1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. قائداعظم کی جُدا وطن کی سوچ

قائداعظم کی جُدا وطن کی سوچ

23 مارچ کی صبح اُٹھا ہوں تو میری کھڑکی سے نظر آنے والی سڑک سنسان ہے۔ چھٹی کا ماحول ہے مگر فضائوں میں طیاروں کے اُڑنے کی منیر نیازی کی دریافت کردہ ’’رعدایسی صدا‘‘ گونج رہی ہے۔ ہمارا شاعر یہ صدا ’’ہر مکان پر‘‘دیکھنا چاہتا تھا تاکہ ’’لوگوں کو‘‘جو میرے خیال میں منیرنیازی کے ’’دشمن‘‘ ہوا کرتے تھے۔’’ان کے گھر میں‘‘خوف سے دبک جانے پرمجبورکیاجاسکے۔

خوف سے گھروں میں دبک کر بیٹھ جانے والے تصور سے یاد آیا کہ صرف چند ہی سال قبل تک ہماری ریاست نے دہشت گردوں کے خوف سے 23مارچ کے روز اسلام آباد میں اپنی قوت کا سالانہ پریڈ کے ذریعے مظاہرہ روک دیا تھا۔ایک ریٹائرڈ رپورٹر ہوتے بھی میں نے بڑی بے چینی سے یہ معلوم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی کہ 23مارچ کا روایتی مظاہرہ روکنے کا فیصلہ کیوں اور کون سے اعلیٰ سطح اجلاس میں کس دن ہوا تھا۔ اس اجلاس کے شرکاء کون لوگ تھے۔ مذکورہ اجلاس میں اس پریڈ کو روکنے کے لئے کس نے کیا دلائل پیش کئے۔ سب سے اہم سوال یہ بھی تھا کہ آیا اس اجلاس میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے یا نہیں جنہوں نے 23مارچ کی پریڈ کو ہر صورت جاری رکھنے کی حمایت میں دلائل دئیے اور ان کی مزاحمت کن الفاظ میں بیان ہوئی تھی۔

اپنی تمامتر کاوشوں کے باوجود میں ان سوالات کا جواب آج تک حاصل نہیں کرپایا ہوں۔ہماری صحافت کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ ہم باہم مل کر اپنی ریاست کو اس امرپر مجبور نہیں کر پائے کہ وہ فی الفورنہ سہی صحافیوں اور محققین کے لئے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ہوئی مباحث کے ریکارڈ تک رسائی کو بالآخر یقینی بنائے۔ ٹھوس حقائق تک عدم رسائی ہمارے اذہان کو قیاس آرائیوں پر مجبور کرتی ہے۔توجیحات اور توضیحات کاانبار جمع ہوجاتا ہے۔ذہن کھلتے نہیں۔ایک طے شدہ راستے پر چلنے کی سمت دریافت نہیں ہوتی۔

اپنے سوالات کا جواب حاصل نہ کرسکنے کے باوجود میں 23مارچ کی پریڈ کو بحال کرنے کے فیصلے پر بہت خوش ہوا تھا۔اس کا جاری رہنا میرے لئے مزید طمانیت کا باعث ہے۔ "The Show Must Go On" والی ضد، دلوں کو گرمائے رکھتی ہے۔ اس ضد کے بغیر اپنے ملک سے محبت اور اس کے تحفظ کی لگن کے دعویٰ کھوکھلے اور محض بڑھک بازی ہوا کرتے ہیں۔

ٹھوس حقائق تک رسائی کی بات چلی تو مجھے یاد آیا کہ تحریک پاکستان کی بنیاد بننے والی وجوہات ضخیم سرکاری دستاویزات میں پوری طرح موجود ہیں۔ ہمارے لکھنے والوں کی اکثریت انہیں بھی کنگھالنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ اقبال کے قائداعظم کو لکھے خطوط بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ ایک درویش منش محقق-ڈاکٹرزاور زیدی مرحوم-نے اپنی ساری عمر ’’قائداعظم کی دستاویزات‘‘ مدون کرنے میں صرف کی تھی۔ہم میں سے اکثر اس میسر ریکارڈ سے رجوع کرنے کا تردد بھی تونہیں کرتے۔

میں ذات کا محض ایک رپورٹر ہوں۔تحقیق میراشعبہ نہیں۔نہ ہی میرے مزاج میں وہ صبر اور لگن موجود ہے جو ضخیم دستاویزات کے بغور مطالعے کے بعد کچھ نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔ صرف سطحی مطالعے کی عادت کے باوجود مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوا ہے کہ قائداعظم کی قیادت میں برصغیرکے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کی خواہش کا حتمی مقصد پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا تھا جو دنیا کو دکھا سکے کہ مسلمان صنعتی انقلاب کی بدولت ظہور پذیر ہوئے جمہوری نظام پر عمل پیرا ہونے کی صلاحیت سے پوری طرح مالامال ہیں۔ تحریک پاکستان کا جو ’’حتمی مقصد‘‘ میری ناقص فہم نے اپنے تئیں دریافت کررکھا ہے میری دانست میں آج کے دور میں 1940ء کے عشرے سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ہم مگر اس ’’حتمی مقصد‘‘ پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔

’’خلافت عثمانیہ‘‘ جب بہت سی وجوہات کی بناء پر اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی توبرصغیر کے مسلمانوں کا ایک بہت ہی متحرک حصہ اس کے تحفظ پر مامور ہوگیا تھا۔قائدِاعظم اس تحریک سے قطعاً لاتعلق رہے۔ انہیں حیرت اس بات پر بھی رہی کہ ایک ’’مہاتما‘‘ کو ’’اسلامی خلافت‘‘ کے تحفظ کی فکر کیوں لاحق ہوگئی تھی۔ اسی فکر کی وجہ سے انہوں نے اس سیاسی ’’مہاتما‘‘کو "Snake in the Grass" کہا۔ اس بات پر ہمیشہ پریشان رہے کہ و ہ مذہبی جذبات کو اپنی سیاست چمکانے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ان کی نگاہ دوربین نے دریافت کرلیا تھا کہ ’’عثمانی خلافت‘‘اپنی سرشت میں محض ’’ملوکیت‘‘ ہے اور مسلمانوں کی نوجوان نسل اپنے فیصلے خود کرنے کو بے چین ہورہی ہے۔

اس نسل کی ذہنی توانائی کو اپنی ذہنی صلاحیتیں پوری طرح استعمال کرنے کا میدان فراہم کرنے کے لئے ہی انہیں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک جدا وطن درکار تھا۔گاندھی اور نہرو اس نسل کو ’’جمہوری نظام میں برابری‘‘ وغیرہ کے خواب دکھاتے رہے۔ قائداعظم کو مگر کامل یقین تھا کہ جمہوریت اپنا انحصار بسا اوقات صرف ’’ووٹ بینک‘‘ پر کرنے کو بھی مجبور ہو جاتی ہے۔ ووٹ بینک ’’اکثریت کی آمریت‘‘ کے راستے بھی بناتا ہے۔آج کے دور میں اسے Majoritarianism کہا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے اسی کا سہارا لے کر امریکہ کی سفید فام اکثریت کو متعصبانہ نعروں کے ساتھ اپنے ساتھ ملایا ہے۔

23 مارچ 2017ء کی صبح مگر مجھے حال ہی میں بھارت کے یوپی میں اختتام پذیر ہوئے صوبائی اسمبلی کے انتخابات یاد رکھنے کو مجبور کررہی ہے۔ 403 اراکین پر مشتمل اس اسمبلی کے انتخابات کے لئے اپنے امیدوار جیتتے وقت مود ی نے 22 کروڑ آبادی والے اس صوبے میں کسی ایک مسلمان کو بھی اپنی جماعت کا ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ جبکہ مسلمانوں کی آبادی اس صوبے میں کم از کم 20 فی صد ہے۔ وہاں کی تقریباً 100 نشستوں پر مسلمانوں کا کسی نہ کسی صورت دل جیتے بغیر کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ’’قبرستان اور شمسان‘‘ کے مابین ’’برابری‘‘ کا نعرہ لگاتا نریندرمودی مگر اس صوبے کی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اپنی کامیابی کے بعد اس نے ایک درندہ صفت یوگی کو وہاں کا وزیر اعلیٰ بھی بنادیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یوپی میں انتخابی عمل کے نتائج کے بعد وہاں بسے مسلمانوں کی نوجوان نسل جمہوری نظام کے بارے میں اب کئی سوالات اٹھائے گی۔ ان سوالات کے جواب ڈھونڈتے ہوئے ان کی اکثریت تشدد اور انتہا پسندی کی طرف بھی مائل ہو سکتی ہے۔

قائداعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک جدا وطن کے قیام کی راہ بنا کر اپنے دورکے نوجوانوں کو انتہاء پسندی کی راہ اختیار کرنے ہی سے روکا تھا۔ میری نظر میں یہی وہ اہم ترین پہلو جسے آج کے دور میں دنیا کے سامنے لانا انتہائی ضروری ہے۔