1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. باقی سب کہانیاں ہیں

باقی سب کہانیاں ہیں

جمہوریت کا اصل مقصد”رعایا“ کو اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کا احساس رکھنے والے ”شہریوں“ میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کی اصل بدنصیبی مگر یہ ہے کہ یہاں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے سیاستدان بھی ”فیاض بادشاہوں“ والے رویے اختیار کرلیتے ہیں۔ جالب جیسے دیوانے شاعروں کے چند مصرعے اداکاروں والی Timing کے ساتھ مائیک گراتے ہوئے جلسوں میں پڑھتے ہیں۔ رویہ ان کا مگر اسی ”مہربان“ جیسا رہتا ہے جو ”چرخے کی کوک“ سن کر پہاڑوں سے نیچے آتا اور لوگوں کے غموں کا مداوا کرتا ہے۔

میکیاولی کو ہمارے ہاں منفی سوچ کا پرچارک سمجھاجاتا ہے۔ یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ وہ حکمرانوں کو چالاکی،مکاری اور سفاکی کے ساتھ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے نسخے بیان کرتا ہے۔میکیاولی مگر علم سماجیات کے بانیوں میں سے ایک تھا۔ ابنِ خلدون کی تقلید میں اس نے سائنس کے طالب علموں کی طرح اقتدار کے کھیل کو سمجھنا اور سمجھانا چاہا۔

ابنِ خلدون کی توجہ مگر”عصبیت“ پر رہی جو کسی ایک قوم کو باقی اقوام پر چھاجانے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔میکیاولی نے اپنی توجہ انفرادی حکمرانوں پر مرکوز رکھی۔کامیاب اور ناکام حکمرانوں میں تخصیص کرنے کے Tools اس نے تاریخ کے گہرے مطالعے کے بعد دریافت کئے تھے۔وہ پولیٹیکل سائنس کا ایک شاندار عالم تھا۔

قوموں اورحکمرانوں کے عروج وزوال کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس نے خلافتِ عثمانیہ کے ابتدائی ایام پر بھی بہت غور کیا تھا۔اس غور کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ترکی کے خلیفہ یا بادشاہ کو ہٹاناناممکن نہیں صرف مشکل ہے۔ اسے ہٹانے کے بعد بھی لیکن ترکوں کا متعارف کردہ نظامِ حکمرانی بدلا نہیں جاسکتا۔ رعایا پر مکمل کنٹرول کرنے والا یہ نظام تقریباََ ناقابلِ تسخیر تھا۔ا س میں تبدیلی یا اصلاح کی کوئی گنجائش موجود ہی نہیں تھی۔

1857ءکو غدر کہہ لیجئے یا جنگِ آزادی،اس پر قابو پالینے کے بعد برصغیر پاک وہند پر اپنے قبضے کو مستحکم بنانے کے لئے انگریزوں نے بہت سوچ بچار کی۔ طویل مباحث کے بعد 1860ء میں پولیس کا نظا م متعارف کروایا گیا۔ اس نظام پر 1910-11 میں ایک بار پھر غور کیا گیا۔ یہ بات تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ پولیس ظالم اور راشی بن چکی ہے۔اسے تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔صرف اس خوف کی وجہ سے کہ اگر اسی نظام کو بدل دیا گیا تو برصغیر کے محکوم عوام ”اپنی اوقات“ سے باہر آجائیں گے۔

1857 کے واقعات سے انگریز نے سبق یہ بھی سیکھا کہ برصغیر کو مختلف اضلاع میں تقسیم کرکے ہر ضلع کے تمام امور نمٹانے کا مکمل اختیار ڈپٹی کمشنر کے حوالے کردیا جائے۔ پولیس سمیت ہر محکمہ اس کے آگے جوابدہ ہو۔کسی ضلع میں صحت،صفائی اور تعلیم جیسے معاملات مقامی اشرافیہ کے ذریعے ہینڈل کرنے کے لئے جب ضلعی حکومتیں متعارف ہوئیں تو اس کے بعدبھی عوام کو گورننس میں شراکت کا گماں دلاتے اداروں کا حتمی کنٹرول ڈپٹی کمشنروں ہی کے پاس رہا۔

2008ء سے اس ملک میں گڈگورننس کی علامت بنے شہباز شریف صاب نے بھی انگریزوں کی نقالی میں پنجاب کے شہروں اور ضلعوں میں مقامی حکومتوں کے میئروغیرہ کے انتخاب کے فوراََ بعد ڈپٹی کمشنروں والا نظام بحال کردیا ہے۔ 2016ء میں حقوق وفرائض کے احساس رکھنے والے ”شہریوں“ کی سرپرستی کے بجائے پنجاب کے عوام کو 1860ء والی ”رعایا“ تک محدود رکھنے کی سامراجی چال۔

آئندہ عام انتخابات سے صرف ڈیڑھ سال قبل شہبازصاب کو یاد آگیا ہے کہ میٹرو بسیں، انڈرپاسز اور فلائی اوورز رونق تولگادیتے ہیں مگر ذلتوں کی ماری گلیوں اورقصبوں میں محصور ہوئے بدنصیبوں میں نسلوں سے موجود حسد اور جلن کو غصے میں تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔وقت آگیا ہے کہ گلیوں کی صفائی اور وہاں سے گندے پانی کی نکاسی کے لئے عوام کے منتخب کردہ کونسلروں کے ذریعے کچھ رقوم خرچ کی جائیں۔ نام نہاد ترقی کے عمل کو نچلی سطح تک پہنچانے کے دعوے دار اس نظام کے حتمی مانیٹر مگر ڈپٹی کمشنر ہوں گے۔ تختِ لاہور پر براجمان مہاراجہ شہبازشریف کے لگائے اور صرف ان کے سامنے جوابدہ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر، برطانوی سامراج نے پنجاب کوغلام بنانے کے لئے اسی Methodology کواستعمال کیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر کو رعایا کا ”مائی باپ“ بنانے سے پہلے انگریز نے اس صوبے میں ریل پہنچائی۔نہری نظام قائم کیا۔ اس نظام کی بدولت بیابانوں میں کاشت کے قابل بنائے رقبے وفاداروں میں آباد کاری کے لئے تقسیم کئے ۔ یہ سب کرنے کے بعد مقامی حکومتوں کا نظام دیا گیا۔ عوام کے منتخب کردہ اراکین کو ”موری ممبر“ کا لقب اسی لئے دیا گیا تھا کہ ان کے اختیارات محدود تھے۔اصل مائی باپ مقامی حکومتوں کے قیام کے باوجود ڈپٹی کمشنر ہی رہا۔اقبال کو اکثر کئی حضرات جمہوری نظام کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے ہمیں یہ بتانے کی کوشش ہوتی ہے کہ شاعرِ مشرق درحقیقت جمہوریت کو مغربی سوچ کا نمائندہ ٹھہراتے تھے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔انہیں شاید ”دیدہ ور“ کی شکل میں کسی ”خلیفہ“ کی تلاش تھی۔

اقبال کے بارے میں جھوٹ پھیلاتے ہوئے ہمارے بدعنوان یا کاہل دانشور بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ”دانائے راز“ ملوکیت کو اسلام کے زوال کا اصل سبب ٹھہراتے رہے۔ان کا اصل گلہ یہ تھا کہ عوام کو بظاہر ووٹ کا حق دے کر برطانوی سامراج نے درحقیقت جمہوریت کے نام پر ایک تماشہ رچایا ہے۔ اس کا اصل مقصد برصغیر کے عوام اور خاص کر مسلمانوں میں ”خوئے غلامی“ کو مضبوط تر بنانا ہے۔ڈپٹی کمشنروں کو بحال کرنے کے بعد جمہوری نظام کے پاسباں بنے شہباز شریف نے بھی ایسا ہی ایک تماشہ رچایا ہے۔ وہ مگر خوش نصیب ہیں کیونکہ پاکستان اور خاص کر پنجاب میں ”سیاسی کارکن“ختم ہوچکے ہیں۔اب شہباز اور عمران جیسے”ہیرو“ ہیں۔جن کے چاہنے والے اور متوالے ہیں۔سیاسی جماعتیں درحقیقت شہباز یا عمران کے متوالوں کے غول بن چکے ہیں۔ وہ آوے ای آوے یا جاوے ای جاوے کے نعرے لگاتے ہیں۔سیاسی جماعت کی صورت ہرگز منظم نہیں جس کی ورکنگ کمیٹیوں وغیرہ کے سامنے ان جماعتوں کے قائدین جوابدہ ہوں۔

شہباز صاحب کی ”گڈگورننس“ کو ڈیلیور کرنے کے حتمی Tools برطانوی سامراج کے متعارف کردہ ڈپٹی کمشنرز ہیں۔ رعایا کے مائی باپ۔۔