لطیفہ بہت پرانا کافی گھسا اور پٹا ہوا ہے لکھنا مگر ضروری ہے کیوں؟اس سوال کا جواب لکھنے کی جرات شاید اس کالم کے آخر تک پہنچتے ہوئے مجھے نصیب ہو جائے خیر، لطیفے کی طرف لوٹتے ہیں اور لطیفہ یہ ہے کہ ایک سردار تھا اس نے بڑے چاﺅ سے ایک مکان بنوایا اس مکان میں اس نے شاہی محلات میں استعمال ہونے والے حمام بھی بنوائے یہ تین حمام تھے سردار کے ہاں جو بھی مہمان آتا اسے ان تینوں کو دیکھنا ضروری ہو جاتا مہمانوں کی اکثریت ان حماموں کی روایتی ساخت اور ثقافتی دیدہ زیبی کو برقرار رکھنے کے ہنر سے بہت متاثر ہوتی کچھ مہمانوں کو مگر سوال کرنے کی بیماری لاحق ہوتی ہے ایسے ہی ایک مہمان نے سردار سے پوچھ لیا کہ یہ حمام تین کیوں ہیں سردار اس ”احمقانہ“سوال سے چڑگیا کیونکہ اس کی نظر میں وجہ اس کی بہت سادہ تھی۔
پہلاحمام ٹھنڈے پانی سے غسل کے لئے بنایا گیا تھا۔ دوسرا گرم پانی کے استعمال کے لئے”مگرا تیسرا؟!“وہ اس لئے تھا کہ ”کبھی کبھار نہانے کو دل نہیں بھی چاہ رہا ہوتا۔“
ہفتے کے پانچ دن روزانہ کالم لکھنے والے مجھ ایسے رپورٹر سے لکھاری بننے کی خواہش کرتے لوگوں کا اکثر لکھنے کو دل نہیں چاہ رہا ہوتا۔ اخبار کے صفحے پر مگر ایسا کوئی خانہ نہیں ہوتا جہاں صرف کالم کا عنوان، اسے لکھنے والے کا نام اور تصویر چھاپ دی جائے اور قاری خودبخود سمجھ جائیں کہ آج کالم نگار کا دل لکھنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔
معاملہ میرے ساتھ مگر آج قطعاً مختلف ہے ذہن میں کل رات سے کئی سوالات اُبل رہے ہیں۔ ان سوالات کی شدت نے اتنا دہشت زدہ کردیا کہ نیند کی گولی لینے کے باوجود پوری رات برابر سو نہیں پایا۔ نیند کے دوران ایک خواب مسلسل آتا رہا اپنی گاڑی خود چلاتا میں جانے کس شہر کے کونسے محلے سے گزررہا ہوں۔ انجان راستوں پر اچانک کوئی موڑ مڑتا تو میری کار کسی کھائی سے ندی میں گرتی ہوئی محسوس ہوتی۔خوف سے دم گھٹتا محسوس ہوتا اور آنکھ کھل جاتی۔
ذہن میرا کافی منطقی ہے۔ بہت غور کے بعد اپنے تئیں”دریافت “یہ کیا کہ چونکہ ہفتے کا سارا دن میں نے اپنے کمرے میں گیس سے چلنے والا ہیٹر اور کوئلوں کے استعمال سے گرم کرنے والی انگیٹھی جلائے رکھے تھے اس لئے آکسیجن کی کمی ہوگئی اس کمی کی وجہ سے سوتے ہوئے پھیپھڑوں کو پوری اور مناسب ہوا نہیں مل پا رہی تھی دم اس کی وجہ سے گھٹتا ہوا محسوس ہوتا اور آنکھ کھل جاتی۔
بزرگ کہا کرتے تھے کہ کچھ کھانے معدے میں تبخیر پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں یہ تبخیربھی سونے نہیں دیتی ڈراﺅنے خواب آتے ہیں اور آنکھ کھل جاتی ہے ہفتے کی رات سونے سے پہلے میں نے بہت مرغن اور توے پر فرائی ہوا قیمہ بھی کھایا تھا شاید میرے دم گھٹنے کی وجہ آکسیجن کی کمی نہیں، معدے میں جمع ہوئی تبخیر رہی ہوگی۔
آکسیجن کی کمی یاتبخیرمعدہ مگر مجھے چین کی نیند سے محروم کرنے کا سبب ہرگز نہیں تھے۔ درحقیقت وہ سوالات تھے جو ہفتے کی صبح اُٹھتے ہی ذہن میں اُمڈنا شروع ہوگئے تھے۔ ہوا یہ تھا کہ آنکھ کھلی تو Whatsapp پر ایک پیغام آیا ہوا تھا اس کے ذریعے اطلاع یہ دی گئی تھی کہ چند روز قبل بنی گالہ سے اپنے گھر لوٹتے ہوئے اسلام آباد کے ایکسپریس وے سے غائب ہوا ایک شاعر ”بازیافت“ہوگیا ہے۔اس اطلاع کے بعد میں نے ”جان بچی سولاکھوں پائے“والا رویہ اختیار کیا عرصہ ہوا رپورٹنگ ویسے ہی چھوڑ رکھی ہے اس معاملے سے جڑے سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی قطعاََ کوئی ضرورت وتحریک محسوس نہیں کی۔ اخبارات کا پلندہ اٹھا لیاکچھ اخبارات میں لیکن چند اداریے اور کالم تھے جنہوں نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہم صحافیوں کو کن موضوعات پر لکھنے سے بازرہنا چاہیے۔
ہماری صحافت مگر آزاد ہونے کی دعوے دار بھی ہے۔ میری خوش نصیبی کہ ایک ایسے اخبار کے لئے لکھتا ہوں جہاں ”ممنوعہ علاقوں“ کی طرف بھٹک جانا بھی کافی فراخ دلی سے برداشت کرلیا جاتا ہے۔میں اس فراخ دلی کا ناجائز استعمال تو دور کی بات ہے اسے کماحقہ استعمال کرنے سے بھی گھبراتا ہوں میں معمول کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں جو راحت اور تھوڑی شہرت صحافت کی بدولت بالآخر نصیب ہوہی گئی ہے اسے برقرار رکھنا چاہتا ہوں مجھے”نڈرصحافی“والی شہرت ہرگز درکار نہیں۔ ”شہید صحافت“ ہونے کا تصور میری ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ پیدا کردیتا ہے۔”غداری“ کے الزام سے بہت خوف آتا ہے۔گنہگار انسان ہوں۔ خواہش مگر یہ بھی ہے کہ مرجاﺅں تو کوئی میرا جنازہ پڑھانے سے محض اس وجہ سے انکار نہ کردے کہ میرے کسی فقرے نے دینی شعائر کا احترام نہیں کیا تھا۔
ان تمام خواہشات کے ساتھ لہذا گزری کل کی صبح سے جو سوالات میرے ذہن میں اُبل رہے ہیں،انہیں لکھنے کی جرات نہیں پارہا۔ آپس کی بات یہ بھی ہے کہ اپنی محرومی جرات کا اعتراف کئے بغیر بھی آزاد صحافت کا بھرم رکھا جا سکتا ہے۔ ربّ کا صدشکر کہ اس نے ہمیں عمران خان دیا۔اس کی ہمت اور یکسوئی کی بدولت گزشتہ کئی روز سے بھاری فیس لینے والے چند نامور وکیل،پاکستان کے تیسری بار ویزر اعظم منتخب ہوئے نواز شریف کے والد اور بچوں کی دولت اور اثاثوں پر اٹھائے سوالوں کا جواب ڈھونڈتے ہوئے اکثر پریشان ہوجاتے ہیں۔
عمران خان اور ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ حکمرانوں کا ایسا حساب ہماری تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے۔ویسے یوسف رضا گیلانی نام کے ایک وزیر اعظم بھی ہوا کرتے تھے۔سزا تو انہیں بھی ملی تھی۔ایک ذوالفقار علی بھٹو بھی ہوا کرتے تھے۔نواز شریف کے خاندان پر الزامات مالی نوعیت کے ہیں۔ اس وزیر اعظم پر قتل کا سنگین الزام لگا تھا۔جس کے نتیجے میں اسے تارا مسیح کے ہاتھوں عام قاتلوں کی طرح پھانسی کے پھندے پر بھی لٹکادیا گیا تھا۔ پانامہ کا حتمی نتیجہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوجائیں اور تاحیات سیاست میں حصہ لینے کے لئے نااہل اگر مالی بدعنوانیوں کے الزامات سے بری الزمہ ٹھہرائے گئے تب بھی اپنے مخالفین کی نظر میں نواز شریف”اخلاقی طورپر“شکست خوردہ قرار پائیں گے۔ رونق لگی رہے گی۔
نواز شریف تو ایک طاقت ور شخص ہیں طیبہ پرتشدد کرنے والے بے رحم لوگ بھی ان دنوں انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہیں دو سال گزرجانے کے باوجود ”ڈالرگرل“کے طورپر بدنام ہوئی ایان علی کو ضمانت پر رہائی کے باوجود ابھی تک بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں ملی ہے۔آصف علی زرداری کا مبینہ”فرنٹ مین“ڈاکٹر عاصم بھی کئی مہینوں سے اپنے کردہ یا ناکردہ گناہوں کا عذاب بھگت رہا ہے۔
مذکورہ بالاحقائق کی وجہ سے مجھے تو سینہ پھلاکر دعویٰ یہ کرنا چاہیے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی بالآخر قائم ہوچکی ہے۔ہر پاکستانی کو خواہ وہ کتنے ہی طاقت ور عہدے پر فائز ہویا فائز رہا ہواپنے بارے میں اٹھائے ہر سوال کا جواب اب ہر صورت دینا ہوتا ہے۔بنی گالہ سے گھر لوٹتے ہوئے شاعر کہاں چلاگیا تھا؟ یہ سوال مگر کوئی نہیں اٹھائے گا۔میں بھی نہیں۔
میں تو آج تک یہ معلوم نہیں کر پایا کہ کمر کے درد سے نجات پانے کے لئے دوبئی کے ایک کلب میں ڈانس کرنا کیوں ضروری ہوتا ہے کسی کو الاٹ ہوئی زمین کا تذکرہ ہوجائے تو یہ ”ریاستی اداروں“کے مابین بدگمانیاں پیدا کرنے کی سازش ٹھہرادی جاتی ہے۔دل کے خوش رکھنے کو مگر اس گماں میں مبتلا کیوں نہ رہا جائے کہ پاکستان میں آئین اور قانون کی مکمل بالادستی قائم ہوچکی ہے۔ یہاں ”رعایا“نہیں”شہری“بسا کرتے ہیں جن کے چند فرائض تو ہیں مگر ساتھ ہی کچھ بنیادی حقوق بھی اور ان سب حقوق کا مکمل احترام ہورہا ہے۔ گماں کا یقین آکسیجن میں کمی یاتبخیرمعدہ کے ہوتے ہوئے بھی چین کی نیند فراہم کرسکتا ہے اور میں چین کی نیند ہی تو چاہتا ہوں۔