1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. کلبھوشن پر پوائنٹ سکورنگ سے اجتناب کریں

کلبھوشن پر پوائنٹ سکورنگ سے اجتناب کریں

خواہش میری بہت شدید تھی کہ پیر کا دن ہمارا میڈیا مقبوضہ کشمیر سے لوک سبھا کی ایک نشست پر اتوار کے روز ہوئے ضمنی انتخاب کے عواقب پر توجہ دے سکے۔ رائے دہندگان کی، تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، صرف 7 فی صد تعداد نے اس انتخاب میں حصہ لینے کا تردد کیا تھا۔ سری نگر کے اس حلقے کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں کے باہر نہتے نوجوانوں کی ٹولیاں قابض افواج کے خلاف نعرے لگاتی رہیں۔ ان ٹولیوں کو لاٹھی چارج یا آنسو گیس کے استعمال سے منتشر کرنے کے بجائے گولیوں کو بے دریغ انداز میں استعمال کیا گیا۔8 نوجوان موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ ان ہلاکتوں کے سوگ میں دو روزہ احتجاج کا اعلان ہوا۔ عوام کے غم وغصہ سے گھبرا کر مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی الیکشن کمیشن سے چند ہی روز بعد اننت ناگ میں ہونے والے ایک اور ضمنی انتخاب کو ملتوی کرنے کی درخواست بھی کردی۔یاد رہے کہ 2014ء میں اس نشست سے محبوبہ خود منتخب ہوئی تھی۔ اننت ناگ جنوبی کشمیر کا ایک تاریخی شہر ہے محبوبہ اور اس کے خاندان کا تعلق بھی اس شہر سے ہے۔مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ بننے کے لئے اس نے یہ نشست چھوڑ دی تھی۔اب اس کا بھائی ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کے لئے کھڑا ہوا تھا۔ محبوبہ اور اس کے والد کئی برسوں سے یہ دعویٰ کررہے تھے کہ مظلوم اور بے بس کشمیری، بھارت کے متعارف کردہ ”جمہوری نظام“ میں حصہ لیتے ہوئے ہی اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کی تلخ صورت حال میں ”سیاسی“ کے بجائے”انسانی“سوالات اٹھانے کا ڈھونگ بھی رچایا۔ بے بس ولاچار ہوئے کشمیریوں کی ایک معقول تعداد نے ان پر بھروسہ کرلیا مگر قابض قوتوں کا جبر اپنی جگہ برقرار رہا۔ محبوبہ اور اس کے والد کا ایجاد کردہ نسخہ کوئی کام نہ آسکا۔ان دونوں کی منافقت اس وقت قطعاََ بے نقاب ہوگئی جب وزارتِ اعلیٰ کا منصب حاصل کرنے کے لئے انہوں نے انتہاءپسند ہندو جماعت BJP سے اتحاد کرلیا۔ یہ ”اتحاد“ موقعہ پرستی کی انتہاءتھی،کیونکہ محبوبہ اور اس کے والد ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے تھے کہ ان کی سیاست کا حقیقی ہدف اس ہندو انتہاءپسند جماعت کو ”بانی ہال کے اس پار “ تک محدود رکھنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی حقیقت سے لاعلم دوستوں کو یاد دلانا ضروری ہے کہ وادی¿ کشمیر کو موجودہ بھارت سے ملانے والا کوئی فطری راستہ موجود نہیں ہے۔مغل بادشاہ ہمارے بھمبر سے ”شاہی راستے“ کے ذریعے قافلوں کی صورت وادی کا سفر کیا کرتے تھے۔ انگریزی دور میں راولپنڈی سے براستہ مظفر آباد جانے والی سڑک ہی آمدورفت کا واحد اور جدید ذریعہ بنی رہی۔ کشمیر پر قابض ہوجانے کے بعد بھارتی حکومت نے بانی ہال سے ایک طویل سرنگ بنائی جو سری نگر کو مشرقی پنجاب سے ملانے کا ذریعہ بنی۔ بانی ہال گویا کشمیر کو آج کے ہندوستان سے جدا رکھنے کی اہم ترین علامت ہے۔بہرحال خواہش میری بہت شدید تھی کہ ہمارا میڈیا مقبوضہ کشمیر میں اتوار کے روز ہوئے ضمنی انتخابات کے عواقب پر توجہ دے۔ ایسا مگر ہو نہیں پایا کیونکہ پیر کی دوپہر DG-ISPR نے ایک ٹویٹ کے ذریعے بلوچستان سے کئی ماہ قبل گرفتار ہوئے بھارتی جاسوس -کلبھوشن یادیو-کے لئے فوجی عدالت کی جانب سے سنائی سزائے موت کی اطلاع فراہم کردی۔ہمارے میڈیا کی پوری توجہ کا اس جانب مرتکز ہوجانا قطعی فطری تھا۔

سفارت کاری کی باریکیوں کے بارے میں بطور رپورٹر کچھ آگاہی حاصل کرنے کی وجہ سے میں اس خواہش کا اظہار کرنے پر مجبور ہوں کہ DG-ISPR کے ٹویٹ کے چند ہی گھنٹوں بعد ہماری وزارتِ خارجہ کے ترجمان کو ایک تفصیلی پریس کانفرنس سے خطاب کرنا چاہیے تھا۔مجوزہ پریس کانفرنس کے دوران وہ تمام سوالات اٹھائے جاسکتے تھے جو مختلف ٹی وی سکرینوں کے نیوز اینکرز کلبھوشن کو سزائے موت کی خبر آنے کے بعد مجھ ایسے ”دفاعی اور خارجہ امور کے ماہرین“ سے پوچھتے رہے۔مناسب علم نہ ہونے کی وجہ سے کم از کم میں تو اس ضمن میں مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے تُکے ہی مارتا رہا۔

بھارتی ریاست اور خاص کر مودی حکومت کے بلوچستان کے بارے میں جو عزائم ہیں وہ ڈھکے چھپے نہیں۔بھارت کے "007 بنائے اجیت دیول نے انہیں بلکہ ایک Doctrine کی صورت مختلف تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے بیان کررکھا ہے۔ان عزائم کی تکمیل کے لئے کلبھوشن جیسے کرداروں کا ہونا لازم تھا۔

بھارتی میڈیا بھی اعتراف کرتا ہے کہ وہ ان کی نیوی کا افسر تھا۔2003ء میں اس نے حسین مبارک پٹیل کے فرضی نام سے بمبئی کے قریبی شہر پونہ سے ایک پاسپورٹ بنوایا تھا۔کلبھوشن نے یہ پاسپورٹ حاصل کرنے کے لئے جو نام اختیار کیا وہ اس کے عزائم کو بے نقاب کرتا ہے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مگر اسے متاثر کن پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ گرفتار کرلیا۔اس گرفتاری کی وجہ سے بلوچستان کے بارے میں بھارتی عزائم اور انہیں حاصل کرنے کی حکمت عملی کو ہماری ریاست نے ٹھوس حوالوں سے جان لیا ہوگا۔ایک جاسوس کی گرفتاری مگر اس بات کو ہرگز یقینی نہیں بناتی کہ دشمن نے اپنے ارادوں کو فراموش کردیا ہے۔

سردجنگ کے دوران امریکہ اورروس نے بھی ایک دوسرے کے کئی جاسوس گرفتار کئے تھے۔یہ گرفتاریاں لیکن ان دونوں کے درمیان مناقشت کو روک نہیں پائی تھیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود مخاصمت بھی اس گرفتاری کے بعد ختم نہیں ہوگی۔ ہمارے ریاستی اداروں کو بلکہ اس ضمن میں اب مزید چوکس رہنا ہوگا۔کلبھوشن کی گرفتاری اپنی جگہ یقینا ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ہماری جانب سے یہ اصرار مگر بچگانہ ہوگا کہ نام نہاد”عالمی برادری“ اس کے اعترافی بیانات کی روشنی میں بھارت کے پاکستان کے خلاف تخریب کارانہ عزائم کا ادراک کرے اور ہمارے ساتھ یک جہتی نہ سہی کم از کم ہمدردی کا اظہار ضرور کرے۔ہر ریاست کے اپنے ٹھوس مفادات ہوتے ہیں۔ وہ ان مفادات کی وجہ ہی سے کسی اور ریاست کا دوست یا دشمن ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔کسی دوسرے ملک کی خاطر خواہ وہ کسی بھی ریاست کے کتنا ہی قریب اور دوست کیوں نہ ہو،کسی تیسرے ملک سے تعلقات بگاڑے نہیں جاتے۔مثال کے طورپر عوامی جمہوریہ چین ہمارا بہت ہی مخلص اور ثابت قدم دوست ہے۔ بھارت کے ساتھ کئی حوالوں سے اس کی مناقشت بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کے باوجود بھارت اور چین کے مابین تجارتی تعلقات بہت توانااور پُرجوش ہیں۔ کلبھوشن کے اعترافی بیانات کے ہوتے ہوئے بھی چین اپنے ٹھوس مفادات کی وجہ سے لہذا واضح الفاظ میں بھارت کے بلوچستان کے بارے میں تخریب کارانہ عزائم کی مذمت سے گریز کرے گا۔

اس ٹھوس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں اپنی وزارتِ خارجہ کو کلبھوشن کے حوالے سے نام نہاد ”عالمی دنیا“ کے سامنے بھارتی عزائم کو بے نقاب کرنے میں ”ناکام“ ثابت کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔جاسوسی دنیا کے معاملات بہت پیچیدہ اور گھمبیر ہوتے ہیں۔کلبھوشن کی گرفتاری اور کردار کو پاکستانی ریاست کے مختلف ا داروں کے درمیان بدگمانیاں پھیلانے کے لئے استعمال کرنے سے گریز ہمارے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ پوائنٹ سکورنگ کے لئے ہمارے پاس پانامہ جیسے کئی معاملات بھی تو موجود ہیں ان پر اکتفا کیجئے۔