیاء اقبال شاہد کو جواب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس بات پر قائل کیا کہ ہم دونوں قدیم کابل کا ایک چکر لگاتے ہیں۔ سفارت خانے کے چند اہل کاروں نے حوصلہ شکنی کرنا چاہی تو ہم ’’صحافی‘‘ بن کر اکڑ گئے۔
عمارت سے باہر نکلتے ہی مگر 25سے زیادہ لڑکوں کا ایک غول ہمارے پیچھے لگ گیا۔ تالیاں بجابجا کر وہ ہم پر ’’پنجابیان…‘‘ (اس کے بعد والا لفظ میں استعمال نہیں کرسکتا) والا آوازہ کستے رہے۔ایک دو نے ہمیں خوفزدہ کرنے کے لئے ہم پر پتھر بھی پھینکے۔ وہ مگر یقینی طورپر ہمیں نشانہ نہیں بنارہے تھے۔ مقصد صرف ہمیں خوفزدہ کرنا تھا۔
انکے غول نے مگر ہمیں شہر کی طرف جانے سے گریز پرمجبور کردیا۔ ہم سفارت خانے کی دفتری عمارت میں لوٹ آئے۔ وہاں موجود چند اہلکار ہمارے ’’صحافی‘‘ ہونے کا دل ہی دل میں لطف اٹھاتے رہے۔ اس سفر میں ہوئے کئی واقعات کی بدولت کم از کم مجھے سمجھ آگئی کہ افغان جہاد کی بھرپور سرپرستی کے بعد پاکستان نے اس ملک میں کس نوعیت کی Strategic Depths تراش کی ہیں۔
اسلام آباد لوٹ کر افغان پالیسی کے بارے میں فیصلہ سازی کرنے والوں کو اپنے تجربات سے آگاہ کیا تو انہوں نے بہت رعونت سے مجھے سمجھایا کہ کابل ’’فارسی دانوں‘‘ کا شہر ہے۔ یہاں کے باسی شمالی اتحاد کے حامی ہیں۔ پاکستان کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کی نظر میں ہم پشتون مجاہدین کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ مجھے یقین دلایا گیا کہ افغانستان کے پشتون اکثر یتی علاقوں میں پاکستانیوں کے ساتھ ایسا سلوک ہرگز نہیں ہوتا۔ جون 2004ء میں لیکن میں نے قندھار میں بھی 5 راتیں اور چار دن صرف کئے تھے۔ وہاں بھی خود سے کوئی خاص محبت دریافت نہ کرپایا۔
اپنی آنکھ سے دیکھے کئی زمینی حقائق کی بنیاد پر میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ ہماری ریاست بننے کو ہر وقت کیوں تیار رہتی ہے۔ کاش مجھے کوئی سمجھا پائے۔