1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. میرے چند دوست مگر جلدی میں ہیں

میرے چند دوست مگر جلدی میں ہیں

نواز شریف سے اندھی نفرت میں مبتلا میرے چند دوست نجانے کیوں یہ حقیقت سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہورہے کہ ’’مقدر کا سکندر‘‘ کہلاتے ہمارے وزیراعظم ان دنوں سیاسی حوالوں سے اپنے کمزور ترین لمحات سے گزررہے ہیں۔

2016 کے اپریل سے ان کے سرپر پانامہ دستاویزات والی بلا نازل ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ سے بالآخر شریف خاندان کو وکلاء کے ذریعے اپنی تین نسلوں کی دولت اور اثاثوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے روبرو وضاحتیں دینا پڑیں۔ ہماری اعلیٰ ترین عدالت میں بیٹھے منصف اس ضمن میں فراہم کئے جوابات سے بالکل مطمئن نہیں ہوئے۔ بالآخر انہوں نے چھ مختلف ریاستی اداروں پر مشتمل ایک JIT کی تشکیل کا فیصلہ کیا۔ اس کمیٹی میں صرف افواج پاکستان کے چیف کو جوابدہ دو اداروں کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ یہ کمیٹی ہر دوسرے ہفتے سپریم کورٹ کو اپنی تحقیق وتفتیش کے بارے میں ہوئی پیش رفت کے بارے میںآگاہ کرنے کی پابند ہے۔ اس کمیٹی کے لئے اپنا کام مکمل کرنے کی مہلت بھی بہت کم ہے۔ صرف 60 دن۔

یہ 60 دن شریف خاندان کو ہمہ وقت کٹہرے میں کھڑا رکھیں گے۔ غلطی کی یہاں کوئی گنجائش ہی نہیں۔ سپریم کورٹ کو اپنی جانب سے اٹھائے سوالوں کا تسلی بخش جواب نہ ملا تو نواز شریف کے پاس وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔ وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے بعد ان کے خلاف متعدد مقدمات بھی قائم کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں لہذا پہلی بار کوئی ایسی صورت بنتی ہوئی نظر آرہی ہے جہاں ایک صاف اور شفاف نظرآنے والے عدالتی عمل کے ذریعے اس ملک کا تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے والا سیاست دان نہ صرف اپنے عہدے سے الگ بلکہ مزید سیاسی اور اخلاقی رسوائی اور تنہائی کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔

اس موقعہ پر نام نہاد ’’ڈان لیکس‘‘ کی وجہ سے بھڑکی آگ کے شعلوں کو ہوا دے کر پاک فوج کو ’’نواز شریف کو سبق سکھانے‘‘ کیلئے اُکسانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ نواز شریف سے اندھی نفرت میں مبتلا ۔ ان کی کاوشوں کی بدولت عسکری قیادت نے اگر قدم بڑھا لیا تو ’’استعفیٰ‘‘ پھر بھی نہیں ملے گا۔ ’’کچھ اور‘‘ ہو گا۔ ’’کچھ اور‘‘ ہوگیا تو مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں مٹھائیاں بھی بٹیں گی۔ چند ہی ماہ بعد مگر قرۃ العین حیدر کے ایک ناول میں اٹھایا سوال قوم کو بے چپن کرنا شروع کردے گا۔ جی ہاں وہی ’’یہ تو ہوگیا اب کیا؟‘‘ والا سوال۔

سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں ہرگز اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتا کہ پاکستان ’’بدل‘‘ چکا ہے۔ یہاں مارشل لاء وغیرہ لگانے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ہمارے صحافی پھنے خان ایسا ہونے نہیں دیں گے اور عدلیہ اسے نگلنے کو ہرگز تیار نہیں ہوگی۔ مائوزے تنگ نے اپنی سیاسی جدوجہد کو ’’انقلابی‘‘ بناتے ہوئے چین کے عوام کو یاد دلایا تھا کہ: "Political Power Grows out of the Barrel of a Gun" اور "Gun" اس ملک میں نواز شریف ایسے سیاستدانوں کے پاس نہیں ہوتی۔ معاملہ جب ’’تخت یا تختہ‘‘ کی صورت اختیار کر لے تو فتح بالآخر ’’ہاکیوں والوں‘‘ ہی کی ہوا کرتی ہے۔

پاکستان میں جمہوری نظام کے تسلسل کے یقینی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ’’2017ء کے عالمی حالات‘‘ کا بھی بہت ذکر ہوتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے لیکن ہم مصر اور تھائی لینڈ کو بھول جاتے ہیں۔ ’’انسانی حقوق‘‘ اب نام نہاد عالمی دنیا کو پریشان نہیں کرتے۔ مصر کے فوجی آمر سے ملاقات کے بعد دنیا بھر میں ان حقوق کے نگہبان سمجھے جانے والے ملک کے صدر ٹرمپ نے اب فلپائن کے صدر کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی ہے۔ یہ شخص جمہوری عمل کی بدولت بے پناہ اکثریت کے ساتھ منتخب ہوا تھا۔ اقتدار سنبھالتے ہی مگر اس نے فلپائن میں امن وامان کو یقینی بنانے والے اداروں کو یہ اختیار دیا کہ وہ منشیات فروشوں اور سٹریٹ کرائم کے عادی افراد کو کسی بھی عدالتی نظام سے گزارے بغیر جہاں دیکھیں گولی مارکر ہلاک کر دیں۔ سینکڑوں ماورائے عدالت قتل کرانے کے باوجودوہ صدر اس وقت ٹرمپ کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اسی فلپائنی صدر نے اوبامہ کو برسرعام فحش گالیاں بھی دی تھیں۔

ٹرمپ کے وائٹ ہائوس پہنچ جانے کے بعد امریکہ کو ایک بار پھر افغانستان میں ’’استحکام‘‘ کے لئے کچھ کرنے کی بے چینی بھی محسوس ہونا شروع ہوگئی ہے۔ پاکستان کا اس ضمن میں کردار کلیدی ہے اور یہ کردار صرف ہماری عسکری قیادت کی معاونت ہی سے ادا کیا جاسکتا ہے۔ میں یہ بات تسلیم کرنے کو لہذا ہرگز تیار نہیں کہ پاکستان کے پڑھے لکھے اور متوسط طبقات کی ’’آزادیٔ رائے‘‘ سے لگن اور عالمی حالات باہم مل کر اس ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بناتے ہیں۔

پاکستان لیکن مصر بھی نہیں، اسرائیل جس کا ہمسایہ ہے۔ ہمارے ہمسائے میں بھارت کی صورت ایک ازلی دشمن موجود ہے۔ اس ملک میں بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہوا وزیر اعظم چھاتی پھلا کر پاکستان کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ یگانگت کا اظہار کرتا ہے۔ برہان وانی کی وحشیانہ ہلاکت کے بعد سے بھارتی فوج اور حکمران، مقبوضہ کشمیر کے نہتے بچوں اور بچیوں نے مسلسل جدوجہد کی بدولت درندہ صفت ’’قابض قوت‘‘ ثابت کر دئیے ہیں۔ بذاتِ خود بھارت اور خاص کر اس کے ہندی بولنے والے علاقوں میں ان دنوں ہندوانتہاء پسندی فسطائی جنون کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ’’گائو ماتا‘‘ کی حرمت کے نام پر مسلمانوں کے قتل تقریباً روز مرہّ کے واقعات بن چکے ہیں۔

ہندو انتہا پسندی پر مبنی جنون نے ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ ہونے کے دعوے دار Shining India کی حقیقت عیاں کردی ہے۔ ان تلخ حقیقتوں سے توجہ ہٹانے کے لئے مودی کو پاکستان کے خلاف جنگی جنون کو ہوا دینے کی اشد ضرورت ہے۔

اس موقعہ پر پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دُنیا کے سامنے ایک متحد ملک نظر آئے جہاں تمام تر مشکلات کے باوجود ایک جاندار جمہوری نظام موجود ہے۔ آزاد صحافت ہے اور اشرافیہ کا احتساب کرنے والی عدلیہ۔ عسکری قیادت کو سیاسی نظام کے خلاف اُکساتے ہوئے ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کی خواہش کرنے والے میری ناقص رائے میں نواز شریف سے اندھی نفرت کی وجہ سے انگریزی والی Big Picture کو دیکھ نہیں پا رہے۔

انہیں اپنی خواہشات کو لگام ڈالنا چاہیے۔ صبر کریں اور نواز شریف کو صرف اور صرف عدالتی اور سیاسی ذرائع سے اپنے انجام تک پہنچنے دیں۔ ’’قدم بڑھائو‘‘ والا معاملہ ہوگیا تو کسی کو پانامہ دستاویزات یاد رہیں گی اور نہ ہی نام نہاد ڈان لیکس۔ مسرت نذیر کے گائے ایک گیت والا ’’نیا پواڑا‘‘ متعارف ہو جائے گا۔ اس ’’پواڑے‘‘ کا پہلا شکار، یقین مانیے ان دنوں ہماری سکرینوں پر بہت ہی بلندآہنگ اور حق گو نظر آنے والے افراد ہوں گے اور بالآخر ’’تبدیلی‘‘ والوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔