برطانیہ کے اخبار’’انڈی پنڈٹ‘‘کے لئے لکھنے والا رابرٹ فسکRobert Fisk ان معدودے چند اخبار نویسوں میں سے ایک ہے جو مشرقِ وسطیٰ اور مسلم ممالک کے بارے میں لکھتے ہوئے واقعات کو اپنی Establishment کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ کئی برسوں سے وہ لبنان کے شہر بیروت میں مقیم ہے۔ وہاں سے مسلسل مصر،شام اور ترکی وغیرہ جاتا رہتا ہے۔ ان ممالک کے ٹھوس حقائق کو جاننے کے لئے وہ دارالحکومتوں یا بڑے شہروں تک محدود رہنے کے بجائے دیہاتوں اور قصبات کے سرائے نما ہوٹلوں میں شب بسری کے امکانات ڈھونڈتا رہتا ہے۔
9/11 کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر War on Terror مسلط کی تو رابرٹ نے Monkey Journalism کی اصطلاح ایجاد کی تھی۔ اسے بہت دُکھ ہوا کہ CNNجیسے شہرئہ آفاق اور عالمی دسترس کے حامل صحافتی اداروں کے بہت نامور نمائندے کابل،اسلام آباد یا پشاور کے پنج ستاری ہوٹلوں کی چھتوں پر بندروں کی طرح جمع ہوکر عام افراد اور ان پر آئی قیامت سے قطعاََ کٹے مقامی صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کو اپنے ہوٹل بلاکر کیمروں کے سامنے کھڑا کردیتے ہیں۔ ان کے تبصرے وغیرہ لینے کے بعد فیصلہ کن تجزیے کے لئے انحصار قابض افواج کی فراہم کردہ اطلاعات اور فوجیوں کے ساتھ Embed ہوئے صحافیوں پر کیا جاتا ہے۔
جدید ترین ٹینکوں اور طیاروں کی مدد سے جب جارج فوج اپنے فوری اہداف حاصل کرلیتی ہے تو یہ نامور صحافی کسی اور ایسے ملک چلتے جاتے ہیں جہاں خانہ جنگی اپنی انتہائوں کو چھورہی ہوتی ہے۔ اس صحافت کا اصل مقصد صرف جنگ کے ڈرامائی مناظر دکھانا ہوتا ہے۔ قارئین وناظرین کو وہ دیرینہ اور پیچیدہ وجوہات سمجھانے کی ہرگز کوشش نہیں ہوتی جو سکرینوں پر نظر آتے تخت یا تختہ والے معرکوں کا باعث بنیں۔
پاکستان کے صحافی خوش نصیب ہیں۔ ہماری اکثریت نے خود کو مسلم اُمہ کا ترجمان اور اس کے مفادات کا نگہبان بنارکھا ہے۔ ہم میں سے شاید ہی کچھ لوگوں کو عربی،فارسی یا ترکی زبان سے بنیادی شناسائی نصیب ہوئی ہوگی۔ ہمارے ادارے،خاص طورپر 24/7 چینلز کے مالک چند نامور اینکر خواتین وحضرات کو لاکھوں روپے ماہوار تنخواہ کی صورت میں یقیناً ادا کرتے ہیں۔ اپنے رپورٹروں کو لیکن اندرونِ ملک سفر کے لئے بھی کچھ رقم دینے کو ہرگز تیار نہیں ہوتے۔ شام جیسے ملکوں میں نمائندے بھیجنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہم ایسے ممالک میں لگی آگ کو امریکی یا برطانوی اخبارات میں چھپے مضامین کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ مذہبی انتہاء پسندوں نے اپنی مسلکی سوچ کو ’’عالم گیر‘‘ بنانے کے لئے اب کچھ انٹرنیٹ سائٹس بھی بنارکھی ہیں۔ ہم ان سے مواد اٹھاتے اور مسلم اُمہ کی تمام مشکلات کا امریکہ اور یہودیوں کو ذمہ دار ٹھہراکر سیاپہ بھرے بھاشنوں سے ڈنگ ٹپالیتے ہیں۔
ان دنوں فیس بک وغیرہ کی مدد سے آپ کو مشرقی حلب میں محصور ہوئے مسلمانوں کی حالتِ زار کو بیان کرتی بے تحاشہ تصاویر دیکھنے کو ملیں گی۔ یہ تصاویر دکھاتے ہوئے چند افراد یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ محصور ہوئے افراد کی مدد کے لئے کونسے ذرائع استعمال ہوسکتے ہیں۔ شام کے صدر بشارالاسد کی مذمت بھی ہورہی ہے۔ اسلامی تاریخ کے ایک اہم ترین شہر-حلب- پر یہ قیامت کیوں نازل ہوئی۔ اس سوال کا جواب نہ تو ہم ڈھونڈنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کوئی ہمیں سمجھانے کو تیار ہے۔
بشارالاسد اپنے باپ حافظ الاسد کی طرح ایک بے رحم ڈکٹیٹر ہے۔ اس بارے میں بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ شام کی اکثریتی آبادی سے اس کا مسلک بھی مختلف ہے۔ شام کی اکثریتی آبادی اسد خاندان کی حاکمیت کو دل سے کبھی قبول نہیں کرپائی۔ آزادیٔ اظہار کی قطعی عدم دستیابی کے باوجود البتہ حقیقت یہ بھی رہی کہ عراق کی طرح تیل کی دولت سے مالامال نہ ہونے کے باوجود بھی اسد خاندان نے مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنے عوام کو رہائش،تعلیم اور صحت کے بنیادی حقوق کی کافی حد تک پاسداری کی ہے۔ روایتی ثقافتی اور مذہبی اقدار کا احترام کرتے ہوئے عورتوں کو بھی تعلیم اور ملازمت کے یکساں مواقع میسر رہے۔ روس جو کبھی کمیونسٹ سوویت یونین ہوا کرتاتھا،اس نظام کو برقرار رکھنے کے لئے مسلسل مالی امداد فراہم کرتا رہا۔
امریکی افواج کے ہاتھوں صدام حسین کی شکست وزوال کے بعد عراق کی سنی آبادی خود کو غیر محفوظ محسوس کرنا شروع ہوگئی تھی۔ شام کی سرحد کے قریب اس آبادی کے انتہاء پسند عناصر نے محفوظ پناہ گاہیں بناکر بغداد میں بیٹھی حکومت کی مسلح مزاحمت شروع کردی۔ یہ مزاحمت اپنے اہداف حاصل نہ کرپائی تو شام کو اقلیتی مسلک کی’’غلامی‘‘ سے آزاد کروانے کی تڑپ شروع ہوگئی۔ نام نہاد عرب بہار نے اس تڑپ کو مزید بڑھاوادیا اور اسد حکومت کو پٹخنے کے لئے ایران مخالف خلیجی ممالک نے مختلف نوعیت کے لشکروںکی سرپرستی شروع کردی۔
شام میں مسلکی جنگ کے شعلوں کو کسی اور نے نہیں بلکہ مسلم اُمہ ہی کے چند طاقت ور ملکوں نے بڑھکایا تھا۔ یہ آگ بھڑک اُٹھی تو اسد خاندان کے غرور اور خود مختاری کی وجہ سے کئی دہائیوں سے اُکتایا امریکہ بھی چند گروہوں کی ’’بحالی جمہوریت‘‘ اور انسانی حقوق کے نام پر سرپرستی کرنا شروع ہوگیا۔ اولیں دنوں میں یہ سرپرستی ترکی کی معاونت سے فراہم ہونا شروع ہوئی تھی۔
شام،مگر 600 سال تک ترکی کاایک صوبہ بھی رہا ہے۔ ترکی اور شام کے درمیان طویل سرحد پر ایسے کئی مقامات ہیں جہاں کرد آباد ہیں۔ ایران،عراق،شام اور ترکی میں پھیلے کرد کئی دہائیوں سے اپنے لئے ایک خود مختار اور آزاد ’’ترکستان‘‘ قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔ امریکہ انہیں’’جمہوریت پسند‘‘ اور روشن خیال سمجھتا ہے۔ترکی مگر کردوں کو ’’تخریب کار‘‘شمار کرتا ہے۔امریکہ اور ترکی بشارالاسد کے خلاف لہذا یکسو نہ ہوپائے۔ شام سے کہیں دور موجود خلیجی ممالک ’’باغیوں‘‘کی مسلسل مدد کرنے کے راستے بھی تلاش نہ کرپائے۔
اس دوران روس کے صدر پیوٹن کو خیال آگیا کہ افغانستان میں ذلیل ورسوا کروانے کے بعد اس کے ملک کو مسلم ممالک کے لئے غیر متعلق بنادیا گیا تھا۔وقت آگیا ہے کہ بشارالاسد کو بچاکر دُنیا کو بتادیا جائے کہ روس اب بھی ایک ’’عالمی قوت‘‘ ہے۔
رابرٹ فسک وہ پہلا صحافی تھا جس نے ایک سال قبل لکھنا شروع کردیا کہ روس کے شام کی خانہ جنگی میں درآنے کے بعد بشارالاسد کی فوج کو کئی حصوں میں بٹے’’اسلامی لشکروں‘‘ کے ذریعے شکست دینا اب ممکن نہیں رہا۔ مناسب ہوگا کہ کڑا وقت آنے سے پہلے ’’اسلامی لشکروں‘‘ کے قبضے میں آئے علاقوں میں مقیم عام انسانوں کے تحفظ کا بندوبست ڈھونڈا جائے۔ کسی ملک نے رابرٹ کی دادفریاد پر مگر توجہ نہیں دی۔
بالآخر تین ماہ قبل حلب مغربی اور مشرق حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ باغیوں کے قبضے میں آیا مشرق جہاں تین لاکھ کے قریب شامی بستے ہیں اسے روس نے وحشیانہ بمباری کے ذریعے بقیہ ملک سے بالکل کاٹ کر ایک محصور جزیرے میں تبدیل کردیا۔ اس جزیرے میں خوراک کی فراہمی ناممکن ہوگئی۔ شدید زخمیوں کے علاج کا بھی کوئی طریقہ ممکن نہ رہا۔ انسانی ہمدردی کے نام پر قائم عالمی ادارے مشرقی حلب میں محصور ہوئے ان بے بسوں کی مدد کے لئے کچھ بھی نہ کرپائے اور اب بشارالاسد مشرقی حصے کو ’’باغیوں‘‘ سے صاف کرنے کے لئے ایک فاتح کی صورت وہاں پہنچنے ہی والا ہے۔
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ شام میں مسلکی آگ بھڑکانے والے خلیجی ممالک،شام میں جمہوریت کے نفاذ کو کبھی بے چین دِکھتا امریکہ اور اپنی سرحد پر عدم استحکام سے نفرت کرنے والا ترکی، یہ سب مشرقی حلب پر ٹوٹی قیادت کے بارے میںاب قطعاََ لاتعلق دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان میں مسلکی آگ بھڑکانے والوں کو بھی سمجھ جاناچاہیے کہ ان کے ’’عمومی سرپرست‘‘ قیامت کی گھڑی میں ہرگز کسی کام نہیں آیا کرتے۔