1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. سماج سدھار خواتین و حضرات

سماج سدھار خواتین و حضرات

منیرنیازی کی مرتے دم تک خواہش یہ رہی کہ انہیں کچھ وقت مل سکے تاکہ وہ گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے زمانے کے بارے میں کچھ سوچ سکیں۔ کم بخت زمانے نے مگر انہیں وہ وقت نہیں دیا۔

اپنے عہد کے بارے میں سوچنے کی مہلت طلب کرنا صرف منیر نیازی کا مسئلہ ہی نہیں رہا۔ ہم میں سے وہ سب لوگ بھی جو سوچ بچار کی طرف مائل ہوتے ہیں اپنے عہد کے بارے میں سوچنے کی فرصت کے طلب گار رہتے ہیں۔ غمِ روزگار مگر دُنیا کی ہر شے سے زیادہ دلفریب ثابت ہوتا ہے۔ر وزمرہّ زندگی کے ان گنت مسائل جن سے نبردآزما ہونے ہی میں زندگی خرچ ہوجاتی ہے۔

ہمارا عہد ویسے بھی بہت تیز رفتار ہے۔ اگرچہ ’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘ والا معاملہ بھی ہے۔ اندھا دھند ہوتے واقعات کے ہجوم میں بظاہر میڈیا نے اپنے سریہ ذمہ داری اُٹھارکھی ہے وہ چند معاملات کو جو اس کے خیال میں ہمارے لئے اہم ہونا چاہیے منتخب کرکے ’’بریکنگ نیوز‘‘ کی صورت پیش کرتا رہتا ہے۔ ’’خبر‘‘ دینے کے بعد کرنٹ افیئرز کا خلاصہ اور تجزیہ پیش کرنے والے خواتین وحضرات ہمیں ان ’’خبروں‘‘ کا پسِ منظر وغیرہ سمجھانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا والے سوالات کے جوابات بھی ہمیں ان ہی کے ذریعے ملا کرتے ہیں۔

گزشتہ چند روزسے میں نے بہت اشتیاق سے یہ سمجھنا چاہا کہ ہمارے میڈیا کی نظر میں وہ کونسے معاملات ہیں جن کے بارے میں باخبر ہونا اور کوئی رائے بنانا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔بہت غور کے بعد دریافت یہ ہوا کہ ہمارے میڈیا کو گزشتہ چند دنوں سے بنیادی فکر یہ لاحق ہوگئی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی زبان بہت ناشائستہ ہوچکی ہے۔وہ ٹھوس مسائل پرمنطقی دلائل کے ذریعے مباحث کی بجائے مخالفین کی مائوں بہنوں کے بارے میں دشنام طرازی کرتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے جاوید لطیف نے بظاہر ایسی ہی انہونی کا ارتکاب کیا ہے۔اگرچہ مراد سعید نے پارلیمان کی راہداری میں انہیں گھونسہ مارکر حساب برابر کردیا تھا لیکن ہماری تسلی نہیں ہوپارہی۔ میاں محمد نواز شریف کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ جاوید لطیف کو اسمبلی سے استعفیٰ دے کر گھر بیٹھنے پر مجبور کردیں۔ جاوید لطیف رسوا ہوکر گھر چلے گئے تو ہمارے معاشرے میں عورتوں کا احترام شروع ہوجائے گا۔ سیاست دان شائستگی کا رویہ اختیار کرلیں گے۔

عورت کے احترام کو یقینی بنانے کے غم میں گھلے ٹی وی سکرینوں پر براجمان سماج سدھارخواتین حضرات کو مگر یاد نہیں رہا کہ عفت رضوی نام کی ایک صحافی خاتون بھی ہیں۔ میں انہیں ذاتی طورپر ہرگز نہیں جانتا۔ سنا ہے سپریم کورٹ کی کارروائی کو رپورٹ کرتی ہیں۔سپریم کورٹ کے بارے میں خبریں دینے والے رپورٹروں نے اپنی ایک تنظیم بھی بنارکھی ہے۔چند روز قبل اس تنظیم نے عمران خان صاحب سے بنی گالہ میں تفصیلی گفتگو کا وقت مانگا تھا۔ نظر بظاہر اس ملاقات میں ہوئی گفتگو’’’آف دی ریکارڈ‘‘ تھی۔اس خاتون نے مگر اپنے سمارٹ فون کے ذریعے عمران خان صاحب کی جانب سے ادا کردہ ’’پھٹیچر‘‘ اور ’’ریلوکٹے‘‘والے الفاظ ریکارڈ کرلئے۔ بعدازاں ان کلمات کو محترمہ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے رکھ دیا۔دہائی مچ گئی۔

عمران خان صاحب کی ان الفاظ کی وجہ سے مذمت شروع ہوئی تو وہ ہرگز معذرت خواہ نظر نہ آئے۔ انہوں نے ایمانداری کے ساتھ اپنے ادا کردہ الفاظ کے استعمال کا دفاع کیا۔سپریم کورٹ کے رپورٹروں کی تنظیم نے اس کے باوجود اپنی ساتھی خاتون کی ایک باقاعدہ پریس ریلیز کے ذریعے مذمت کرنا ضروری سمجھا۔ ہم صحافیوں کا گروہ جب کسی شخصیت سے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو کے لئے ملاقات کرے تو اس ملاقات میں ہوئی گفتگو کو منظرِ عام پر لانا غیر معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے رپورٹروں نے اسی اصول کا اطلاق کیا۔ اپنی ہی برادری کی جانب سے ہوئی مذمت مجھ ایسے صحافیوں کے لئے کسی زمانے میں ایک کڑی سزا سمجھی جاتی تھی۔زمانہ مگر اب بدل چکا ہے۔مذمت کافی نہیں سمجھی جاتی۔ہم غلطیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنانے پر بضد ہوچکے ہیں۔

عمران خان کے ادا کردہ الفاظ کو برسرِ عام لانے والی خاتون رپورٹر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ سوشل میڈیا پر اس کی بہت بھداڑائی گئی۔اس بھد سے بھی کچھ لوگوں کی مگر تسلی نہ ہوئی۔ فیس بک پر بالآخر ایک تصویر پھیلادی گئی۔اس کے ذریعے پیغام یہ دیا گیا کہ مذکورہ خاتون نے ایک غیر مسلم امریکی سے شادی کررکھی ہے اور اس کے شوہر کا تعلق مبینہ طورپر بدبختوں کے اس گروہ سے ہے جو ’’بھینسا‘‘جیسے ناموں سے ہمارے مذہبی شعائر اور مقدس ہستیوں کو انٹرنیٹ پر تضحیک کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔

مذکورہ خاتون جس کی شادی درحقیقت ایک پاکستانی مسلمان سے ہوئی ہے اپنی جان بچانے کے خوف میں مبتلا ہو گئی۔ گزشتہ جمعرات کا پورا دن اس نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدرشکیل انجم کے دفتر میں روتے ہوئے صرف کیا۔ شکیل نے گھبرا کر اس کی مدد کے لئے صحافیوں کی یونین سے رابطہ کیا۔ افضل بٹ اس تنظیم کے اہم رہ نما ہیں۔بالآخر شکیل انجم اور افضل بٹ کی کاوشوں سے مذکورہ خاتون اپنے خاوند سمیت بنی گالہ میں عمران خان صاحب کے روبرو حاضر ہوگئی۔ عمران خان صاحب نے مسکراتے ہوئے دریادلی کے ساتھ اسے معاف کردیا۔ اس کے ساتھ ایک تصویر بھی کچھوائی۔ وہ تصویر سوشل میڈیا پر آئی تو مذکورہ خاتون کے خلاف سنگین الزامات کا طوفان بھی رک گیا۔ مجھے یہ پیغام مل گیا کہ عمران خان صاحب کی ذات اور سیاست پر تنقیدی کلمات لکھنے یا بولنے سے پہلے اس حقیقت کو مدنظر رکھوں کہ موصوف کی ’’توہین‘‘ دینی شعائر اور مقدس ہستیوں کا مذاق اڑانے والے گروہ کا رکن بنادے گی۔

عورتوں کے احترام کو یقینی بنانے کے غم میں مبتلا میرے سماج سدھار ساتھیوں نے مگر اس پہلو کو کمال فیاضی سے نظرانداز کرتے ہوئے اپنی پوری توجہ جاوید لطیف کا سماجی بائیکاٹ کرنے پر مبذول رکھی ہوئی ہے۔

مذکورہ خاتون کے واقعے سے قطع نظر کا ایک مخصوص گروہ ہمارے کچھ صحافی دوستوں کو اسلام اور نظریہ پاکستان کی مخالف صفوں میں دھکیلنے پر بضد ہے۔ ہماری حکومت اور ’’ردالفساد‘‘ میں مصروف قوتیں ان صحافیوں پر لگے الزامات کی سنگینی اور عواقب کے بارے میں قطعاََ لاتعلق نظر آرہے ہیں۔ اپنی جان کے تحفظ کی خاطر اب فیس بک پر ایک ٹرینڈ چلایا گیا ہے۔ اس کے ذریعے ہم سب فیس بک کو یہ ’’اطلاع‘‘ دینے میں مصروف نظر آرہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اپنے دینی شعائر اور مقدس ہستیوں کی توہین برداشت نہیں کرسکتے۔

میں نے اپنے ربّ کے جلال و رحم و کرم کی حقیقت اپنی اَن پڑھ ماں کے ذریعے اپنے دل ودماغ میں بٹھائی ہے۔ میرا نبیؐ رحمت العالمین ہے۔بچپن سے ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ہمیشہ میرے دل ودماغ میں گونجتا رہتا ہے۔مجھے اپنے ربّ کا وجود اور اس کی حقانیت کسی پر ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ نبی پاکؐ کا ذکر آئے تو ’’بامحمدؐ ہوشیار‘‘ یاد آکر دل کو دہلا اور گرما دیتا ہے۔ مجھے فیس بک کو اپنے جذبات بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ بلھے شاہ کی ہدایت کے مطابق ’’آئی صورتوں‘‘ ہر صورت سچا رہنے کی تڑپ البتہ ہر وقت ذہن پر سوار رہتی ہے اور میں اس تڑپ پر شرمندہ نہیں فخر محسوس کرتا ہوں۔