حسین مبارک پٹیل کے ”اسلامی“ نام سے پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد ایران کے شہر چاہ بہار پہنچ کر پاکستان کے بلوچستان میں جاسوسی اور تخریب کاری میں مصروف بھارتی جاسوس- کلبھوشن یادیو-ہمارے قومی سلامتی اداروں کی چوکسی اور مہارت کی وجہ سے گرفتار ہوگیا۔دشمن کے جاسوسوں کو عام عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا۔امریکہ جیسا ”انسانی حقوق“ کا چمپئن بنا ملک بھی القاعدہ سے متعلق لوگوں کو گونتاناموبے نامی جزیرے میں قید رکھے ہوئے ہے۔ان پر مقدمات خصوصی عدالتوں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔پاکستان نے بھی کلبھوشن کا کورٹ مارشل کیا ہے اور ایک باقاعدہ نظام کے تحت کارروائی کرتے ہوئے اسے سزائے موت سنادی۔یہ سزا پانے والے کے پاس اپیل کا حق اپنی جگہ موجود ہے۔اس حق سے کوئی فائدہ نہ اٹھاسکنے کے باوجود بھی وہ بالآخر اپنی جان بخشی کے لئے صدرِ پاکستان سے رحم کی درخواست کرسکتا ہے۔مختصر الفاظ میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ کلبھوشن کے حوالے سے ہمارے قومی سلامتی ادارے نے جو کردار ادا کرنا تھا وہ کردیا ہے۔اس کے بعد رونما ہونے والے تمام معاملات کو دیکھنا ریاستِ پاکستان کے دوسرے اداروں،خاص طورپر وزارتِ خارجہ کی ذمہ داری ہے۔
دشمن ملک کے کسی جاسوس کی گرفتاری اپنے تئیں ایک بڑا واقعہ ہونے کے باوجود بھی دو متحارب ممالک کے درمیان کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتی۔عموماًایسی گرفتاریوں کو سفارتی زبان میں Leverage کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔کلبھوشن کی گرفتاری نے ہمیں اپنا یہ کیس مضبوط بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا کہ بھارتی جاسوسی ادارے کراچی اور بلوچستان میں تخریب کاروں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔بھارت اگر پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ رویے کو واقعتا ترک کرنا چاہتا ہے تو اسے ایسی پشت پناہی سے باز رہنا ہوگا۔اس حوالے سے ٹھوس پیغام رسانی مگر صرف سفارتی فورمز کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
پاکستان اور بھارت،سفارتی نمائندوں کے درمیان باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے میں لیکن ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔کسی تیسرے ملک کو ہمیشہ ان کے درمیان ”ثالثی“ کا کردار ادا کرنا پڑا۔1965 کی جنگ کے بعد روس کی معاونت سے معاہدہ تاشقند ہوا تھا۔1971ء کے بعد بھی بے تحاشہ عالمی دباﺅ کے نتیجے میں بالآخر شملہ مذاکرات ہوئے۔1998ء میں کارگل ہوا تو نواز شریف کو امریکہ کے یومِ آزادی کے دن امریکی صدر کلنٹن سے ملاقات کرنا پڑی۔2002ء میں بھارتی پارلیمان پر حملہ ہوا تو واجپائی نے اپنی افواج کو پاکستان کے خلاف سرحدوں پر حالتِ جنگ کی صورت میں کھڑا کردیا تھا۔پاک-بھارت سرحد پر تناﺅ کا ماحول پورے ایک سال تک جاری رہا۔امریکہ،برطانیہ اور بالآخر اسرائیل نے باہم مل کر بھارتی وزیر اعظم پر معاملات کو نارمل کرنے کے لئے مسلسل دباﺅ ڈالا۔اس دباﺅ کے نتیجے میں بالآخر واجپائی فروری 2004 ء میں سارک کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد آئے اور پرویز مشرف کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کا معاہدہ کیا۔
کوئی پسند کرے یا نہیں،کلبھوشن کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد پاکستان اور بھارت کے معاملات ایک بار پھر اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی تیسرے ملک کو ”ثالثی“ کا کردار ادا کرنا ہوگا اور ٹھوس حوالوں سے اب یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ یہ کردار ادا کرنے کو تیار ہورہی ہے۔
حیران کن بات یہ بھی ہے کہ امریکہ نے ”ثالثی“ کے لئے اپنی آمادگی کا اظہار کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائے جانے کی خبر آنے سے کئی دن پہلے کردیا تھا۔اپریل کی 2تاریخ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنی نشست سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ کی لگائی مندوب نکی ہیلی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔اس کانفرنس کے دوران ایک پاکستانی صحافی-مسعود حیدر-کے سوال کا جواب دیتے ہوئے نکی نے واضح الفاظ میں اعتراف کیا کہ ا مریکی حکومت پاک-بھارت کشیدگی پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔اس کا خیال تھا کہ امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل اس ضمن میں ”کوئی بڑا واقعہ“ ہونے سے پہلے ہی کوئی کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔شاید پاک بھارت کشیدگی ،بالآخر صدر ٹرمپ کو بھی ان دونوں ممالک سے رابطہ کرنے پر مجبور کردے۔
نکی کے اس بیان کو بھارتی وزارتِ خارجہ نے حسب روایت کافی رعونت کے ساتھ ایک باقاعدہ پریس ریلیز کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔اس بیان کے باوجودنئی دلی اس ہفتے کے آخری دنوں میں امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر -جنرل H.R. Mcmaster سے ملاقات کی تیاری کررہا ہے۔امید ہے کہ بھارت پہنچنے سے قبل یہ مشیر افغانستان اور پاکستان کا دورہ بھی کرچکا ہوگا۔منگل کی سہ پہر شاید اسی دورے کی تیاری کے لئے پاکستان میں متعین امریکی سفیر نے آرمی چیف جنرل باجوہ سے ایک طویل ملاقات کی ہے۔منگل ہی کے دن پاکستانی وزیر اعظم نے سرکاری خبررساں ایجنسی-APP-کو ایک خصوصی انٹرویو بھی دیا جس کے ذریعے اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ پاکستان اور بھارت کے مابین دیرینہ مسائل،خاص طورپر مقبوضہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔وزیراعظم ایک ”خصوصی انٹرویو“ کے ذریعے اپنی اس خواہش کا اظہار کسی ٹھوس پیشگی اطلاع کے بغیر کر ہی نہیں سکتے تھے۔
30 نومبر 2016 کے دن نواز شریف کی ڈونلڈٹرمپ سے ٹیلی فون پر طویل اور کھلی ڈلی باتیں ہوئیں تھیں۔ان میں سے اکثر باتوں کو ایک باقاعد ہ پریس ریلیز کے ذریعے منظر عام پر لایا گیا تھا۔ٹرمپ نے اس وقت تک اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھایا تھا۔پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کے دوران مگر جنوبی ایشیاءمیں دیرینہ مسائل کے حل کے لئے اس نے کوئی کردار ادا کرنے پر جس آمادگی کا اظہار کیا تھا اس کی تردید ہرگز نہیں ہوئی۔
”ہندوستان ٹائمز“ میں دو ہفتے قبل شائع ہونے والی ایک خبر نے بلکہ یہ انکشاف کیا کہ بھارتی حکام ٹرمپ کی جانب سے ادا کئے کلمات کے بارے میں پریشان ہوگئے تھے۔پاک-بھارت کشیدگی کو کم کرنے کے لئے اس کی جانب سے ممکنہ ثالثی کو روکنے کے لئے بھارتی مشیر برائے قومی سلامتی-اجیت دیول- واشنگٹن روانہ ہوگیا تھا۔اس کی واشنگٹن یاترا مگر اپنا ہدف حاصل نہیں کر پائی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ،بھارت اورپاکستان کے درمیان ”ثالثی“ کے لئے اپنا ذہن بناچکی ہے۔جنرل Mcmaster کی اس ہفتے پاکستان،افغانستان اور بھارت آمد مجوزہ ثالثی کے حوالے سے پہلا قدم ہوگی۔ہمیں اس دورے پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔