1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. پاکستان بھارت تنازعات کے حل کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کی سنجیدگی

پاکستان بھارت تنازعات کے حل کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کی سنجیدگی

امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے سے تقریباََ ایک ماہ قبل ڈونلڈٹرمپ نے 30 نومبر2016 کے دن وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ ٹیلی فون پر کافی طویل اور کھلی ڈلی باتیں کی تھیں۔وزیر اعظم ہاﺅس کی جانب سے بظاہر اس گفتگو کا ”پورا متن“ہوبہوجاری کردیا گیا۔خود کو سفارتی امور کے ماہر سمجھنے والے نابغوں کی اکثریت کو یہ فیصلہ پسند نہیں آیا تھا۔ان کا اصرار تھا کہ دو رہنماوں کے درمیان ہوئی گفتگو کی تفصیلات میڈیا کو فراہم کرنا پروٹوکول کے خلاف ہوتا ہے۔ٹرمپ اور اس کے مصاحبین کو ہماری جانب سے ہوئی یہ ”خلاف ورزی“پسند نہیں آئے گی۔

اس گفتگو کا کافی حصہ پبلک میں آجانے کے بعد میں نے رپورٹر کی طرح کھوج لگایا تو دریافت ہوا کہ ہماری جانب سے گفتگو کا جو حصہ منظرِ عام پر لایا گیا تھا اسے میڈیا کو جاری کرنے سے قبل ٹرمپ کی ٹیم کو دکھایا گیا تھا اور اسے یہ متن لوگوں کے سامنے لانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔جومتن ہمارے سامنے لایا گیا تھا اس میں ٹرمپ نے "Out Standing Issues" کو حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔سفارتی امور کی ذرا سی شدھ بدھ رکھنے والوں کو فوراََ پتہ چل گیا کہ ٹرمپ نے درحقیقت پاک بھارت معاملات کو سلجھانے کے لئے ا پنا اثراستعمال کرنے کا وعدہ کیا ہے۔جو بات ہمارے سامنے نہیں لائی گئی وہ یہ حقیقت تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف سے گفتگو کے دوران ٹرمپ نے کشمیر کا باقاعدہ نام لے کر اس بہت پرانے قضیے کو کسی نہ کسی طرح حل کرنے کی خواہش کا ا ظہار کیا تھا۔وزیر اعظم پاکستان کے لئے کام کرنے والے کئی محتاط افسروں نے مگر فیصلہ یہ کیا کہ اس ضمن میں ٹرمپ کے ادا کردہ الفاظ کوہوبہو عیاں کردینا مناسب نہیں ہوگا۔

مذکورہ گفتگو کے دوران ٹرمپ نے نواز شریف اور پاکستانیوں کے لئے اپنے مخصوص انداز میں چند توصیفی الفاظ استعمال کئے تھے۔Fantastic اورTerrific دوالفاظ ہیں جو ٹرمپ لوگوں کا دل جیتنے کے لئے عادتاََ استعمال کرتا ہے۔وہ ان الفاظ کو جس لہجے اور انداز میں ادا کرتا ہے اسے ٹیلی وژن کے لئے کامیڈی شوزپیش کرنے والے مزاحیہ مواد کے طورپر لیتے ہیں۔میں نے بھی ان کی نقالی میں ٹرمپ کا اس ضمن میں مذاق اُڑایا تھا۔اس کی گفتگو کو سنجیدگی سے نہیںلیا۔

”ہندوستان ٹائمز“ میں بدھ کے روز شائع ہونے والی خبر سے مگر اب معلوم یہ ہوا ہے کہ ٹرمپ کی نواز شریف کے ساتھ 30 نومبر2016ء کے روز ہوئی گفتگو نے بھارتی حکام کو پریشان کردیا تھا۔انہیں فکر لاحق ہوگئی کہ صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہے گا۔کسی تیسرے ملک کی جانب سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کشمیر کا کم از کم تذکرہ کئے بغیر ممکن ہی نہیں۔اس ”ثالثی“ کے امکانات کے روکنے کے لئے لہذا بھارت کی وزارتِ خارجہ کے سیکرٹری نے امریکہ کے دور ے کئے۔ نریندرمودی کا چہیتا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزراجیت دیول بھی 30 نومبر2016 کے بعد تین مرتبہ واشنگٹن جاچکا ہے۔تقریباََ دو ہفتے قبل ہوئے آخری دورے کے دوران وہ ا مریکی وزیر دفاع اور مشیر قومی سلامتی کو سمجھاتا یہ رہا کہ بھارت اور امریکہ کو باہم مل کر پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے بجائے افغانستان کو”مستحکم“ بنانا چاہیے۔افغانستان میں ”استحکام“ کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان پر طالبان کے خلاف کارروائی کے لئے دباﺅ ڈالا جائے۔نظربظاہر مودی انتظامیہ کے اس بیانیے کی مناسب پذیرائی نہیں ہوئی۔اجیت کو امید تھی کہ وائٹ ہاﺅس میں جب وہ امریکی مشیر برائے امور قومی سلامتی سے ملاقات کررہا ہوگا تو وہاں صدر ٹرمپ بھی Drop Inکرجائے گا۔اس کی یہ خواہش بھی پوری نہیں ہوئی۔

منگل کے روز نیویارک میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ کی اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ بنائی نکی ہیلی نے پاکستانی صحافی مسعود حیدرکے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کھلے الفاظ میں بیان کردیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ”کوئی بڑا(ناخوشگوار)واقعہ“ ہونے سے قبل ہی امریکہ کو ان دو ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں اس نے امریکی صدر کی جانب سے کوئی کردار ادا کرنے کی امید بھی دلادی۔

بھارتی میڈیا،نکی کا بیان آنے کے بعد بہت چراغ پا ہوا۔بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایک باقاعدہ پریس ریلیز بھی جاری ہوئی۔اس کے ذریعے بھارت نے اپنے اس روایتی Stance کو دہرایا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں وہ کسی تیسرے ملک کی جانب سے ”ثالثی“ کا کردار قبول نہیں کرے گا۔ بھارت کی خواہش اور موقف جو بھی رہا ہویہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ اقتدارسنبھالنے کے تقریباََ تین ماہ بعد ٹرمپ انتظامیہ نے بہت سوچنے کے بعد جنوبی ایشیاءمیں موثر اور متحرک کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔نکی ہیلی کا مسعود حیدر کو جواب درحقیقت اس فیصلے کا باقاعدہ اظہار تھا۔اس فیصلے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے منگل کے دن Liza Curtis کو امریکہ کی قومی سلامتی کمیٹی (NSC) کا رکن بھی بنادیا گیا ہے۔اسے جنوبی ایشیاءکے معاملات پر پالیسی بنانے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

Liza نے اپنے سفارتی کیرئیر کا آغاز پاکستان میں تعیناتی سے 90ء کی دہائی کے آغاز میں کیا تھا۔ان دنوں میری اس سے چند ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔ان ملاقاتوں میں اگرچہ میں اس کی آنکھیں دیکھ کر حیران ہوتارہتا۔منٹو کا لکھا ایک فقرہ یاد آجاتا جس میں ایک کردار کی بابت موصوف نے کہا کہ وہ اپنی آنکھیں ہٹائے تو اس سے کوئی بات ہوسکے۔

چند برس کی سفارت کاری کے دوران Liza Curtis نے مسئلہ کشمیر کو بہت غور سے سمجھنے کی کوشش کی۔مقبوضہ کشمیر کے کئی حریت پسند رہ نماﺅں سے اس کی بہت قربت ہے۔سفارت کاری سے مستعفی ہونے کے بعد Liza تھنک ٹینکس کے لئے کام کرنا شروع ہوگئی۔اس حوالے سے اس نے کئی مضامین لکھے ہیں جنہیں ہرگز ”پاکستان دوست“نہیں کہا جاسکتا۔نظر بظاہر بھارتی اس کی امریکہ کی قومی سلامتی کمیٹی میں تعیناتی کے بارے میں اطمینان محسوس کریں گے۔

مجھے مگر گماں نہیں بلکہ یقین ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اجتماعی طورپر یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ پا کستان اور بھارت کے درمیان معاملا ت کو سدھارنے کے لئے کوئی ٹھوس کردار ادا کرنا ہوگا۔ٹرمپ انتظامیہ کا یہ فیصلہ ہمارے لئے وسیع تر تناظر میں اطمینان کا باعث ہونا چاہیے۔اصل سوال البتہ یہ رہے گا کہ کیا ہماری عسکری اور سیاسی قیادت نے باہم مل کر کوئی ایسی حکمت عملی بھی تیار کی ہے یا نہیں جس کے ذریعے ہم ٹرمپ انتظامیہ میں جنوبی ایشیاءکے بارے میں حاوی سوچ کو اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرسکیں۔