گوادر کو کاشغر سے ملانے والا CPEC یقینی طورپر ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو مگر ہم اپنے یار چین کی جانب سے ملی خیرات کے طورپر لے رہے ہیں۔چھوٹے صوبوں،خاص کر خیبرپختونخواہ سے شکوے آرہے ہیں کہ انہیں چین کی ”فیاضی“ سے خاطر خواہ حصہ نہیں مل رہا۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلا شہباز شریف کا پنجاب ایک بار پھر ”میٹھامیٹھا ہپّ“کرتا نظر آرہا ہے۔
مشرقی اور مغربی روٹس کے نام پر اٹھائے قضیوں کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے۔ نواز حکومت نے مناسب انداز میں اس سوچ کو جھٹلانے کی کوشش ہرگز نہیں کی۔ بلوچستان سے لاہور آئی ایک بچی نے جب انتہائی سادگی سے اس امر کی جانب توجہ دلائی تو شہباز صاحب صرف مسکرادئیے۔ ان کی آنکھوں کی چمک نے بلکہ یہ پیغام دیا کہ شاید گوادر سے آئی ایک بچی بھی لاہور کی ”بتیاں“ دیکھ کر مسحور ہوگئی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ”پنجاب سپیڈ“ کے اثبات کے لئے ایک معصوم گواہی مل گئی۔
شہباز صاحب کے کارناموں کو دُنیا کے سامنے لانے کے لئے اپنے تئیں کمیونی کیشن ایکسپرٹ بنے ا فراد کی ایک بھاری بھر کم ٹیم موجود ہے۔ اس ٹیم نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہار بنانے والوں کی طرح شہباز صاب کو ایک Brand بنادیا ہے۔ ہمہ وقت متحرک اور ترقی کے خواب دیکھنے والا ایک رہنما۔
اس Brand کی مقبولیت نے تحریک انصاف کے برانڈ منیجرز کو پریشان کردیا۔عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو بنیادی طورپر DJ Butt کی ترتیب دی گئی موسیقی اور سوشل میڈیا کے موثر استعمال کے ساتھ ”مارکیٹ“ کیا گیا تھا۔ شہباز صاب اس ضمن میں بازی لیتے نظر آئے تو پرویز خٹک کے کارناموں کو میڈیا کے ذریعے اجاگر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس منصوبے پر ابھی کام بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ سکینڈل بن گیا۔ فیصل خان اور افتخار درانی اس سکینڈل کا نشانہ بنے۔ وہ دونوں اب ان صحافیوں کو سبق سکھانے پر تلے بیٹھے ہیں جنہوں نے انہیں ”بدنام“ کیا۔ مجھے گماں ہے کہ وہ دونوں مجھے اپنے غضب کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ میں نے تو صرف ایک بار سرسری انداز میں اخبار میں چھپی ایک خبر کا حوالہ دے کر ان کا ذکر کیا تھا۔ اس سے آگے جانا مجھ ڈرپوک کے لئے ممکن ہی نہیں۔ کونے میں بیٹھ کر دہی کھاتا اوراپنی عزت ونوکری بچانے کی کوششوں میں مگن رہتا ہوں۔
CPEC کو سمجھنا مگر ضروری ہے۔ علم معاشیات کے بارے میں قطعی جاہل ہوتے ہوئے بھی البتہ میں یہ بات سمجھ چکا ہوں کہ CPEC چین سے ملی”خیرات“ نہیںہے۔ چین یقینا اپنا یار ہے،اس پر جان بھی نثار ہے۔ چینی ثقافت میں لیکن صدقے اور خیرات کی ہرگز کوئی روایت نہیں۔ یہ روایت موجو دہوتی تو شاید ماﺅزے تنگ کو برسوں کے لانگ مارچ کے بعد انقلاب برپا کرنے کی گنجائش نہ مل پاتی۔ چینی ثقافت میں کنفیوشس نے SAGE اشرافیہ کی ریت ڈالی تھی۔یہ اشرافیہ بہت سوچ بچار کے بعد اپنی قوم کے لئے کچھ اہداف مقرر کرتی ہے۔ یہ اہداف بہت سادہ زبان میں قوم کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ جب یہ اہداف بیان کردئیے جائیں تو ان سے دائیں بائیں ہونے کی تھوڑی سی لچک بھی نہیں دکھائی جاتی۔یکسو ہوکر بڑے غیر جذباتی اور کبھی کبھار تقریباََ سفاک انداز میں ان اہداف تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
چین اپنا یار ہے اس پر جان بھی نثار ہے۔ اس ملک کی تاریخ اور ثقافت کو مگر سمجھنے کا ہمارے ہاں تردد ہی نہیں کیا جاتا۔ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے 70ء کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کی معاونت سے اس ملک کا خفیہ دورہ کیا تھا۔ اس دورے کی وجہ سے امریکہ اور چین کے درمیان گہرے روابط استوار ہوئے۔کسنجر جیسے شخص نے برسوں کے تجربے کے بعد 2011ء میں On China جیسی بھاری بھرکم کتاب لکھی تھی۔ 585 صفحوں پر مشتمل یہ کتاب ہنری کسنجر کے چین کے ساتھ40سالہ تعلق کا نچوڑ ہے۔ اس کتاب میں کسنجر نے اصرار کیا کہ چین ابھی تک کنفیوشس کے بنائے ذہن سے باہر نہیں آیا۔یہ سوچ بنیادی طورپر "Know Thy Place" یعنی اپنی اوقات پہچانو پر زور دیتی ہے تاکہ معاشرے میں سکون رہے۔ بجائے عبادات پر زور دینے کے کنفیوشس لوگوں کو ”اس دنیا“ میں مطمئن زندگی گزارنے کے لئے سماجی رشتوں اور ضابطوں کی مکمل اطاعت اور پاس داری کرنے پر زور دیتا ہے۔ Great Harmony کا حصول اس سوچ کا حتمی ہدف ہے۔
ہم مگر اپنی ترکیب میں خاص ہیں۔ ہر معاملہ پر سوال اٹھاتے اور مباحث میں الجھنے کے عادی ہیں۔ایمان داری کی بات ہے کہ سوال اٹھانا اور اپنے نقطہ نظر کو درست ثابت کرنے کے لئے پھیپھڑوںکا زور لگانا ہماری طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ سوال اٹھانے کی عادت نے ہمیں آمریتوں کے طویل ادوار میں بھی پژمردہ نہیں ہونے دیا۔اپنے نقطہ نظر کو ہم مگر دلائل سے زیادہ پھیپھڑوں کے زور سے ثابت کرنے کی وجہ سے قومی اہداف کا تعین نہیں کر پاتے۔ان کا یکسوئی سے حصول تو بہت دور کی بات ہے۔
پاکستان جیسے ملکوں کو ترقی اور خوش حالی کی جانب بڑھنے کے لئے طاقت ور ملکوں سے سرمایہ کاری،قرض اور امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔سی پیک پرکوئی سنجیدہ بحث کرنے سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اس منصوبے کے تحت بنائے مختلف پراجیکٹس کے لئے مختص رقوم غیر ملکی سرمایہ کاری ہیں،ہمارے سوچے کچھ منصوبوں کے لئے قرض یا دوست ملک کی طرف سے ملی امداد۔
اپنے مغربی صوبوں کی درآمدات اور برآمدات کو یقینی اور سہل بنانے کے لئے چین گوادر کی بندرگاہ کو جدیدبناکر اسے سڑک کے راستے سنکیانگ کے ساتھ لانا چاہ رہا ہے۔ بندرگاہ کی ترقی اور وہاں تک پہنچنے کی سڑک بنانا چین کی ضرورت ہے۔ وہ One Belt One Road کے تصور کے ساتھ لہذا ان دونوں منصوبوں پر سرمایہ کاری کررہا ہے۔
یہ بات بہت بنیادی ہے کہ کوئی بھی سرمایہ کار جب کسی منصوبے پر رقم خرچ کرتا ہے تو اس ضمن میں اپنی آسانی کو ترجیح دیتا ہے۔ مشرقی اور مغربی روٹ کا تقابل کرتے ہوئے ہم اس بنیادی حقیقت کو مگر نظرانداز کردیتے ہیں۔
گوادر شہر نہیں بلکہ اس کی بندرگاہ کو جدید بناکر سڑک کے ذریعے سنکیانگ کے ساتھ ملاتے ہوئے چین بھی اپنی آسانیوں کو ذہن میں رکھے گا ہماری خواہشات کو نہیں۔ سڑک کے بعد آجاتے ہیں توانائی کے منصوبے۔ ان منصوبوں میں بجلی کی پیداوار سرفہرست ہے۔پاکستان ان منصوبوں کے لئے چین سے قرض حاصل کرسکتا ہے اور قرض سے ملی رقوم سے چین ہی سے مشینری کو خریدنا اور اسے نصب اور چلانے والے ماہرین کو خدمات کا معاوضہ دینا ہوگا۔
شہباز شریف 2008ء سے اس ضمن میں چند منصوبے بناکر چینی بینکوں اور سرمایہ کاروں کو Engage رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دورِ حکومت میں انہیں خاص کامیابی اس لئے نہ مل پائی کہ وفاقی حکومت سے مناسب تعاون نہیں مل پارہا تھا۔ نندی پور پراجیکٹ کا اصل مسئلہ اس عدم تعاون کی وجہ سے کھڑا ہوا تھا۔ 2013ء کے بعد آئی صوبائی حکومتوں نے ابھی تک ایسے منصوبے تیار نہیں کئے ہیں جو چینی سرمایہ کاروں کو بہت زیادہ پُرکشش نظر آئیں۔ اس پہلو کی طرف مگر ہم توجہ نہیں دیتے اورشوروغوغا میں مصروف رہتے ہیں۔
CPEC کے ساتھ ایک زیادتی یہ بھی ہوئی ہے کہ ہم اسے ایک ایسے منصوبے کے طورپر پیش کررہے ہیں جسے ناکام بنانے کے لئے امریکہ اور بھارت تلے بیٹھے ہیں۔ دہشت گردی کے ہر واقعے کو لہذا اس کی تعمیر سے جوڑدیا جاتا ہے۔ چین ہمارے اس عمل سے پریشان ہے۔ اسے ڈھول ڈھمکے اور شوروغوغا سے خوف آتا ہے۔ پاک چین تعلقات کی طویل تاریخ میں پہلی بار اسلام آباد میں مقیم چینی سفارت کار باقاعدہ پریس ریلیز کے ذریعے وضاحتیں دینے پر مجبور ہورہے ہیں۔ان کی طرف سے وضاحتوں کا آنا کوئی خوش کن امر نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ نواز حکومت ازخود قوم کو اس منصوبے کے تمام پہلوﺅں کے بارے میں پوری طرح اعتماد میں لے۔