نومبر 2016ء سے صرف چند ہفتے قبل مجھے یہ خدشہ لاحق ہونا شروع ہوا کہ امریکی اخبارات چاہے جو بھی کہتے رہیں، ڈونلڈٹرمپ ان کے ملک کا صدر منتخب ہو جائے گا۔ عورتوں اور تارکین وطن کے بار ے میں تنگ نظر اور متعصبانہ خیالات کا حامل یہ بے رحم سرمایہ دار مجھے ہرگز پسند نہیں۔ پاکستان ایسے ممالک کے ساتھ امریکی اشرافیہ کا رویہ بھی تو بہت خود غرض اور سفاک رہا ہے۔ یہ رویہ ہم ایسوں کو اکثر جوش ملیح آبادی کی طرح ’’اللہ جرمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں‘‘ والی فریاد کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔
انتخابات کے نتائج آئے تو گماں ہوا کہ ربّ کریم نے ہماری فریاد سن لی۔ خود کو پوری دُنیا کا تھانے دار باور کرنے والے ملک پر ایک مسخرا مسلط کر دیا۔ اب وہ جانیں اور ان کا کام۔
20 جنوری 2017ء مگر اب بہت قریب آرہی ہے۔ ڈونلڈٹرمپ اس روز اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور ملک میں فیصلہ سازی کا حتمی اختیار حاصل کر لے گا۔ امریکہ کی بے پناہ فوجی اور معاشی قوت کے تناظر میں جب ڈونلڈ ٹرمپ کے اختیارات کے ممکنہ استعمال پر غور کرنا شروع کیا تو دل کانپ اُٹھا۔ خود کو مطمئن کرنے والی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔
17ویں صدی کے آغاز کے ساتھ یورپ میں صنعتی انقلاب شروع ہوا تو انتہا اس کی ایک وحشیانہ سامراجی نظام تھا۔ اس نظام نے دُنیا کو نوآبادیوں میں تقسیم کردیا۔آقائوں اور غلاموں کی ایک نئی قسم متعارف ہوئی۔ سامراجی نظام کی تمام تر وحشتوں کے باوجود اس کی بدولت دنیا کو ایک نظم بھی دیکھنے کو ملا۔ تعلیم، صحت اور انسانوں کی خوش حالی کے نئے باب کھلے۔ یورپ میں لیکن پھر ہٹلر آگیا۔ برطانیہ، فرانس اور روس جیسے طاقتور ممالک کو اس نے ہلا کر رکھ دیا۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے برطانیہ اور فرانس اپنی نوآبادیوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے قابل نہ رہے۔ پاکستان ایسے ملک قائم ہوئے اور اپنی قسمت کے خود مختارانہ فیصلے کرنے کی جدوجہد میں جت گئے۔
یورپ کے سرمایہ دارانہ ممالک کی کمزوری سے دو سمندروں کی بدولت باقی دنیا سے کٹے امریکہ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سوویت یونین نے بھی جرمن افواج کو اپنی زمین پر شکست دے کر لیکن ایک نئے انداز کی قوت حاصل کرلی۔ دنیا دو کیمپوں میں بٹ گئی۔ ان دو کیمپوں کے درمیان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے سردجنگ کا آغاز ہوا۔ یہ جنگ کئی حوالوں سے شاید دو عالمی جنگوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئی۔ عالمی سطح پر اس کے باوجود کسی نہ کسی نوعیت کا نظم وتوازن اپنی جگہ برقرار رہا۔ ’’افغان جہاد‘‘ کی بدولت بالآخر یہ سرد جنگ بھی ختم ہوگئی۔ امریکہ دنیا کی واحد سپرطاقت ثابت ہوا۔ اس نے ایک خود غرض اور بے رحم ’’اباّ جی‘‘ کی طرح پوری دُنیا پر اپنے فیصلے مسلط کرنا شروع کر دیئے۔
90ء کی دہائی سے پورا عالمی نظام مکمل طور پر امریکی گرفت میں رہا ہے۔ عراق اور افعانستان نے اس گرفت کو یقینی طورپر کمزور کیا۔ مصر، لیبیا اور شام جیسے ملک اس کمزوری کی وجہ سے افراتفری کا شکار ہوئے۔ داعش منظرعام پر آئی۔ اس تمام تر انتشار وخلفشار کے باوجود دُنیا کے تمام ممالک کی حکومتوں کو مگر یہ احساس بھی رہا کہ صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لئے کئی حوالوں سے انتہائی غیر منصفانہ ہی سہی ایک عالمی نظام اب بھی موجود ہے۔ اقوام متحدہ ہے، نیٹو ہے، ورلڈ بینک اور IMF یہ سب ادارے باہم مل کر امریکہ کی سربراہی میں پوری دنیا میں کسی نہ کسی نوعیت کا توازن واستحکام برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ مگر اس نظام سے قطعاً خوش نہیں۔ وہ تو اپنے ملک کی اشرافیہ اور اداروں سے ناراض ہی اس لئے ہے کہ اس کی نظر میں پوری دنیا کی ’’ماماگیری‘‘ کرتے ہوئے امریکہ نے خود کو کمزور کرلیا۔ سستی لیبر کی ہوس میں امریکی سرمایہ دار کمپنیوں نے چین جیسے ممالک میں سرمایہ کاری کی۔ وہاں روزگار فراہم کئے اور اپنے ملک میں بے روزگاری پیدا کی۔ وہ چاہتا ہے کہ امریکی سرمایہ دار اب صرف اپنے ہی ملک میں سرمایہ کاری کریں۔ اپنی سرحدوں کو غیرملکوں سے آئے مزدوروں اور ہنرمندوں کے لئے بند کر دیں اور بقیہ دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
سطحی نظر سے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس سوچ کا جائزہ لیا جائے تو کئی سادہ لوح لوگوں کو اطمینان ہوتا ہے کہ امریکہ اب ان کی ’’جند چھوڑنے‘‘ کو تیار ہو رہا ہے۔ یہ اطمینان مگر گمراہ کن ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے خوف اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کو اس کے حال پر چھوڑنے کی شدید خواہش کے باوجود وہ اس بات پر بھی بضد ہے کہ امریکہ کو خدائی طاقت والا ایک ملک سمجھ کر اس کی ہر خواہش پر عمل کیا جائے۔ امریکی صدر فون اٹھاکر جو حکم دے اس کی فوری تعمیل ہو۔ یہ تعمیل نہ ہونے کی صورت میں وہ امریکہ کو میسر ہر نوعیت کا اسلحہ اور قوت استعمال کرنے کو تیار ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ کے اس پہلو کو پاکستان نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ہمارے ہمسائے میں افغانستان ہے۔ نائن الیون کے بعد سے امریکہ نے کھربوں ڈالر اس ملک کو اپنے قابو میں لانے پر خرچ کئے ہیں۔ اپنے اہداف مگر وہ حاصل نہیں کر پایا۔ اس ضمن میں اپنی ناکامی کا ذمہ دار وہ پاکستان کو ٹھہراتا ہے جو اس کی نظر میں اب بھی کسی نہ کسی صورت طالبان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ دو روز قبل یکے بعد دیگرے افغانستان کے تین شہروں کابل، لشکرگاہ اور قندھار میں دہشت گردی کے تین بہت خوفناک واقعات ہوئے ہیں۔ ٹرمپ فی الوقت امریکی میڈیا اور سی آئی اے وغیرہ سے اپنی انا کی جنگ میں الجھا ہوا ہے اور ابھی وائٹ ہائوس بھی نہیں پہنچا۔ اس کے وائٹ ہائوس پہنچ جانے کے بعد ایسے واقعات ہوئے تو واشنگٹن کا ردعمل کئی حوالوں سے بہت سنگین بھی ہوسکتا ہے۔
ذاتی طور پر مجھے یہ محسوس ہوئے چلے جارہا ہے کہ اپنے ملک کی ’’خدائی طاقت‘‘ کو دنیا پر ثابت کرنے کے لئے ٹرمپ افغانستان کو ایک بار پھر ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانے کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ اپنی وزارتِ دفاع کے لئے اس نے جس شخص کا انتخاب کیا ہے وہ اوبامہ کے زمانے میں وہاں کی ملٹری انٹیلی جنس کا سربراہ ہوا کرتا تھا۔ جنرل Mattis اس کا نام ہے۔ وہ ساری زندگی مجرد رہا۔ ٹیلی وژن نہیں دیکھتا۔ کتابی کیڑا ہے۔ امریکی فوج میں اسے Mad Mattis کہا جاتا ہے۔
اس جنرل کو صدر اوباما نے وقت سے پہلے ریٹائر ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ امریکی قوانین کسی جنرل کو فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد سات سال گزر جانے سے پہلے کسی سرکاری منصب پر فائز ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ امریکی تاریخ میں اس سے قبل صرف جنرل مارشل کو اس ضمن میں استثناء دیا گیا تھا۔ "Mad Mattis" امریکی وزیر دفاع بن جانے کے بعد یقینی طور پر افغان مسئلے کو اپنی سوچ کے مطابق ’’حل‘‘ کرنے کو بے چین ہوگا تاکہ امریکی عوام اور دنیا کو وہ اور ٹرمپ یہ بتا سکیں کہ صدر اوباما کو امریکی قوت کا ’’صحیح استعمال‘‘ کرنا نہیں آتا تھا۔
افغانستان میں ’’جلوہ‘‘ دکھانے کی یہ تڑپ پاکستان کے لئے بھی بے پناہ مشکلات کھڑی کرسکتی ہے۔ ہمارے میڈیا میں لیکن اس امکان کا جائزہ ہی نہیں لیا جارہا۔ پانامہ کے قصے میں الجھے ہم بلکہ اس اہم ترین امکان کی بابت قطعاً بے خبرنظر آرہے ہیں۔ ویسے بھی CPEC نام کا ایک ’’امرت دھارا‘‘ مارکیٹ میں آچکا ہے۔ ہم یہ باور کئے بیٹھے ہیں کہ اس کے متعارف ہونے کے بعد سے ہمارے لئے خیراں ہی خیراں ہیں۔ میری دُعا ہے کہ ایسا ہی ہو‘ مگر