1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. FEEL GOOD والی رونق

FEEL GOOD والی رونق

میں علم اقتصادیات کو قطعاََ نہیں سمجھتا۔ اس ضمن میں اپنی لاعلمی کا اکثر اعتراف بھی کرتا رہتا ہوں اور کسی بھی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تبصرہ آرائی سے گریز کو ترجیح دیتا ہوں۔

1990ء کے آغاز میں جب نواز شریف صاحب پہلی بار اس ملک کے وزیر اعظم بنے تو چند ہی ماہ بعد ان دنوں کے صدرِ پاکستان ان کی اپنائی معاشی حکمت عملی اور پالیسیوں کے بارے میں پریشان ہونا شروع ہوگئے۔ غلام اسحاق خان کو ہماری افسر شاہی ایک گرو کے طورپر لیتی تھی۔ وہ ریاستی رقوم خرچ کرنے کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔ ان کی ذات کے بارے میں کرپشن وغیرہ کی کوئی کہانیاں بھی موجود نہیںتھیں۔ ان کے تحفظات واعتراضات کو مجھ ایسے معاشی پالیسیوں کے بارے میں نابلد شخص نے لہٰذا سنجیدگی سے لینا ضروری سمجھا۔

نواز شریف کے ابتدائی اہم فیصلوں میں سب سے زیادہ چرچہ ان دنوں ایئرپورٹس پرگرین چینلز کا قیام تھا۔ اس فیصلے نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دل جیت لئے۔ خلیجی ممالک میں کام کرنے والے مزدور اس بارے میں سب سے زیادہ خوش تھے۔ ہماری ثقافتی مجبوریوں کی وجہ سے چھٹیاں گزارنے کے لئے وطن آتے ہوئے وہ اپنے سوٹ کیسوں کو عزیزوں اور دوستوں کے لئے لائے تحائف سے بھردیتے تھے۔ امیگریشن ہوجانے کے بعد مگر کسٹم انسپکٹرز ان کے سوٹ کیسوں کو کھلواکر ان اشیاءکی نشاندہی کرتے جن کو پاکستان لانے کے لئے امپورٹ ڈیوٹی کی ادائیگی لازمی تھی۔ سفر کی اذیتوں سے تھکے ماندے مسافربالآخررشوت دے کر جان چھڑانے پر مجبور ہوجاتے۔ وطن لوٹنے کے کئی روز بعد بھی وہ اپنے ہی ملک کے ایئرپورٹ پر ہوئی تذلیل کا ذکر بہت دُکھ کے ساتھ جاری رکھتے۔

کسٹم میں موجود اپنے دوست افسروں سے جب میں ان کی تکالیف کا ذکرکرتا ہوں تو وہ میرا مذاق اُڑاتے ۔ میری سادگی پر طنز کے تیر برساتے مجھے اکثر ایسے اعدادوشمار سنائے جاتے جن کامقصد یہ ثابت کرنا ہوتا کہ ایئرپورٹ پر بغیر کسی پوچھ تاچھ کے گرین چینلز کے ذریعے باہر آنے کی اجازت دینے کے فیصلے نے ریاستِ پاکستان کو محاصلات کی مد میں کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے بتائے اعدادوشمار مجھے خاموش ہوجانے پر مجبور کردیتے۔

لاہور اور اسلام آباد کے موٹروے کے ذریعے ملانے کے فیصلے پر بھی ان دنوں بہت تنقید ہوئی تھی۔ اکثرماہرینِ معیشت کا اصرار تھا کہ تاریخی جی ٹی روڈ کے ہوتے ہوئے اس موٹروے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس ”میگا“دِکھتے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کمیشن اور کک بیکس کی کہانیاں بھی پھیلنا شروع ہوگئیں۔ مجھے البتہ سب سے زیادہ فکر اس بنیاد پر محسوس ہوتی رہی کہ لاہور سے آیا ایک وزیر اعظم صرف پنجاب کو جدید ترین انفراسٹرکچر فراہم کرنے کی دھن میں مگن نظر آرہا ہے۔

ہمیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ٹال ٹیکس وغیرہ کے ذریعے یہ منصوبہ کبھی بھی اپنی لاگت وصول نہیں کر پائے گا۔ بالآخر اس کا بوجھ ریاست پاکستان ہی کو مزید قرض اور اس کی اقساط اور سود ادا کرنے کی صورت برداشت کرنا پڑے گا۔

نواز شریف صاحب سے اکیلے میں میری پہلی ملاقات 1994ء کے آخری مہینوں میں ہوئی تھی۔ وہ کراچی سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خلاف ایک ”ٹرین مارچ“ کے لئے راولپنڈی آرہے تھے۔رحیم یار خان گزرجانے کے بعد انہوں نے مجھے اپنے ڈبے میں بلالیا اور ملتان تک ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرتے رہے۔ اس ملاقات کے دوران نواز شریف نے انتہائی سادہ زبان میں مجھے اپنی معاشی پالیسیوں کے بارے میں اٹھائے اعتراضات کے بارے میں لاجواب کردیا۔ ان کا اصرار رہا کہ انگریزوں کی متعارف کردہ افسر شاہی کی سوچ”محتاط“ نہیں فرسودہ ہے۔ یہ حالات کو جوں کا توں رکھنے پر بضد رہتی ہے۔ پاکستان کو جدید اور ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کو حالات بدلنے کے لئے جارحانہ فیصلے لینا ہوں گے۔ یہ فیصلے غیرروایتی ہونے کی وجہ سے شاید بہت Risky بھی نظر آئیں۔ ایک کاروباری گھرانے کے فرد ہوتے ہوئے لیکن وہ جبلی طورپر بھرپورRisk Assessment کے بعد ہی کوئی فیصلہ لینے کے عادی ہیں۔ اس ملاقات کے بعد میں ان کی معاشی حکمت عملی پر تبصرہ آرائی کرنے کے ضمن میں مزید محتاط ہوگیا۔

نواز شریف اب تیسری بار اس ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔نئے انتخابات تک پہنچنے میں اب صرف ڈیڑھ برس باقی رہ گئے ہیں۔ان کے اس دور میں لیکن معاشی محاذ پر وہ گہماگہمی ہرگز نظر نہیں آرہی جو ان کے گزشتہ ادوار میں غلط یا صحیح وجوہات کی بنیاد پر دیکھنے کو ملی تھی۔ کبھی کبھار تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنی اس ٹرم میں وہ صرف یک نکاتی منشور پر عمل پیرا ہیں۔ 2018ء کے شروع ہونے کے ساتھ ہی ملک بھر سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ان کی حکومت کی واحد اور اولین ترجیح دکھائی دیتی ہے اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے وہ ہر طرح کا Risk لینے کو بھی بضد ہیں۔

پاکستان کی معیشت پر نظررکھنے والے عالمی ادارے اس حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نظر آتے ہیں۔معیشت کے حوالے سے مگر ہمارے کئی معتبرنام تسلسل کے ساتھ دہائی مچارہے ہیں کہ ریاستِ پاکستان کے ملکی اور غیر ملکی ذرائع سے حاصل کئے قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ہماری ریاست ٹیکس نیٹ کو بڑھاکر محصولات کو خاطرخواہ انداز میں بڑھانہیں پائی ہے۔ہماری برآمدات مسلسل کم ہورہی ہیں۔گزشتہ چند ماہ سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے وطن بھیجی رقوم میں بھی کمی کا رحجان نمایاں ہونا شروع ہوگیا ہے۔حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو ایک دن پوری معیشت کا ”بھٹہ بیٹھ“جائے گا۔ایک خوفناک معاشی دھماکہ جو شاید پاکستان کی سلامتی اور بقاءکو بھی شدید خطرات سے دوچار کردے۔

اپنے ماہرین معاشیات کے اٹھائے اعتراضات اور خدشات کو غلط ثابت کرنے کے لئے موجودہ حکومت کے Spin Masters نے کوئی طاقتور جوابی بیانیہ فراہم نہیں کیا ہے۔خلقِ خدا کو مسحور کرنے کے لئے البتہ شہباز صاب کی میٹروبسیں ہیں۔فلائی اوورز اور انڈرپاسز۔سگنل فری سڑکیںوغیرہ اور اورنج ٹرین جیسے دلکش منصوبے۔ ہمیں دلکش نظر آنے والے ان مصنوبوں کے ساتھ اگر 2018ء کے آغاز میں نواز حکومت نے لوڈشیڈنگ کا مکمل نہ سہی کماحقہ خاتمہ بھی کردیا تو لگ جائے گی۔پاکستان مسلم لیگ نون اس کی وجہ سے آئندہ انتخابات کے بعد بھی چاہے سادہ اکثریت ہی کی بدولت سہی اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

آئندہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نون کی ممکنہ کامیابی میرا دردِسر نہیں۔دوررس حوالوں سے میری فکر صرف اتنی ہے کہ بے تحاشہ آبادی والے پاکستان میں روزگارمیسر ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔ اس معاملے پر غور کرنے کی ضرورت مجھے ایک کاروباری دوست سے حال ہی میں ایک واقعہ سننے کے بعد مزید شدت کےساتھ محسوس ہوئی ہے۔

میرے اس دوست کو ایک بڑے چینی ادارے نے اپنے ایک میگا منصوبے کے لئے چند دنوں کے لئے بطور Consultant ہائر کیا تھا۔ اسے اس منصوبے کے قریب رہائش کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ ایک صبح و ہ کام کرنے پر جانے سے پہلے اپنے واش روم گیا تو اس کا فلش کام نہیں کررہا تھا۔ اس نے اپنے دفتر والوں کو فون کرکے اس کی شکایت کی ۔ اس کے فون کرنے کے چند ہی لمحوں بعد اس کی رہائش کے دوران خدمات پر مامور ملازم نے اطلاع دی کہ ایک چینی میرے دوست کو ملنے آیا ہے۔ میرا دوست سمجھا کہ اس چینی کا تعلق شاید اس منصوبے سے ہوگا جس پر وہ کام کررہا ہے۔ وہ چینی جب آیا توصاف اور استری شدہ قمیض پتلون پہنے ہوئے تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک Kit Box تھا۔ میرے دوست کو اس نے اطلاع دی کہ وہ اس کا فلش ٹھیک کرنے آیا ہے۔ اسے واش روم دکھایا گیا تو پندرہ ایک منٹ کے بعد اس نے آگاہ کیا کہ فلش کا ایک پمپ ناکارہ ہوچکا ہے۔ اس کا متبادل چارسوروپے میں مل جائے گا۔ وہ ابھی جاکر اسے بازار سے لاکر فلش میں لگاکر اسے چالو کردے گا۔ فلش چالو ہوجانے کے بعد میرے دوست کوپمپ کی قیمت کے علاوہ اس چینی کو مزید چارسوروپے اجرت کی صورت دینا ہوں گے۔ فلش چالو ہوگیا تو آئندہ تین ماہ تک اس میں جو خرابی ہوگی اس کا مداوا وہ بلامعاوضہ کرنے کی گارنٹی بھی لیتا ہے۔

یہ واقعہ سنانے کے بعد میرے کاروباری دوست نے جوسوالات اٹھائے وہ بالکل واجب تھے۔ چین یقینا اپنا یار ہے اور اس پر جان بھی نثار ہے۔اس کی جانب سے پاکستانی معیشت میں گرانقدر سرمایہ کاری بھی ایک خوش کن خبر ہے۔ یہ سرمایہ کاری مگر ہمارے ہنرمندوں اور روزمرہّ امور سے متعلق مستریوں اور کاریگروں کے لئے جوپیغام لارہی ہے اس پر تھوڑی فکرمندی سے غور کرنا بھی تو ضروری ہے۔