1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. میں اس میں حصہ ڈالنے کو ہرگز تیار نہیں

میں اس میں حصہ ڈالنے کو ہرگز تیار نہیں

”مسلم اُمہ“ اور ”قومی سلامتی“ کے ہمارے لکھنے والوں میں کئی خود ساختہ ”مامے“ ہیں۔ نسیم حجازی نے اپنے ناولوں کے ذریعے اسلام کی جو ”تاریخ“ لکھی ہے وہ ان میں سے اکثر کو ازبر ہے۔ اس ”تاریخ“ میں سے حوالے ڈھونڈ کر وہ آج کے دور میں ہماری صفوں میں گھسے ”غداروں“ کو مسلسل بے نقاب کرتے رہتے ہیں۔ حسین حقانی ان دنوں ان کی توجہ کا ضرورت سے زیادہ مرکز بنا ہوا ہے۔

حسین حقانی کی جوانی اگرچہ ”احیائے اسلام“ کو یقینی بنانے کی دعوے دار اسلامی جمعیت طلبہ کے نظم تلے گزری تھی۔ ”اسلامی حکومت“ کے قیام کی جستجو ہی میں شاید وہ غازی جنرل ضیاءالحق شہید کے دور میں ”افغان جہاد“ کی کرامتوں کو عالمی دنیا تک پہنچانے کے لئے پاکستان میں ایک بااثر ہفت روزہ ”فارایسٹرن اکنامک ریویو“ کا نمائندہ مقرر ہوا تھا۔ ضیاءا لحق ہوائی حادثے کی نذر ہوئے تو ان کے جنازے میں دھاڑےں مارتے ہوئے رواں تبصرہ بھی کرتا رہا۔ ان کی شہادت کے بعد حسین حقانی کی ذہانت کو پیپلز پارٹی کے امکانات کو کند کرنے کے لئے مرحوم جنرل حمید گل صاحب کی فراست کی بدولت قائم ہوئے ”اسلامی جمہوری اتحاد“ نے بھرپور انداز میں استعمال بھی کیا تھا۔

میاں محمد نواز شریف صاحب جب 1990ءمیں پاکستان کے پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ان کی نگاہِ دوربین نے تاڑ لیا کہ حسین حقانی اگر ملک ہی میں موجود رہا تو سویلین حکومتیں بنانے اور انہیں ہٹانے والی مو¿ثر قوتیں اسے ایک دن ان کے متحرک ”متبادل“ کے طورپر بھی پروموٹ کرسکتی ہیں۔ اپنے ”متبادل“ کے طورپر ابھرنے کی صلاحیت رکھنے والے شہزادوں کو زمانہ قدیم سے ”بادشاہ“ غیر ملکوں میں سفیر متعین کرکے باعزت انداز میں جلاوطن کردیا کرتے تھے۔ نواز شریف نے حسین حقانی کے ساتھ یہی کیا۔ اسے سری لنکا میں، جس کی سنہالی قیادت کو تامل باغیوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے پاکستان سے Strategic امداد درکار تھی ہمارا سفیر مقرر کر دیا گیا۔ خسین حقانی کو غالباََ یہ ”جلاوطنی“ پسند نہیں آئی تھی۔ وہ بغاوت کے بہانے ڈھونڈتا رہا ہوگا۔ غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کر کے بالآخر اسے یہ موقعہ فراہم کر دیا۔ حسین حقانی فلور کراس کرکے محترمہ بے نظیر بھٹو کے کیمپ میں آگیا۔ اس کے بعد کی کہانی آپ سب جانتے ہیں۔

یہاں تک لکھنے کے بعد میں برملا یہ اعتراف کرنے پر بھی مجبور ہوں کہ ذاتی طورپر میں حسین حقانی کی چالاکی اور پھرتیوں سے بہت متاثر ہوں۔ہم دونوں ہم عصر ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ بہت بے تکلف بھی رہے ہیں۔ اسے میں ہمیشہ شاعروں کا ”حسین“ کہتا رہا ہوں جو ہردل کو لبھاتا مگر کسی ایک سے بھی وفا نہیں کرتا۔تغافل میں ہمیشہ جرا¿ت آزمارہتا ہے۔

حسین حقانی کے ”طریقہ واردات“ کو تھوڑا جانتے ہوئے میں پورے اعتمادکے ساتھ یہ دعویٰ کرنے پر مجبور ہوں کہ اس نے حال ہی میں ”واشنگٹن پوسٹ“ کے لئے جو مضمون لکھا ہے اس کا حتمی Customer اس کی نظر میں ٹرمپ انتظامیہ تھی۔ ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کی وجہ سے حیران ہوا امریکہ کا مین اسٹریم میڈیا اپنے صدر کو ان دنوں مسلسل رگید رہا ہے۔کہانی یہ پھیلائی جارہی ہے کہ روس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لئے کام کرنے والے چند Hackers نے ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم میں سرگرم افراد کے ذاتی ای میل اکاﺅنٹس تک رسائی حاصل کرلی تھی۔ان میں سے ”چوندی چوندی“باتوں کو برسرعام لایا گیا۔ہیلری کلنٹن کے حامی ان انکشافات سے ہکا بکا رہ گئے۔ٹرمپ ان کی سراسیمگی کا بے دریغ فائدہ اٹھاتے ہوئے بالآخر وائٹ ہاﺅس پہنچ گیا۔

امریکی صدرمنتخب ہونے کے بعد ٹرمپ نے چند افراد کو قومی سلامتی سے متعلق اہم عہدوں پر فائز کرنا چاہا تو واشنگٹن پوسٹ جیسے اخباروں نے دہائی مچادی۔ ان لوگوں پر تواتر سے یہ الزامات لگائے گئے کہ وہ واشنگٹن میں روس کی جانب سے بھیجے سفیر کے ساتھ مسلسل رابطوں میں رہے تھے۔ یہ روابط اس وقت دنیا کے سب سے طاقت ور ملک مانے امریکہ کے بے پناہ اختیارات والے صدر کو روسی صدر کے ایک مو¿ثر آلہ کار کی صورت بھی دے سکتے ہیں۔

واشنگٹن میں مقیم روسی سفیر کے ساتھ ٹرمپ کیمپ کے روابط کی بنا پر اچھالے سکینڈل کا ٹرمپ انتظامیہ کوئی مناسب جواب نہیں دے پارہی تھی۔اس کی بوکھلاہٹ کو حسین حقانی کی ذہانت نے فوراََ جان لیا اوربڑی محنت اور اہتمام سے ایک مضمون لکھ کر”واشنگٹن پوسٹ“ میں چھپوادیا۔اس مضمون کا مرکزی نقطہ صرف اتنا ہے کہ غیر ممالک میں تعیناتی کے دوران سفارت کار میزبان ملک کے اہم لوگوں سے روابط قائم کرنے اور انہیں مضبوط تر بنانے کی تڑپ ہی میں مبتلا رہتے ہیں۔یہ ایک حوالے سے ان کا بنیادی فریضہ ہے۔واشنگٹن میں مقیم روسی سفیر اگر ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں کے ساتھ رابطے میں تھا تو یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ٹرمپ کے چند بااعتماد ساتھیوں کے لئے بھی اس سے اچھے روابط قائم کرنا دوررس حوالوں سے امریکہ اورروس کے مابین ممکنہ غلط فہمیوں کے تدارک کے لئے ضروری تھا۔

محض اپنے مضمون کے مرکزی پیغام کو توانا بنانے کے لئے حسین حقانی نے اپنے دورِ سفارت کی چند کہانیاں بھی مثال کے طور پر بیان کردیں۔سچی بات یہ بھی ہے کہ اس نے جو کہانیاں بتائیں وہ کچھ اتنی من گھڑت بھی نہیں تھیں۔اس کا یہ دعویٰ اگرچہ ہضم نہیں ہوتا کہ اوبامہ انتظامیہ کے دوران مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لئے کام کرنے والے ”ٹھیکے داروں“کو بآسانی ویزے فراہم کرنے کے لئے بنائی اس کی پالیسی بالآخر اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں مدد گار ثابت ہوئی۔

اسامہ کے خلاف ہوئے آپریشن کے بارے میں عالمی شہرت یافتہ سیموئیل ہرش نامی اخبار نویس نے بھی ایک طویل داستان لکھی ہوئی ہے۔ مجھے اس داستان میں بتائی تفصیلات سے ہرگز اتفاق نہیں۔محض ایک رپورٹر کے طورپر حاصل کردہ معلومات کی بناءپر البتہ میں ہرش کا یہ دعویٰ تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ ایبٹ آباد میںاسامہ کی موجودگی کی اطلاع سی آئی اے کو ہماری ایجنسیوں کے لئے کام کرنے والے ایک فرد نے فراہم کی تھی۔وہ مخبر ان دنوں امریکہ میں ”محفوظ“ زندگی سے لطف اندوز ہورہا ہے۔

حسین حقانی کے واشنگٹن پوسٹ میں چھپے مضمون کو ایک مخصوص تناظر میں رکھ کر پڑھنے کے بعد نظرانداز کردینا ہی مناسب تھا۔ہمارے سیاست دانوں کے پاس مگر ان دنوں فراغت ہی فراغت ہے۔دہشت گردی کے خلاف اصل جنگ فوج لڑرہی ہے۔افواجِ پاکستان ہی کی معاونت سے ہمارے ہاں ان دنوں مردم شماری کا بنیادی فریضہ ایک طویل وقفے کے بعد نبھانے کی مشق جاری ہے۔ یاد رہے کہ اس مردم شماری کا فیصلہ بھی ہماری سیاسی حکومت نے نہیں کیا تھا ۔وہ شاید اسے مزید ٹالنے کو ترجیح دیتی۔ سپریم کورٹ نے مگر مہلت دینے سے انکارکردیا تھا۔

اپنے بنیادی فرائض سے قطعاََ غافل یہ سیاستدان اب حسین حقانی کے مضمون کے حوالے دے کر ماتم کنائی میں مصروف ہیں۔ایک بار پھر ”حقائق جاننے کے لئے “کوئی کمیشن-عدالتی یا پارلیمانی-بنانے کے مطابے ہورہے ہیں۔ماضی میں اُٹھے مختلف قضیوں کے بارے میں بھی سینہ کوبی کے بعد ایسے کئی کمیشن بنائے گئے تھے۔اسامہ کے خلاف ہوئے آپریشن کے حقائق جاننے کے لئے بھی ایک کمیشن بناتھا۔اس کمیشن کی رپورٹ وزیر اعظم کے دفتر میں راجہ پرویز اشرف کے زمانے سے کسی کونے میں پڑی گرد کی نذر ہورہی ہوگی۔حسین حقانی نے بھی اس کمیشن کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔اس کمیشن کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کی جرا¿ت دکھائے بغیر حسین حقانی کے لکھے ایک حالیہ مضمون پر مچائی ہاہاکار لہذا محض منافقت ہے اور ہوں۔