1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. امن کی درس گاہ میں درندگی

امن کی درس گاہ میں درندگی

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے نوٹس لے لیا ہے اور وزیراعظم سمیت ہمارے ملک میں سیاست دان مشہور ہوئے مختلف رہنمائوں کی طرف سے مذمتی بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔

مجھے خدشہ ہے کہ پیر سے شروع ہونے والے ہفتے کے دوران مردان کو چارسدہ سے ملانے والی سڑک پر واقع زیدہ نامی گائوں کے کسی مقام پر ہیلی کاپٹر اُترنا شروع ہوجائیں گے۔ان میں سے وی آئی پیز برآمد ہوں گے ایسے وی آئی پیز کے تحفظ کو یقینی بنانے والی پولیس اور دیگر سکیورٹی ایجنسیز کے دستے جیپوں کے ایک قافلے سمیت ان کے منتظر ہوں گے۔’’ہٹو بچو‘‘کا منظر ہوگا۔ سائرن بجیں گے اور یہ قافلہ زیدہ کے ایک گھر پہنچ کر رُک جائے گا۔ وہاں موجود مشال نامی ایک نوجوان کا والد مجبور ہوگا کہ وہ سرجھکائے ان وی آئی پیز سے ’’پرسہ‘‘ وصول کرے ان کی طرف سے کئے’’ہر صورت میں انصاف فراہم کیا جائے گا‘‘ والے کھوکھلے وعدوں پر اعتبار کرے۔ ہمارے 24/7 مستعد رہنے کے دعوے دار چینلوں کو بھی معمول کی نشریات روک کر اس گائوں میں رچائے ناٹک پر Live Cuts کے ذریعے مسلسل توجہ دینا ہوگی۔ منافقت انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ سکرینوں پر راج کرتی نظر آئے گی اور ہم اس کے بارے میں قطعاََ کوئی شرمندگی محسوس نہیں کریں گے۔

زیدہ کے جس گھر میں مجھے منافقانہ ناٹک رچائے جانے کا خدشہ ہے وہاں سے ایک شاعرانہ سوچ رکھنے والا خوب رو نوجوان مشال کچھ مہینوں پہلے مردان نام کے ایک شہر گیا تھا۔ میرے سکول کے زمانے میں نصاب کی کتابوں میں اس شہر کا ذکر صرف اس وجہ سے ہوتا تھا کہ وہاں ’’ایشیاء کی سب سے بڑی شوگرمل‘‘ ہوا کرتی تھی۔کہا جاتا ہے کہ اب اس شہر میں ایک وسیع وعریض رقبے پر ایک خوب صورت عمارت بھی تعمیر ہوئی ہے۔ اس عمارت کو ’’یونیورسٹی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ’’یونیورسٹی‘‘ کو ایک ایسے سیاست دان سے منسوب کیا گیا ہے جو ’’باچا خان‘‘ کا سیاسی وارث تھا۔ اس خان کو ’’سرحدی گاندھی‘‘بھی کہا جاتا تھا سنا ہے یہ ’’گاندھی‘‘ عدم تشدد کے فلسفے کا بہت بڑا پرچارک تھا۔ پشتونوں کو بندوق پھینک کر کتابوں سے لولگانے کی تلقین کیا کرتا تھا۔

گزشتہ جمعرات کے دن تشدد سے نفرت کی علامت بنائی اسی عمارت میں نوجوانوں کے ایک بہت بڑے ہجوم نے بھیڑیوں کے غول کی صورت اپنے گائوں سے خیرات کی صورت آئی رقوم کی بدولت صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے مشال کو گھیرا۔ اسے گھونسوں، ٹُھڈوںاور ڈنڈوں سے خوب زدوکوب کرنے کے بعد سر میں گولی مارکر ہلاک کردیا۔مشال کی لاش کو بعدازاں برہنہ کردینے کے بعد یونیورسٹی کہلاتی اس عمارت کے ایک ہوسٹل کے سامنے زمین پر منہ کے بل لٹا دیا گیا۔ مشال کی جان لینے کے بعد بھی بھیڑیوں کے غول کو قرار نہیں آیا تھا۔ وقتاً فوقتاً انسان دِکھتے کچھ نوجوانوں کا ایک غول اس لاش کے قریب آتا اپنے ہاتھ میں موجود موبائل فون کو اس غول میں سے کئی لڑکوں نے کیمرہ بناکر مشال کی لاش کو ٹھڈے مارتے ہوئے سلفیاں لیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی سلفیوں کی جمعرات کی شام تک ناقابل حد تک بھرمار ہوچکی تھی۔

اس ملک میں پارسائی، ایمان داری اور انسانیت کو فروغ دینے کے دعوے دار اینکر خواتین وحضرات مگر ان سلفیوں کا ذکر کرنے سے کتراتے رہے۔ پھیپھڑوں کے پورے زور سے بڑی رعونت کے ساتھ حق وصداقت کے علمبردار بنے یہ خواتین وحضرات مشال کا نام تک نہ لے سکے پاٹے خانوں کی ہوا خارج ہوچکی تھی۔

ان میں سے ہر ایک کو خدشہ تھا کہ مشال کے قتل کے بارے میں ادا کئے محتاط ترین الفاظ بھی انہیں توہینِ دین کا مرتکب ٹھہرا سکتے ہیں اور اپنی جان کسے پیاری نہیں ہوتی۔ چند دیوانوں نے مگر جرأت دکھا ہی دی۔ مردان میں ہوئے قتل کا تذکرہ کردیا وہ ذکر ہوگیا تو جمعہ کا پورا دن ہم صحافیوں نے ایسا مواد جمع کرنے میں صرف کردیا جو سکرینوں پر یہ ثابت کرسکے کہ مشال منہ پھٹ تھا۔تلخ سوالات اٹھاتا تھا مگر اپنے دین سے بے پناہ محبت کرنے والا مسلمان بھی تھا۔ بھیڑیوں کے غول کے ہاتھوں اپنی جان گنوادینے کے بعد مشال اپنے ربّ کی عدالت میں جا چکا ہے۔ میرے ربّ کو مشال کے کردار کے بارے میں کچھ طے کرنے کے لئے ہم صحافیوں کی جانب سے جمع کئے ثبوتوں کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ ہم مگر یہ ثبوت جمع کرنے میں مصروف رہے۔

مشال کو دینِ اسلام کی عقیدت میں گرفتار ثابت کرنے کو بے چین صحافیوں کو اصل فکر یہ لاحق تھی کہ مبادا اُن پر ایک ’’گستاخ‘‘ کے قتل پر سیاپا کرنے کی تہمت نہ لگ جائے۔ ثبوت مشال کی حمایت میں ہرگز اکٹھے نہیں کئے گئے تھے۔مقصد ان کا صرف ہم صحافیوں کو یہ ہمت عطاء کرنا تھا کہ بھیڑیوں کے غول کے ہاتھوں مارے گئے نوجوان کے ’’سوگ‘‘ میں چند لفظ ادا کرسکیں۔

مشال کو ’’اچھا مسلمان‘‘ ثابت کرنے والے ثبوتوں کا البتہ یہ فائدہ ضرور ہوا کہ جب ایمان کی دولت سے مالا مال اینکر خواتین وحضرات نے اس کے بارے میں چند ’’مثبت‘‘ شواہد برسرِ عام کردئیے تو سیاستدانوں نے اس کے قتل کے بارے میں مذمتی بیانات دینا شروع کردئیے۔بیانات آنے کے بعد اب زیدہ کے دورے پر ہوںگے۔ مشال کے باپ کو پرسہ دیا جائے گا۔فراہمی انصاف کے وعدے ہوں گے۔ بدلے گا مگر کچھ بھی نہیں۔

آئندہ آنے والے مہینوں میں کسی بھی دن پاکستان کے کسی اور شہر میں کوئی اور مشال برہنہ لاش کی صورت منہ کے بل سڑک پر بے یارودمدد گار پڑاہوا نظر آئے گا۔ شائد آئندہ جو لاش نظر آئے اس کے ’’اچھا مسلمان‘‘ ہونے کے ثبوت بھی مناسب صورت میں جمع نہ ہو پائیں۔ حق وصداقت کے بلند آہنگ علمبردار اس کی ہلاکت کے بارے میں خاموش رہنا ضروری سمجھیں۔کسی سیاست دان کو مذمتی بیان جاری کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔اس ممکنہ لاش کے گرد بھی وحشیوں کا ایک غول جمع ہوگا۔اس لاش کو ٹھڈے مارتے ہوئے سلفیاں لی جائیں گی یہ سلفیاں لینے والے تاعمر اُن تصاویر کو بہت فخر اور رعونت کے ساتھ لوگوں کو دکھاتے رہیں گے۔

میرا اصرار ہے کہ مشال کا قتل ہرگز Game Changer وغیرہ نہیں ہے۔آج سے چند ماہ قبل ہماری ریاست کے کسی ادارے نے چند بلاگرز کو غائب کردیا تھا۔ان کی گمشدگی کے دوران میڈیا کے ذریعے لوگوں کی اکثریت کے ذہن میں یہ خوف ڈال دیا گیا کہ یورپ کے کسی ’’اسلا م دشمن‘‘ ملک میں یقینا کوئی گروہ موجود ہے جو پاکستان میں مقیم چند گمراہ ہوئے لوگوں کو دینِ اسلام کی اہانت کے لئے سوشل میڈیاکو استعمال کرنے پر اُکسارہا ہے۔ ہمیں اس گروہ کی نشان دہی کرنا ہوگی اور پاکستان میں موجود اس گروہ کے سہولت کاروں کو کڑی سزائیں دینا ہوگی۔ وزیر اعظم سمیت ہمارے ملک کے تمام بااختیار لوگ تواتر کے ساتھ عوام کو یقین دلارہے ہیں کہ مذکورہ گروہ کی نشاندہی ہر صورت ہوگی اس گروہ کے پاکستانی سہولت کار بھی عبرت ناک سزائوں کا نشانہ بنیں گے۔

چونکہ ہماری ریاست اور اعلیٰ عدالتیں یہ طے کرچکی ہیں کہ اہانتِ دین کی ایک گھنائونی سازش موجود ہے،اس لئے ہر پاکستانی مجبور ہے کہ ہمہ وقت مستعدر ہے اور اپنی صفوں میں گھسے اس گروہ کے ممکنہ سہولت کاروں کو ’’رنگے ہاتھوں‘‘پکڑ کر لاتوں،گھونسوں اور گولیوں سے عبرت کا نشانہ بنائے۔پاکستان کے ہر شہر اور طبقے سے لہذا’’مشال خان‘‘ منظر عام پر آتے رہیں گے۔فی الوقت آپ اُس منافقانہ ناٹک سے جی بہلائیں جو زیدہ میں شروع ہونے والا ہے۔اس ناٹک سے توجہ ہٹانے کے لئے سپریم کورٹ کو شایداب پانامہ پر فیصلہ بھی سنادینا پڑے۔