1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. لوگوں کو بحال ہوئی ’’جمہوریت‘‘ کا مزہ نہیں آیا

لوگوں کو بحال ہوئی ’’جمہوریت‘‘ کا مزہ نہیں آیا

عملی سیاست اور ا قتدار کے کھیل بہت پیچیدہ ہوا کرتے ہیں۔لوگوں کے پاس ان کی گہرائیوں میں جانے کا مگر وقت نہیں ہوتا۔مختصر اور آسان الفاظ میں وہ اپنے ذہن میں جمع ہوئے سوالات کا جواب چاہتے ہیں۔ایسے جوابات فراہم نہ ہوپائیں تو کوئی ’’سازش‘‘ دریافت کرلی جاتی ہے۔سازشوں کو بیان کرتی کہانیاں مسٹری ناولوں کی طرح سسپنس بھری اور مزے دار ہوتی ہیں۔ان میں ہیروز ہوتے ہیں اور وِلن جنہیں سن کر دل بہل جاتا ہے۔

عمران خان کی سیاست کے بارے میں میرے بے شمار تحفظات ہیں۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ عسکری اداروں سے ریٹائر ہوئے کئی بڑے ناموں نے انہیں ’’لانچ‘‘ کرنے کے دعوے بھی کئے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے کئی برسوں تک سیکرٹری اطلاعات رہنے والے مرحوم جنرل مجیب الرحمن بھی ان افراد میں شامل تھے۔ عسکری حلقوں میں انہیں نفسیاتی جنگ کا ماہر تسلیم کیا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنی اس مہارت کو بھرپور انداز میں استعمال بھی کیا۔کرکٹ کو پاکستان ٹیلی وژن کے ذریعے بھرپور اور Live Coverage کو فروغ دینا بھی ان کی دانست میں ایک نفسیاتی حربہ تھا۔ اس کی بدولت جنرل ضیاء کے دور میں لوگوں کو سیاسی ہلچل کا ایک متبادل ملا۔ رومن بادشاہوں کے اکھاڑے ایسے ہی متبادل ہوا کرتے تھے۔’’روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘ والے قصے ٹھوس حقیقت مگر اپنی جگہ یہ رہی کہ جنرل ضیاء کے ایک ہوائی حادثے کی وجہ سے وفات پاجانے کے بعد جو ’’جمہوریت‘‘بحال ہوئی لوگوں کو اس کا مزہ نہیں آیا۔ اس ’’جمہوریت‘‘ کو استحکام بنیادی طور پر اس لئے نصیب نہیں ہوا کیونکہ ہماری ریاست کی عسکری قیادت اور بیوروکریسی پر مبنی دائمی اشرافیہ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو مکمل اختیار دینے کو ہرگز تیار نہیں تھی۔ اس دائمی اشرافیہ نے صدر کے عہدے کو آرٹیکل 58-2\B کے ذریعے شہنشاہی اختیارات دے رکھے تھے۔ صدر کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ قومی اسمبلی اوراس کے قائد کو کرپشن وغیرہ کے الزامات لگا کر گھر بھیج دے۔ اقتدار سے محروم ہوئے سیاست دان لہذا حکومت میں موجود سیاستدانوں کو مسلسل نااہل اور بدعنوانیوں کا مرتکب قرار دینے میں مصروف رہتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلاگیا تھا۔ صرف دو سال کے اقتدار کے بعد انہیں فارغ کیا گیا تو 1990ء کے انتخابات کے بعد نوازشریف وزیر اعظم بن گئے۔

نواز شریف صنعتی گھرانے کے ایک متحرک نمائندہ ہوتے ہوئے بیوروکریسی کے بنائے’’ضابطوں‘‘ کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ایوان صدر میں بیٹھے ایک مجسم بیوروکریٹ-غلام اسحاق خان-سے ان کا نبھاہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ نواز شریف کے سیاسی مخالفین نے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے ان کی پہلی حکومت کے خلاف کرپشن کہانیاں پھلائیں۔ بالآخر نواز شریف کو بھی غلام اسحاق خان نے برطرف کردیا۔ نسیم حسن شاہ کے سپریم کورٹ نے مگر اس برطرفی کو غیر قانونی ٹھہرادیا۔’’دائمی اشرافیہ‘‘ یہ فیصلہ ہضم کرنے کو تیار نہ ہوئی۔ نواز شریف کو استعفیٰ دینا ہی پڑا۔ نئے انتخابات ہوئے تو محترمہ بے نظیربھٹو ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئیں۔ ان کے اقتدارسنبھالتے ہی لیکن نواز شریف نے ’’تحریکِ نجات‘‘ شروع کردی۔

مسلسل سیاسی عدم استحکام کے اسی ہیجانی دور میں عمومی تاثر یہ پھیلا کہ نواز شریف اور محترمہ اپنے باہمی اختلافات کے باوجود نااہلی اور بدعنوانی کو فروغ دینے کے ’’جرم‘‘ میں برابر کے شریک ہیں۔ ان کی جگہ کوئی ’’نیا‘‘ شخص آنا چاہیے۔1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد عمران خان،شوکت خانم ہسپتال بنانے کے لئے چندہ جمع کرنے کی مہم پر نکلے تو مرحوم مجیب الرحمن جیسے لوگوں نے ان کی صورت میں وہ ’’نیا‘‘ شخص دریافت کر لیا۔ اس نئے شخص کی ’’اتالیقی‘‘کا فریضہ بھی انہوں نے اپنے سر لے لیا۔عسکری اداروں سے ریٹائر ہوکر سیاستدانوں کو ’’حکمرانی‘‘ سکھانے کے خواہاں افراد کی عمران خان سے محبت مگر کوئی ’’سازش‘‘ ہرگز نہیں تھی جسے نام نہاد ’’ایجنسیوں‘‘ نے تیار کیا۔ نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف پھیلائی افراتفری نے ’’کسی نئے شخص‘‘ کی آمد کاما حول بنایا تھا۔ عمران خان نے ا پنی ضد،لگن اور کرشماتی شخصیت کی بدولت اس ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

عملی سیاست اور اقتدار کے کھیل کی پیچیدگیوں اور حرکیات کو اگرچہ عمران خان آج تک سمجھ نہیں پائے ہیں۔ جس گیند پر چھکا لگانے کی گنجائش ہواسے Miss کردیتے ہیں اور نہ جانے کیوں اس گیند کو کھیل جاتے ہیں جو سیدھی وکٹوں کی طرف آرہی ہوتی ہے۔

پاکستان کے عسکری اداروں کے ساتھ 5 لاکھ کے قریب لوگ اور ان کے خاندان ہمیشہ وابستہ رہے ہیں۔ تقریباََ اس سے دگنی تعداد ریٹائرہوکر روزمرہّ کاموں میں مصروف رہتی ہے۔ فوجی زندگی کا اپنا ایک مخصوص کلچر اور Mindset ہوتا ہے۔ اس کلچر اور مائینڈسیٹ کو روایتی سیاست دان ہمیشہ نااہل اور بدعنوان دکھائی دیتے ہیں۔’’موروثی سیاست‘‘ کا حقارت سے ذکر کرتے ہوئے عمران خان اس ذہن کو ذرا’’وکھری ٹائپ‘‘ کے دکھائی دئیے۔فوجی کلچر سے جڑے خاندانوں میں لہذا ان کی حمایت 2013ء کے انتخابات کے دوران بہت شدید نظر آئی۔ہمارے معاشرے کے صرف ایک مخصوص طبقے کی حمایت، خواہ وہ کتنی ہی بھرپور کیوں نہ ہو،آپ کو وزیر اعظم نہیں بناتی۔اس کے لئے قومی اسمبلی میں براہِ راست انتخاب کے ذریعے 272 لوگوں کو بھیجنے پر توجہ دینا ہوتی ہے۔ان میں سے اکثر لوگ آپ کی بدولت قومی اسمبلی میں آئیں تو اس کے بعد ہی آپ وزیر اعظم کا عہدہ حاصل کرسکتے ہیں۔عمران خان 2013ء میں یہ اکثریت حاصل نہیں کر پائے۔عام انتخابات کی حرکیات کو سمجھے بغیر مگر انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ ایک گہری سازش کے ذریعے ان سے یہ انتخاب چرالیا گیا تھا۔

جعفر حسن نامی ایک نسبتاََ غیر معروف لکھاری نے اپنے ایک بلاگ میں،جو موصوف نے اپریل2016 میں اپنی ویب سائٹ کے لئے لکھا تھا،عمران خان اور ان کے متوالوں کے دل ودماغ میں 2013 کے انتخابات کے بارے میں موجود سازشی کہانیوں کوبنیاد بنایا۔اس حوالے سے ایک افسانہ نما داستان لکھی جو Satire اور Parody کا معصومانہ امتزاج تھی۔صحافت کے جگت استاد،نذیر ناجی صاحب کی نگاہ اس بلاگ پر پڑی تو انہوں نے اسے ہوبہو اپنے کالم میں شائع کردیا۔اسے شائع کرنے کے بعد واضح الفاظ میں اگرچہ اپنے کالم کے اختتام پر ناجی صاحب نے ایک Box میں موٹے اور جلی حروف میں یہ بھی لکھا کہ اس کہانی کو محض دل لگی ہی سمجھا جائے۔

تحریک انصاف کے ترجمان مگر یہ باکس شاید دیکھ نہیں پائے۔شاہ زیب خانزادہ نے انہیں اپنے پروگرام میں بلایا تو وہ جنرل کیانی،سعودی عرب اور امریکہ پر اس بلاگ کو بنیاد بناکر برس پڑے۔نعیم الحق صاحب نے اپنے خیالات کو ’’ذاتی‘‘ قراردے کر اب تحریک انصاف کو اس سے جدا کرنے کی کوشش کی ہے۔انگریزی والا Damage مگر ہوچکا ہے۔

فوجی کلچر اور مائینڈسیٹ جومیری دانست میں تحریک انصاف کی Core Constituency تھا ،نعیم الحق کے خطاب سے بہت ناراض ہوا ہے۔عمران خان اس کی وجہ سے انہیں محض ایک متلون مزاج شخص دکھائی دئیے ہیں۔کاش عمران خان اور نعیم الحق Satire اور Parody ویسے ہی لیتے جیسے ان اصناف کو لیا جانا چاہیے تھا۔