1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. کسی کے پاس اتنا وقت کہاں

کسی کے پاس اتنا وقت کہاں

نام نہاد عالمی میڈیا سے گلہ کیوں؟ بنیادی سوال تو میرا یہ ہے کہ ہمارے اپنے میڈیا میں جوہر خبر پر نگاہ رکھنے کا دعویدار ہے اور جس کی سکرینوں پر اپنے تئیں حب الوطنی اور قومی مفادات کے ٹھیکیدار بنے تماشہ گیروں کی بھرمار ہے،کتنے لوگوں کو یہ خبر تھی کہ مقبوضہ کشمیر کے اہم ترین شہر سری نگر میں بھارت کی لوک سبھا میں خالی ہوئی ایک نشست کے لئے ضمنی انتخاب ہونے جارہا ہے۔

نریندرمودی کی اس انتخاب میں دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ وہ اس کے لئے چلائی مہم میں گہماگہمی پیدا کرنے کے لئے بذاتِ خود کشمیر گیا۔ وہاں اس نے مقبوضہ خطے کو بقیہ بھارت سے ملانے والی قدرتی نہیں انسانوں کی بنائی ہوئی سرنگ میں کھڑے ہوکر سیلفیاں بنائیں۔ ریگولر اور سوشل میڈیا میں ان تصاویر کو پھیلاکر کشمیریوں کو واضح الفاظ میں بتایا گیا کہ وقت آگیا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ انہیں اپنے خطے میں سیاست کے فروغ کے ذریعے ’’خوشحالی‘‘ چاہیے یا ’’آزادی کے نام پر پھیلائی مسلسل دہشت گردی‘‘۔ ہٹلر کی طرح خود کو Great Communicator کہلوانے والا مودی "Tourism or Terrorism" والا سوال منتر کی طرح دہرائے چلا گیا۔

اتوار کے روز مگر جب مذکورہ انتخاب ہوا تو بھارتی الیکشن کمیشن نے سرکاری طور پر یہ تسلیم کیا کہ رائے دہندگان کی صرف 6.5 فیصد تعداد نے ووٹ ڈالنے کا تردد کیا۔ عوام کی بے پناہ اکثریت اس ضمنی انتخاب سے لاتعلق رہی۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس انتخاب کے قریب ’’دہشت گردی‘‘ کی کسی واردات کے ذریعے رائے دہندگان کو خوفزدہ کرکے گھروں میں بیٹھے رہنے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔ زندگی روزمرہّ معمولات کے ساتھ رواں رہی۔ صرف پولنگ کے روز البتہ قطعی غیرسیاسی بیک گرائونڈ والے کچھ نوجوان بے ساختہ جتھوں کی صورت مختلف مقامات پر پُرامن انداز میں Pickets کی صورت جمع ہونا شروع ہوگئے۔

ان نہتے اور نعرے لگانے والے نوجوانوں کو قابض افواج نے اپنی وحشیانہ روایات کے عین مطابق Crowd Control کے عمومی ہتھکنڈوں سے نہیں بلکہ گولیاں برساکر منتشر کرنا چاہا۔ اتوار کی رات تک آٹھ قطعاً نہتے نوجوان محض نعرے لگانے کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔ ہمارے میڈیا میں اس سارے قصے کا مگر کوئی تفصیلی ذکر نہیں ہوا۔کچھ ٹِکر ضرور چلے اور چند مذمتی بیانات۔

گھسے پٹے الفاظ پر مشتمل ان بیانات کی مگر اب کوئی وقعت باقی نہیں رہی ہے۔ ’’ہماری شہ رگ‘‘سے منافقانہ محبت کا اظہار اب کھوکھلا سنائی دینا شروع ہوگیا ہے۔ برہان الدین وانی کی وحشیانہ ہلاکت کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی احتجاجی تحریک نے ایک نئی صورت اختیار کرلی ہے۔ اس نئی صورت کے بارے میں ہم قطعاً بے خبر ہیں مگر اس کے باوجود خود کو تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے ’’مامے‘‘کہلوانے پر بضد بھی۔

اتوار کا سارا دن انٹرنیٹ اور Whatsapp کے ذریعے سری نگر میں ہوئے ضمنی انتخاب پر مسلسل نظر رکھنے کے بعد میں ذاتی طور پر بہت اداس ہوگیا ہوں۔ پتہ نہیں کہاں سے میرے ذہن میں "Gazafication" کی ترکیب درآئی۔ اس تصور نے سراسیمہ کر دیا کہ آج کے مقبوضہ کشمیر میں محصور ہوئے انسان اتنے ہی اداس، بے بس اور اکیلے ہو چکے ہیں جیسے غزہ کے فلسطینی۔ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس بے رحم فوجیوں کے تسلط کا شکار ہوئے انسان جن کی زندگیوں میں آزادی سے سانس لینے کی اب کوئی گنجائش ہی نظر نہیں آرہی۔ غلامی یا موت کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے۔

عرب میڈیا بھی عرصہ ہوا غزہ کو بھلاچکا ہے۔ توجہ اس کی کئی مہینوں سے صرف شام پر مرکوز ہے جہاں بشارالاسد کی آمرانہ حکومت کے خلاف چلائی جدوجہد فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ مسلکی تعصبات میں تقسیم ہوئے گروہ نام نہاد مسلم اُمہ ہی کے چند تگڑے اور مالدار ممالک سے اسلحہ اور پیسہ حاصل کر رہے ہیں۔ بشارالاسد کی حکومت کو بچانے کے لئے مگر کھل کر روس کا صدر پیوٹن دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس کی فضائیہ نے شام حکومت کے باغیوں کے ٹھکانوں پر بے دریغ بمباری کی۔ اپنی زمینی افواج کو بشار حکومت کے لئے ’’محفوظ علاقے‘‘ تیار کرنے کے لئے استعمال کیا۔

دنیا کا کوئی مسلمان ملک شام میں روسی مداخلت کی واضح الفاظ میں مذمت کرنے کی جرأت بھی نہ دکھا پایا۔ اس کی مزاحمت کے ذرائع ڈھونڈنا تو بہت دور کی بات ہے۔ دنیا کی واحد سپرطاقت کا دعویدار ہوتے ہوئے بھی امریکہ نے اوبامہ کے آخری دو برسوں میں خود کو شام کے معاملات سے لاتعلق بنا لیا تھا۔ ٹرمپ نے گزشتہ جمعے ایک گمنام اور فوجی حوالے سے تقریباً غیر اہم ہوائی اڈے پر جومیزائل برسائے ہیں اس کا مقصد بھی فقط خود کو دنیا بھر میں امریکی چوہدراہٹ کو اجاگر کرنے کے لئے تیار دکھانا تھا۔

شام، عراق اور یمن ایسے ملکوں میں مسلکی بنیادوں پر جاری خانہ جنگی نے قصہ مختصر اسرائیل کے قبضے میں 1967ء سے آئے غزہ میں بسے مسلمانوں کی بے بسی کو ’’عالمی ضمیر‘‘ کے لئے غیراہم بنا دیا ہے۔

مجھے شدید خوف ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں برہان الدین وانی کی وحشیانہ ہلاکت کے بعد سے جاری تحریک بھی کچھ ایسی ہی لاتعلقی کا نشانہ نہ بن جائے۔ وہاں کی حقیقی صورتحال کو دنیا کے سامنے لانا ہماری ذمہ داری تھی۔ ہمارے میڈیا میں لیکن بہت شدت سے پانامہ پر فیصلے کا انتظار ہو رہا ہے۔ پانامہ سے کبھی فرصت مل جائے تو دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوکر Breaking News بن جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کو ہرگز وہ توجہ نہیں مل پارہی جس کی وہ مستحق ہے۔

سچی بات یہ بھی ہے کہ پاکستانی میڈیا سے کہیں زیادہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں میں بھارت کے خلاف اُبلتی نفرت کو اس ملک کے چند گنے چنے صحافی اور لکھاری ہی دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ کوششیں مگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مناسب Space حاصل نہیں کر پا رہیں۔ یوپی کے ریاستی انتخابات کے بعد شمالی بھارت میں ہندو انتہاپسندی کی جو لہراُٹھی ہے وہ روزانہ کی بنیاد پر سنسنی خیز خبریں فراہم کررہی ہے۔راجستھان کو دوسرے صوبوں سے ملانے والی شاہراہوں پر لاٹھیوں سے مسلح جتھوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ یہ جتھے ’’گائو رکھشا‘‘کے نام پر ان ٹرکوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کے ذ ریعے راجستھان سے مویشی بھارت کے دوسرے شہروں میں بھیجے جاتے ہیں۔ان ٹرکوں میں اگر گائے دریافت ہوجائیں تو فوراً یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ انہیں صرف گوشت کی فروخت کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ایسے ٹرک کا ڈرائیور،کلینر یا کوئی اور سواری مسلمان ہو تو اسے ٹرک سے اتار کر لاٹھیاں برساتے ہوئے موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے۔ یہ Mob Lynching ’’ڈرامائی ٹیلی وژن‘‘ کا سامان مہیا کردیتی ہے جو کئی دنوں تک میڈیا کے ذہنوں پر سوار رہتی ہے۔

’’گائوکشی‘‘ کو روکنے کے لئے انسانوں کو لاٹھیاں برساکر ہلاک کردینے والی کہانیوں کے ہجوم میں کہ مقبوضہ کشمیر کی بدنصیب وادی میں نہتے نوجوانوں کی مسلسل ہلاکتوں کا ذکر کرسکے۔خاص طور پر اس وقت جب بھارتی ریاست کے وحشی ہوئے فوجی بھارت کو ’’دہشت گردی‘‘ سے محفوظ بناتے ہوئے نظر آئیں؟