گزشتہ کئی مہینوں سے بے تحاشہ لوگ مجھے بڑی اُکتاہٹ اور بیزاری سے یہ بتا رہے تھے کہ ہمارا میڈیا معاشرے میں ہیجان بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات پر ضرورت سے زیادہ توجہ دے کر باقی دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک غیر محفوظ ملک بناکر پیش کر رہا ہے۔ کرپشن کے بارے میں مسلسل ہوتی سیاپا فروشی لوگوں کو ”شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے؟“ والے سوالات اٹھانے پر بھی مجبورکررہی ہے۔
آج سے چند ماہ قبل پیمرا نے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں ایک سیمینار کروایا تھا۔ اس سیمینار کے دوران لوگوں کی رائے معلوم کرنے والی ایک بین الاقوامی اور اچھی ساکھ والی فرم کی جانب سے کروائے ایک سروے کے نتائج بھی ہمارے سامنے لائے گئے تھے۔ اعداد و شمار کی مدد سے ہمیں سمجھایا گیا کہ روزانہ شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ہونے والے ”ٹاک شوز“ اپنی سنسنی خیزی اور یا وہ گوئی کی وجہ سے ناظرین کو بیزار کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ملک بھر میں صرف 21 فی صد لوگ اب ان شوز کو دیکھتے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر براجمان عقلِ کل اینکرخواتین وحضرات نے اپنا رویہ نہ بدلا تو یہ تعداد مزید کم ہوتی جائے گی۔
میں اس سروے کے نتائج جان کر بہت گھبراگیا تھا۔ میری روزمرہّ زندگی میں تھوڑی راحت درحقیقت اخبارات سے ٹی وی سکرین کی جانب منتقل ہونے کی وجہ سے نصیب ہوئی ہے۔ ٹی وی سے کمائی رقم کو میں ایک نہیں دو ATM کارڈز کے ذریعے خرچ کرتا ہوں۔ ہر تیسرے برس گاڑی بھی بدل لیتا ہوں۔
ٹھیلوں پر لگے امرود مجھے بچپن سے اپنی جانب کھینچ لیا کرتے تھے۔ میں وہیں رک کر کچھ امرود خریدتا۔ انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے کٹواکر ان پر کالانمک اور لیموں کا رس اپنے ہاتھ سے ڈال کر بہت تیزی سے مزے لے کر کھاتا۔ ٹی وی سکرین پر آنے کی وجہ سے یہ عادت برقرار نہیں رکھ پارہا۔ امرود خرید کر گھر لانا پڑتے ہیں۔ میرا ملازم جب تک انہیں دھوکر صاف ستھری پلیٹ میں ڈال کر کانٹے کے ساتھ لاتا ہے تو اشتیاق ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ مزہ نہیں آتا۔
اگرچہ ”ٹاک شوز“ کی مقبولیت کم ہوتی بتانے والے اعداد و شمار کی وجہ سے گھبراگیا تھا مگر کچھ اطمینان یہ جان کر بھی ہوا کہ -ٹی وی- والی دوکان بند ہوگئی تو میں ٹھیلے کے قریب کھڑا ہوکر سرِ بازار امرود کھانے کی لذت دوبارہ حاصل کرپاﺅں گا۔ میرا ربّ مگر بہت کریم ہے۔ پتھر میں بند کیڑے کو بھی رزق فراہم کردیتا ہے۔ شاید اس نے مجھ ایسوں کی فکر کو دور کرنے کے اسباب فراہم کرنا شروع کردئیے ہیں۔
منفی رحجانات کے فروغ سے معاشرے میں ہیجان پیدا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہمارا میڈیا خودبخود مثبت باتوں کی طرف توجہ دینا شروع ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف کے سوات سے منتخب ہوئے ایک پارہ صفت رکن قومی اسمبلی مراد سعید کا اس ضمن میں خصوصی شکریہ۔ انہوں نے پارلیمان کی راہداریوں میں پاکستان مسلم لیگ نون کے جاوید لطیف کو ایک گھونسہ مارا تو بالآخر دریافت یہ ہوا کہ شیخوپورہ سے منتخب ہوئے اس رکن قومی اسمبلی نے مراد کے گھروالوں کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کئے تھے۔ ہمیں باخبر رکھنے کے دعوے دار اینکر خواتین وحضرات کی اکثریت لہذا اس مشن میں مبتلا ہوگئی کہ جاوید لطیف کو کسی نہ کسی طرح گھیرگھار کر اپنے شوز میں مدعو کرے۔ اسٹوڈیوز میں محصور ہوئے اس رکن اسمبلی کو اس کے ادا کردہ الفاظ کی ریکارڈنگ دکھائی اور سنوائی جاتی۔ اس کے بعد وہ مجبور ہوجاتا کہ اپنے فعل پر نادم محسوس کرے۔ وہ ندامت کا اعتراف کرتا تو اسے معافی مانگنے کی تلقین کی جاتی۔ معافی کی طلب میں جو الفاظ وہ استعمال کرتا سماج سدھار اینکرخواتین و حضرات کو مطمئن نہ کر پاتے۔ سخت گیر استانیوں کی طرح ہم اس رکن کو بدتمیز بچہ سمجھتے ہوئے اپنے تئیں وہ الفاظ بتاتے جو پُرخلوص معافی کی طلب کے لئے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔
میری پانچ بہنیں اور دو بیٹیاں ہیں۔ عورتوں کے احترام کو یقینی بنانے کے لئے لہذا کچھ خودغرض بھی ہوں۔ یہ جان کر بہت اطمینان ہوا کہ ہمارا میڈیا جاوید لطیف جیسے پدرپرست روایات کے نمائندہ اور مرد کی بالادستی پر مبنی فرسودہ روایات کی علامت مانے لوگوں کو سکرینوں پر ناک رگڑنے کو مجبور کر رہا ہے۔ جاوید لطیف کی ٹی وی سکرینوں پر ہوئی مسلسل کھچائی کے بعد میرے دل میں یہ اُمید پیدا ہوگئی کہ ہماری گلیوں اور بازاروں میں آوارہ گھومتے لونڈے اب دشنام طرازی سے گریز کیا کریں گے۔ گھروں میں بیٹھی دوسروں کی ماﺅں اور بہنوں کو بغیر کسی گناہ کے باہمی تکرار میں گھسیٹ کر لے آنے کے بعد اپنی بدکلامی کا نشانہ بنانے سے باز رہیں گے۔
اپنے معاشرے میں عورتوں کے احترام کو یقینی بنانے کے لئے جاوید لطیف کو مسلسل شرمندہ کرنے کے بعد اب میڈیا کو یہ احساس بھی ہوگیا ہے کہ شادیاں برقرار رہنا ضروری ہوتا ہے۔ شوہر اور بیوی میں اختلافات ہوجائیں تو انہیں خلع یا طلاق کی حد تک نہیں پہنچ جانا چاہیے۔ خاص طورپر اس صورت میں جب ایک ازدواجی جوڑے کے دوچاند ایسے خوب صورت بچے بھی ہوں۔
چند برس قبل ٹی وی سکرین پر وینا ملک انگریزی زبان والے Bang کے ساتھ نمودار ہوئی تھی۔ اداکاری کی ایک قسم ہے جسے Mimicry کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے آپ کسی نہ کسی حوالے سے مشہور ہوئی شخصیات کا روپ دھار کر Parody کے ہنر کو استعمال کرتے ہوئے ان کی بھد اڑاتے ہیں۔ حال ہی میں سکارلیٹ جوہانسن جیسی صفِ اوّل کی اداکارہ نے اسی صنف کو استعمال کرتے ہوئے بظاہر خوشبو کا ایک برانڈ متعارف کروانے والا ”اشتہار“ بنایا ہے۔ اس ”اشتہار“ کو دنیا بھر میں لاکھوں افراد نے انٹرنیٹ کی بدولت دیکھا ہے۔ تقریباً 90 سیکنڈ کا یہ ”اشتہار“ ٹرمپ کی بیٹی Ivanka کی خواتین کے حقوق و احترام کے بارے میں ”منافقانہ“ دکھتے رویے کا مذاق اڑاتا ہے۔
وینا ملک، میں انتہائی دیانت داری سے اصرار کرتا ہوں، Mimicry کے ہنر کو جسے ہم بھانڈپن بھی کہہ سکتے ہیں، سکارلیٹ جوہانسن سے کہیں زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔ ہم غریب ملکوں کے فنکاروں کو مگر عالمی پذیرائی نصیب نہیں ہوتی۔ وینا ملک کا کمال بھی ایک بھارتی ٹیلی وژن کے Reality Show تک پہنچ کر ختم ہو گیا۔ اگرچہ اس شو کی وجہ سے وینا کو ہمارے ٹی وی پر ایک عالم کے سامنے ”یہ کیا بات ہوئی مفتی صاحب“ بھی چیخنا پڑا تھا۔ پھر اس کی ایک ایسی تصویر بھی آگئی جس نے وینا کی اپنے ملک سے محبت پر بھی کئی سنگین سوالات کھڑے کردئیے۔
وینا ملک خوش نصیب ثابت ہوئی کہ بہت جلد اس نے راہِ ہدایت بھی دریافت کر لی۔ بظاہر ایک خوش حال مرد نے اسے اپنا جیون ساتھی بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ شادی کے بعد وینا باحجاب عمرے کے سفر پر بھی روانہ ہوگئی۔ اس کے بعد یہ تصور کیا جارہا تھا کہ وینا اور اس کا شوہر عمران خان کی قیادت میں پاکستان کو مثبت انداز میں بدلنے کے لئے جدوجہد کریں گے۔
یہ جدوجہد تو ہوتی ہمیں نظر نہ آئی مگر وینا خوش گوار ازدواجی زندگی میں گم ہوگئی ضرور محسوس ہوئی۔ چند روز قبل مگر اچانک یہ خبر آئی کہ اس نے اپنے شوہر سے خلع کے ذریعے علیحدہ ہونے کے لئے عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ عدالت نے آخری خبریں آنے تک ”خلع“ کا عمل بھی مکمل کر لیا تھا۔ وینا کی اصل شکایت اپنے شوہر کے خلاف یہ بتائی گئی تھی کہ وہ ”نکھٹو“ ہے۔ گھر کا خرچہ چلانے کے اہل نہیں۔ سارا دن گھر بیٹھا رہتا ہے۔
نظر بظاہر ”خلع“ کا قانونی عمل مکمل ہو جانے کے باوجود ہمارے نرم دل اینکرخواتین و حضرات متحرک ہو گئے۔ دل ملالہ جیسی نوبل انعام یافتہ ہستی کا بھی پسیچ گیا، ان سب لوگوں کی کاوشوں سے اب دنیا کی شاید پہلی شادی ٹی وی پر بیٹھے نیک دل سماج سدھاروں کی بدولت کسی ناخوش گوار انجام سے بچتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ہمارے میڈیا کواس نیک کام کا اجر ضرور ملے گا۔ فی الوقت مجھے ذاتی طورپر اطمینان اس بات پر محسوس ہورہا ہے کہ لوگ میرے پیشے کو مثبت کاموں کے لئے استعمال ہوتا دیکھ رہے ہیں۔شاید مجھے کسی ٹھیلے کے قریب کھڑے ہوکر سرِ بازار امرود کھانے کی آنے والے دنوں میں طلب محسوس نہیں ہوگی۔