1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. آصف علی زرداری کے ساتھ ”وہ کچھ“ نہیں ہو گا

آصف علی زرداری کے ساتھ ”وہ کچھ“ نہیں ہو گا

پیپلز پارٹی کو آصف علی زرداری سے ”نجات“ دلوانے کی کہانی بہت پرانی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے 1988ء میں پہلی بار اس ملک کی وزیراعظم بن جانے کے چند دن بعد ہی اس کہانی کا آغاز ہوگیا تھا۔”ذرائع“ کی مہربانیوں سے میرے کئی صحافی دوستوں نے وزیراعظم کے شوہرکو ان دنوں ایک ایسے شخص کے طورپر پیش کرنا شروع کردیا جو مبینہ طورپر دولت کمانے کی ہوس میں مبتلا ہے۔اپنی اس ہوس کی تسکین کے لئے وہ لوگوں کی ٹانگوں سے بم بندھوا کر انہیں اغواءکروالیا کرتا تھا۔وغیرہ وغیرہ۔

سچی بات یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے ازلی مخالفین سے کہیں زیادہ ایسی کہانیوں کو کئی نام نہاد”جیالوں“ نے سرگوشیوں کے ذریعہ پھیلایا تھا۔یہ”جیالے“ خود کو ”نظریاتی“ اور”بھٹو کے نظریات“ کا حقیقی وارث کہلاتے ہیں۔ان میں سے کئی ایک نے ضیاءدور میں بہت ظلم بھی برداشت کئے تھے۔انہیں دُکھ تھا کہ ان کی”بی بی“ کا شوہر ”سیاسی“ نہیں”مجرمانہ ذہنیت“ کا حامل ثابت ہورہا ہے۔

ان کہانیوں کی بدولت محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو غلام اسحاق خان نے اگست 1990ء میں فارغ کردیا۔محترمہ کی فراغت کے بعد انہیں اپنے شوہر سمیت سیاست سے الگ ہوکر غیر ملک چلے جانے کی ترغیب دی گئی۔محترمہ نے انکار کردیا تو ایک سخت گیر اور بہت ہی ”بااصول“ مشہور ہوئے DMG مارکہ افسر-روئیداد خان- کو آصف علی زرداری کے خلاف احتساب سیل کے ذریعے مقدمات قائم کرنے پر مامور کردیا گیا۔

مرحوم جام صادق علی ذاتی رنجشوں کی بناءپر پیپلز پارٹی چھوڑ کر غلام اسحاق خان کے ساتھ مل گئے تھے۔انہیں سندھ کا بااختیار وزیر اعلیٰ بنادیا گیا۔موصوف اسلا م ا ٓباد آتے تو ہر صورت میرے ساتھ ملاقات کا وقت نکالتے۔وہ کم خوابی کے مریض تھے۔دوپہر کے کھانے کے بعد چند گھنٹے سونا ان کی مجبوری تھی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے تقریباََ ایک ہفتے بعد وہ اسلام آباد آئے۔دوپہر کا کھانا کھلوایا۔مہمان چلے گئے تو وہ اپنے بیڈروم کو روانہ ہوگئے اور مجھے ایک ملازم کو بھیج کر وہاں طلب کرلیا۔

میں وہاں پہنچا تو بستر پر لیٹے ہوئے ایک طویل جمائی لینے سے پہلے انہوں نے مجھے محترمہ کے ساتھ ہمدردی رکھنے کا طعنہ دیا مگر ساتھ ہی Forewarn بھی کردیاکہ :”میں نے پریذیڈنٹ اسحاق کو بتادیا ہے کہ لڑکی کو اوقات میں لانے کے لئے حاکم (علی زرداری) کے بیٹے کو گرفتار کرنا ہوگا۔اس گرفتاری کے بعد یہ دیواروں سے ٹکریں مارتی رویاکرے گی۔“

مجھے ”پیغام“مل گیا۔جام صادق علی کے اسلام آباد والے گھر سے میں فوراََ اپنے اخبار کے دفتر پہنچا اور خبر لکھ دی کہ آصف علی زرداری کو مختلف سنگین مقدمات کے تحت گرفتار کیا جارہا ہے۔میرا اخبار اس خبر کو چھاپنے میں کافی متذبذب رہا۔بہت سوچ بچار کے بعد اسے صفحہ اوّل پر چھاپا تو گیا مگر سنگل کالمی جس کا بقیہ اندرونی صفحات میں گم ہوجایا کرتا ہے۔لطیفہ یہ بھی ہے کہ جب یہ خبر چھپ گئی تو بی بی کے ’جیالوں“ نے انہیں بہت اعتماد کے ساتھ یقین دلانے کی کوشش کی کہ میں غلام اسحاق خان کا کارندہ بن کر ان کی جماعت کو Demoralize کرنے والی خبریں لکھ رہا ہوں۔

بہرحال میری خبر چھپنے کے عین ایک روز بعد آصف علی زرداری گرفتار ہوگئے۔جیل میں ہوتے ہوئے بھی وہ 1990ء کے انتخابا ت میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔اس انتخاب کے بعد بھی لیکن انہیں اسمبلی کے اجلاسوں میں آنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔جبکہ کسی گرفتار رکن اسمبلی کا یہ قواعد وضوابط کے مطابق حق ہوا کرتا ہے۔قومی اسمبلی کے پیپلز پارٹی کی نشستوں پر بیٹھنے والے چند اراکین محترمہ کی دلجوئی کے لئے اکثر آصف علی زرداری کو اسمبلی میں لانے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کرتے۔اس احتجاج میں لیکن کوئی جان نہیں ہوا کرتی تھی۔

بالآخرایک دن محترمہ بے نظیر بھٹو خود ان دنوں کے سپیکر نیشنل اسمبلی گوہر ایوب کے دفتر چلی گئیں۔ان دونوں کے مابین تنہائی میں ایک طویل ملاقات ہوئی۔اس ملاقات کے بعد گوہر ایوب یہ بات ثابت کرنے پر ڈٹ گئے کہ بحیثیتِ سپیکر قومی اسمبلی وہ جب کسی رکن کو ایوان میں لانے کا حکم دیں تو اس رکن کو ہر صورت وہاں لانا ہوگا۔حکومت کو بالآخر گوہر ایوب کی ضد کے سامنے سرجھکانا پڑا۔غلام اسحاق خان اس فیصلے پر بہت تلملائے۔

مکافات عمل مگر یہ بھی ہے کہ اسی غلام اسحاق خان نے جب اپریل 1993ء میں نواز شریف کی حکومت کو بھی فارغ کردیا تو ا نہیں پیپلز پارٹی کے تعاون کی ضرورت محسوس ہوئی۔اتفاق یہ بھی ہے کہ میں اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو کے اسلام آباد والے گھر میں موجود تھا جب انتہائی”بااصول“ اور DMG مارکہ روئیداد خان اپنے باس کے لئے محترمہ سے تعاون کی درخواست لے کر آئے۔محترمہ اس تعاون کے لئے بالکل تیار تھیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ آصف علی زرداری کو عبوری حکومت میں وزیر بجلی وپانی لگایا جائے۔محترمہ سے ملاقات کے بعد وہ ،آفتاب شیر پاﺅ کے ہمراہ غلام اسحاق خان کو یہ شرط بتانے روانہ ہوئے مگر اس فقرے کے ساتھ کہ ”بابا،آصف والی بات تو بالکل نہیں مانے گا“۔ ”بابا“ مگر دوسرے دن کی صبح اسی آصف علی زرداری سے وزارت کا حلف لیتے ہوئے نظر ا ٓیا جس کو اس نے کئی مہینوں تک سنگین مقدمات بناکر جیل میںرکھا تھا۔

محترمہ کی دوسری حکومت کو فارغ کردینے کے بعد فاروق خان لغاری مرحوم نے بھی آصف علی زرداری کے خلاف ایسے ہی کئی مقدمات قائم کئے تھے۔ان مقدمات کا نواز شریف کے ”احتساب الرحمن“ نے بہت شدومد سے پیچھا کیا۔نواز شریف کی جنرل مشرف کے ہاتھوں فراغت کے بعد بھی لیکن آصف علی زرداری کے خلاف یہ مقدمات برقرار رہے۔

ستمبر 2006ء سے مگر معاملات تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔جنرل مشرف نے طے کرلیا کہ اس کی بنائی پاکستان مسلم لیگ (ق) نواز شریف کو سیاست سے باہر رکھنے میں کامیاب نہیں ہوپارہی۔اسے پیپلز پارٹی کا تعاون بھی درکار ہے۔خاص طورپر اس لئے بھی کہ موصوف خود کو دنیا کے سامنے ایک Enlightened Moderate کے طوپر پیش کرتے تھے اور پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر کی وجہ سے عالمی طورپر ایک ”لبرل“ کی حیثیت میں جانی جاتی تھی۔

آصف علی زرداری سے مشرف نے روابط اپنے قابل اعتماد مشیر طارق عزیز کے ذریعے استوار کئے تھے۔اتفاق یہ بھی ہے کہ طارق صاحب مجھے بطور اخبار نویس پسند کرتے تھے۔مشرف کے زرداری سے جیل میں روابط کا ذکر بھی لہذا میں نے ہی اپنے کالموں میں شروع کیا تھا۔محترمہ کو اگرچہ جیالوں نے ”اطلاع“ یہ دی کہ میں چودھری شجاعت حسین کے ایماءپر پیپلز پارٹی کی جنرل مشرف سے ممکنہ ڈیل کی کہانیاں لکھ کر ان کی ”انقلابی“جماعت کو بدنام کررہا ہوں۔اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ حالیہ تاریخ ہے۔مجھے شاید اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔

اس لمبی تمہید کے بعد عرض صرف اتنا کرنا ہے کہ عزیر بلوچ پر جاسوسی کے الزامات کے تحت فوجی عدالت میں جومقدمہ چلے گا اس کے نتیجے میں آصف علی زرداری کے ساتھ وہ کچھ نہیں ہوگا جس کی میرے کئی دوست امید باندھے ہوئے ہیں۔میں تو بلکہ ابھی سے اس ”روئیداد خان“ یا ”طارق عزیز“ کو ڈھونڈنے کی طرف مائل ہورہا ہوں جو ایک اور ”تاریخی ڈیل“ کی راہ بنائے گا۔