1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. چکری کے راجپوت لال ٹوپی والے سے رجوع کریں

چکری کے راجپوت لال ٹوپی والے سے رجوع کریں

ہماری چترالی ٹوپی جیسی ایک ٹوپی سپین کے علاقے BASQUE سے نکل کر پہلے یورپ اور پھر دنیا بھر میں بہت مشہور ہوئی۔ انگریزی میں اسے Beret کہتے ہیں۔ ’’ارے‘‘سے پہلے ’’بے‘‘لگادیں تو ’’برے‘‘ بن جائے گا۔ 1994ء میں فرانس کے ایک گائوں جانا ہوا تو اس کی بوڑھی میئر سے ملاقات کا موقعہ بھی ملا۔ میں نے اس کی ’’بُرے‘‘ کی تعریف کی تو سخت گیر استانی کی طرح اس نے مجھے سمجھایا کہ ایسی ٹوپی عورت کے سرپر ہو تو ’’T‘‘خاموش نہیں رہتا۔اسے ادا کرنا ہوتا ہے۔ مجھے ’’برے‘‘ نہیں ’’بریٹ‘‘کہنا چاہیے تھا۔میں شرمندہ ہوگیا۔ فوری معافی کا خواست گار بھی۔میری عاجزی اور شرمساری سے مہربان ہوکر اس خاتون نے مجھے بہت ساپنیر کھلایا اور ایک ڈبہ پاکستان لے جانے کے لئے بھی ہمراہ کردیا۔

بہرحال یہ گول ٹوپی جوسرپر چپک جاتی ہے ،لاطینی امریکہ کے ایک مشہور انقلابی-چی گویرا-کی وجہ سے 70ء کی دہائی میں میری توجہ کا مرکز بنی۔ میں ان دنوں خود کو انقلابی ٹائپ شمار کرتا تھا۔سوچا ایسی ٹوپی خرید کر اپنے سرپر رکھنا شروع کردوں تو لوگ مجھے ایک سنجیدہ دانشور سمجھنا شروع ہوجائیں گے۔ مال روڈ کی ایک دُکان سے سرخ اور کالے رنگ کی دو ٹوپیاں خریدیں۔ بال میرے ان دنوں لیکن بہت گھنے اور چکنے ہوا کرتے تھے۔ پسینہ آتا تو سرکھجانا ضروری ہوجاتا۔ بار بار ٹوپی اتارنے کی اذیت سے تنگ آکر میں نے ’’برے‘‘کا استعمال ترک کردیا۔

اس ٹوپی کی آن مجھے 2007ء کے قریب دوبارہ دریافت ہوئی۔ہماری ٹی وی سکرینوں پر ان دنوں لال برے پہنے ایک صاحب تواتر کے ساتھ نمودار ہوا کرتے تھے۔ ایمان کی حرارت سے مالامال یہ صاحب بہت تیز بولتے۔ اپنے لئے ’’ہم‘‘ کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے وہ اس ملک کے لیفٹ لبرل حضرات کو حقارت سے ’’سانپ‘‘ کہہ کر پکارتے۔ انہیں یقین تھا کہ ایسے لوگ اس زمانے کے میرجعفر اور میرصادق ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے غلام ہیں اور ان دو ملکوں سے بھاری رقوم لے کر پاکستان میں انتشار پھیلارہے ہیں۔

اپنے سرپر ہمہ وقت لال برے جمائے ان صاحب کو مگر یقین تھا کہ ان کے ہوتے ہوئے مذکورہ وطن فروش اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ آج کے دور کی جنگ ان کی نظر میں 3-G سے 4-G اور بعدازاں 5-G ہوچکی تھی۔ ان صاحب کو مگر یقین تھا کہ ’’فکرِ اقبال‘‘ کے گہرے مطالعے نے انہیں ایسی جنگوں کے مقابلے کے لئے پوری طرح تیار کردیا ہے۔ سنا ہے قومی سلامتی سے متعلق چند ادارے بھی ان کی سوچ سے بہت متاثر ہوئے۔ ٹی وی چینلز کے مالکان کو ان کی فراست سے رجوع کرنے کا حکم ہوا۔ موصوف نے اپنے Shows شروع کردئیے اور ہماری فکر کو درست سمت میں ڈالنے کا فریضہ اپنے سر لے لیا۔

پیدائشی طورپر میں بدنصیب ایک گمراہ شخص ہوں۔ میری ماں نے بہت صبر اور اشتیاق سے مجھے نیک راہ پر چلانے کے لئے بہت محنت کی۔ماں کی شفقت اور محبت نے مجھے بھٹکنے تو نہ دیا مگر دل میں شیطان کے بٹھائے وسوسوں سے آزاد بھی نہ ہوپایا۔ زیادہ سنگین مسئلہ یہ بھی ہوگیا کہ ایمان کی حرارت سے مالا مال یہ صاحب جب ہذیاتی کیفیت میں مبتلا ہوئے 4-G,3-G یا 5-G والی فکری جنگ لڑتے ٹی وی سکرینوں پر نظر آتے تو میرا پنجابی والا ’’ہاسا‘‘ چھوٹ جاتا۔ میں نے انہیں ’لال ٹوپی والا‘‘ کہنا شروع کردیا اور انکی شان میں گستاخی کامرتکب ہونا شروع ہوگیا۔مشتعل ہوکر ان صاحب نے سوشل میڈیا پر میری تصویر لگاکر لوگوں کو میرے قتل پر اکسانا شروع کردیا۔ کئی برسوں سے میں ’’یہ جینا بھی کوئی جینا ہے‘‘والے سوال کو بھگت رہا ہوں۔ اپنے قتل ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ مجھ بدنصیب کو مگر کوئی قاتل بھی نہیں مل پایا۔ بہت دیر انتظار کرنے کے بعد اُکتاگیا اور لال ٹوپی والے صاحب کو بھی بھول گیا۔

پھر ان صاحب کو ایک روز ہمارے ایک برادر ملک نے گرفتار کرکے Missing بنادیا۔ان کی گم شدگی سے میں پریشان ہوگیا۔ اپنے ربّ سے انتہائی عاجزی کے ساتھ ان کی خیروعافیت سے بازیابی کی فریادکرنے لگا۔ میرے ربّ نے مجھے مایوس نہ کیا۔ لال ٹوپی والے صاحب کچھ دنوں تک گم شدہ رہ کر وطن لوٹ آئے۔ ان دنوں ٹی وی سکرینوں پر کم مگرسوشل میڈیا پر بہت زیادہ نظر آتے ہیں۔ طبیعت ان کی اب بھی بہت جلالی ہے۔

سپریم کورٹ کو روزانہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ نواز شریف کیخلاف پانامہ دریافت ہوچکا ہے۔ اس کی بنیاد پر نواز شریف کو اس ملک کے ’’بدعنوان سیاست دانوں‘‘ کے لئے عبرت کی مثال بنایا جاسکتا ہے۔وزیر اعظم کو سزا نہ ملی تو…اس کے بعد وہ جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں میں لکھ ڈالوں تو توہینِ عدالت میں دھرلیا جائوں گا۔

مجھے جیل جانے سے بہت خوف آتا ہے۔ ان دنوں سردی بھی بہت شدید ہے۔ اپنے کمرے میں بجلی اور گیس کے ہیٹر بیک وقت آن کئے ہوئے بھی سویٹرپہن کر لحاف میں دبکا رہتا ہوں۔ ان دنوں جیل جانا پڑا تو سردی سے سکڑجائوں گا۔جیل میں گزارے چند دنوں کے بعد میری نمونیا یا تب دق سے موت شاید وقت سے پہلے آجائے۔ ایمان کی حرارت سے محروم ہوا میں جیل کی سردی کا مقابلہ نہ کر پائوں گا۔

لال ٹوپی والے صاحب سے مجھے ویسے بھی خوف آتا ہے۔ ان کی دہشت میں مبتلا ہوا میں عاجزی سے انہیں ’’قبلہ‘‘پکارتا ہوں۔ طبیعت مگر موصوف کی بہت جلالی ہے۔بھٹکے ہوئے لوگو ں کو موصوف معاف کرنے کو بالکل تیار نہیں ہوتے۔

چند روز قبل فاطمہ جناح یونیورسٹی کا ایک استاد جو انقلابی نظمیں لکھ کر خود کو اس دور کا حبیب جالب یا بلھے شاہ ثابت کرنے کے چکر میں ہے،بنی گالہ سے اپنے گھر لوٹتے ہوئے اسلام آباد ایکسپریس وے سے اٹھالیا گیا۔مجھے یقین ہے کہ اسے شاید ان لوگوں نے اٹھایا ہے جنہوں نے یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹوں کو اٹھایا تھا۔ ہمارا کوئی ریاستی ادارہ بلھے شاہ کی نقل کرتے اس شاعر کو اٹھاکر غائب نہیں کرسکتا۔ ہمارے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ہے۔ ہماری عدلیہ نے یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کے جرم میں گھر بھیج دیا تھا۔ ان دنوں کے وزیر اعظم بھی پانامہ کے حوالے سے ہر روز اپنی صفائیاں دے رہے ہیں۔ چند ہی روز قبل نچلی عدالت کے ایک جج کی اہلیہ نے اپنی کمسن ملازمہ پر تشدد کیا تو قانون فوری طورپر متحرک ہوگیا۔ ہمہ وقت چوکس وبے باک میڈیا اورہر ظلم پر نظر رکھنے والی عدلیہ کے ہوتے ہوئے کوئی ریاستی ادارہ اپنی طے شدہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے سوبار سوچنے پر مجبور ہے۔

اپنی ریاست پر اعتبار مجھے اس لئے بھی کامل ہے کہ چودھری نثار علی خان ہمارے وزیر داخلہ ہیں۔ چکری کے یہ خاندانی راجپوت ایک دبنگ آدمی ہیں۔ ان کی اصول پسندی سے وزیر اعظم نواز شریف بھی گھبرائے ہوئے رہتے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے میں رات گئے بھی اسلام آباد کی سڑکوں پر اپنی گاڑی چلاتے ہوئے خود کو محفوظ محسوس کرتا ہوں۔

چودھری صاحب نے فرمایا ے کہ وہ بلھے شاہ کی نقالی کرنے والے شاعر کی بازیابی کے لئے بذاتِ خود دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ مجھے ان کی ہربات پر اعتبار ہے۔ لال ٹوپی والے صاحب مگر اپنے نام اور تصویر کے ساتھ فیس بک پر تسلسل سے دعویٰ کررہے ہیں کہ گم شدہ ہوا شاعر اور اس جیسی سوچ رکھنے والے چند ’’بلاگرز‘‘ اس وجہ سے اٹھائے گئے ہیں کہ وہ ہماری مذہبی روایات کا احترام نہیں کررہے تھے۔ اپنے لئے ’’ہم‘‘ کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے وہ ممکنہ میرجعفروں کو مسلسل خبردار کررہے ہیں کہ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کا حشر بھی اغواء شدہ شاعر کی طرح ہوگا۔

مجھے یقین ہے کہ FIA کا سائبرکرائم یونٹ چودھری نثار علی خان صاحب کی نگہبانی میں کام کرتا ہے۔میری اپنے دبنگ وزیر داخلہ سے دست بستہ عرض ہے کہ بجائے اِدھر اُدھر اپنا وقت ضائع کرنے کے وہ فوری طورپر لال ٹوپی والے میرے قبلہ سے رابطہ کریں وہ انہیں سمجھادیں گے کہ بلھے شاہ کی نقالی کرنے والے شاعر کو اٹھانا کیوں ضروری تھا۔ چودھری صاحب لال ٹوپی والے کی بتائی وجوہات سننے کے بعد گمشدہ شاعر سے ملاقات کی درخواست کریں۔ لال ٹوپی والے صاحب وہ ملاقات کروادیں تو ہمارے وزیر داخلہ بلھے شاہ کی نقالی کرنے والے شاعر کو نیک چلن اختیار کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ وہ شاعر تیار ہوجائے تو لال ٹوپی والے اس کی رہائی کا بندوبست بھی کرسکتے ہیں۔