1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. شک شبے دا ویلا

شک شبے دا ویلا

انسانی تاریخ کے ہر دورِابتلاءمیں ٹھوس حقائق سے کہیں زیادہ بے بنیاد افواہوں نے خلقِ خدا کو پریشان کیا ہے۔ بلھے شاہ نے اپنے دور پر مسلط وحشت کو ”“ قرار دیا تھا یعنی وہ دور جب لوگ ایک دوسرے پر اعتبار کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہردوسرا شخص ان کی جان ومال کے درپے ہے۔

وطنِ عزیز بھی گزشتہ کئی برسوں سے ایسے ہی ایک دور سے گزررہا ہے۔ہمارے دینِ مبین کی چند مبادیات کو درندوں کا ایک ایسا گروہ تیارکرنے کے لئے استعمال کیا گیا جو زندگی سے نفرت کرتا ہے۔ہجوم میں گھس کر خود کو تباہ کن بارود کے ذریعے اُڑانے والے نوجوان پیدا کرتا ہے۔ ہم اور ہماری ریاست اس گروہ کے سامنے بے بس ہوئے نظر آرہے ہیں۔

آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے ہم نے اس گروہ کی کمر توڑ دینے کے دعوے کئے تھے۔ فروری 2017ءکے آغاز کے ساتھ ہی مگر پہلے لاہور اور بعدازاں سیہون شریف میں دہشت گردی کے دل دہلا دینے والے واقعات ہوئے۔ مزید واقعات کے تدارک کے لئے آپریشن ردلفساد کا آغاز ہوگیا ہے۔کوئی پتھر دل بدنصیب ہی اسے ناکام ہوتا دیکھنا چاہے گا۔

اس آپریشن کو موثر اور کامیاب بنانے کے لئے مگر یہ کیوں فرض کرلیا گیا ہے کہ ہر دہشت گرد افغانستان سے پاکستان آتا ہے۔ پشتو بولتا ہے۔ پشتو چونکہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف بولی جاتی ہے لہذا اٹک پار کرنے کے بعد راولپنڈی،لاہور اور فیصل آباد پہنچے ہر پشتو بولنے والے پر کڑی نگاہ رکھی جائے تو دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

یورپ اور خاص کر فرانس کے لوگ بھی تو کئی برسوں سے یہی سوچ رہے ہیں کہ وہ تہذیب وتمدن کا مرکز اور امن کا گہوارہ رہے ہیں۔عرب اور افریقی ممالک سے تارکینِ وطن وہاں آباد ہونا شروع ہوئے تو ”اسلام کو بزورِ شمشیر پھیلانے“ کی لگن میں مبتلا ہوگئے۔ وہاں موجود مسلمان پر لہذا کڑی نگاہ رکھی جائے۔

ترکی کے ”سلطان اردوان“ نے خود کوخلافتِ عثمانیہ کے احیاءپر مامور دیدہ ور تصور کیا۔ شام کو اپنی ”کھوئی ہوئی میراث“سمجھا۔اسے کمزور بنانے کے لئے بشارلاسد کی جابر حکومت کے خلاف مسلح گروہوں کی سرپرستی کی۔ شام مگر قابو میں نہ آسکا۔ وہاں وحشت پھیلانے کو تیار کئے گروہ البتہ اب ترکی میں قیامت برپا کئے ہوئے ہیں۔

اتاترک نے رنگ ونسل سے بالا صرف ایک اور وہ بھی ”ترک قوم“ بنانے کا جنون اپنے سرپر سوار کیا تھا۔کرد اور ترکی میں مقیم علوی اس کے بنائے ہوئے سانچے میں سما نہ پائے۔ اناطولیہ کے جنوب مشرقی علاقوں میں لہذا کئی برسوں سے فوجی آپریشن ہورہے ہیں۔ طیاروں سے بم برسائے جاتے ہیں۔ترکی کو امن وقرار مگر نصیب نہیں ہورہا۔

نائن الیون نے ا مریکہ کو دہشت زدہ کردیا تھا۔ صدر بش نے لوگوں کے دلوں میں اس کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف اُبلتے غصے کو عراق اور افغانستان پر وحشیانہ جنگیں مسلط کرنے کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی۔ عراق اور افغانستان کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے۔ امن وسکون وہاں کے باسیوں کو مگر آج بھی نصیب نہیں ہوا۔ ان جنگوں پر قومی وسائل کا جوزیاں ہوااس کی وجہ سے امریکہ میں بھی بیروزگاری پھیلی۔تعلیم وصحت کی سہوتیں مفقودہونا شروع ہوگئیں۔ صدر اوبامہ نے اپنے 8سالوں میں ان جنگوں سے الگ ہونے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ہاتھوں سے لگائی گرہیں مگر بالآخر دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں اور دانتوں کا استعمال بہت تکلیف دیتا ہے۔ اس تکلیف کورفع کرنے کی کوئی پالیسی متعارف کروانے کی بجائے ٹرمپ جیسے مسخرے نے مسلمانوں اور دیگر تارکینِ وطن کو اس کا اصل باعث قرار دیا۔ سفید فام امریکیوں کے دلوں میں کئی دہائیوں سے پلتی نفرت کے اظہار کا وسیلہ بن گیا۔ ٹرمپ کے امریکہ میں اب ہرمسلمان اورہسپانوی زبان بولنے والا بدطینت اور ممکنہ دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔ٹرمپ امریکہ کو ان سے پاک کرنا چاہتا ہے۔ اپنا مقصد مگر وہ ہرگز حاصل نہیں کر پائے گا۔اس کے دور میں امریکہ بلکہ ہر روز مزید نفاق اور تفریق کی طرف بڑھ رہا ہے۔جس کا انجام ایک خوفناک خانہ جنگی کی صورت بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

پاکستان میں بھی دہشت گردی کی اصل وجہ افغانستان اور پشتوبولنے والے نہیں ہیں۔جڑیں اس وحشت کی جو آج ہمارے گھروں تک آپہنچی ہے اس ”جہاد“ تک جاتی ہیں جو جنرل ضیاءکے دور میں امریکہ اور اس دنیا کے خود کو مہذب اور ترقی یافتہ کہلاتے تمام ملک کی معاونت سے افغانستان پر مسلط کیا گیا تھا۔

حکمران ا شرافیہ،خواہ اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی ملک سے ہو لیکن اپنے ماضی کے رویوں پر سوالات اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ ”اچانک“ نظر آنے والے واقعات کے بارے میں بہت بنیادی اور سادہ توجہیات پیش کرنے کی عادی ہوتی ہے۔وحشت سے گھبرائے ہوئے عام شہری اس کی سوچ کو بلاچوںوچرا تسلیم کرلیتے ہیں۔ہمارے ذہنوں اور دلوں میں کئی نسلوں کی بدولت ورثے میںآئے تعصبات اس کا کام مزید آسان کردیتے ہیں۔

پنجاب کی انتظامیہ،پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے آپریشن رد الفساد کی کامیابی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں تو خدارا اس حقیقت کا ادراک بھی کرلیں کہ انٹرنیٹ اور سمارٹ فون جیسی ایجادات اب روزمرہّ زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ ان دو ایجادات نے یقینا لوگوں کو ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کا معجزہ نما سہولتیں اور امکانات فراہم کئے ہیں۔خلقِ خدا کی سہولت کے لئے ایجاد ہوئی ہر سہولت کی طرح ان دو کا لیکن ناجائز استعمال بھی ہوتا ہے۔ Fake News ایسے ہی استعمال کا شاخسانہ ہے۔اپنے گھر بیٹھے لوگوں کو ”خبر“ بہت سرعت کے ساتھ دستیاب ہونا لازمی ہوگیا ہے۔ چند بدطینت افراد لوگوں میں موجود اس طلب کا فائدہ اٹھاکر ”خبریں“ گھڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔یہ ”خبریں“ قطعاََ بے بنیاد ہوتی ہیں۔انہیں مگر پہلی نظر میں ”مستند“دکھنے والی ”تصویروں اور دستاویزات“ کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ یہ ”تصویریں اور دستاویزات“ ہماری عقل ہی نہیں خوف کی ماری جبلت کو بھی فوراََ قائل کردیتی ہیں۔

تقریباََ ایک ہفتہ قبل سوشل میڈیا پر ایک ”دستاویز“ کا بہت چرچا رہا۔اس دستاویز کے ذریعے منڈی بہاﺅالدین کی ضلعی انتظامیہ مقامی افراد کو ”افغانوں“ سے ہوشیارررہنے کا مشورہ دیتی نظر آئی۔ پنجاب کی ہر وقت مستعد ہونے کی دعوے دار قیادت اس دستاویز کو مناسب وقت پر جھٹلانہ پائی۔ اس کے بعد سے افواہیں پھیلنا شروع ہوگئیں کہ لاہور کی ”پٹھان بستیوں“میں پولیس رات گئے گھروں میں درآتی ہے۔اس بستی میں موجود نوجوان مردوں کو ٹرکوں میں بھرکر تھانوں میں لے جایا جاتا ہے۔شناختی دستاویزات کا تقاضہ ہوتا ہے۔

حقیقت خواہ کچھ بھی رہی ہو اٹک کے اس پار پیغام یہ گیا ہے کہ روٹی روزگار کی خاطر لاہور میں مقیم ہوئے پشتون ان دنوں ویسے ہی تعصب کا نشانہ بن رہے ہیں جو فرانس یا امریکہ میں مقیم مسلمانوں اور دیگر تارکینِ وطن کا مقدر بنا ہوا ہے۔پشتون قوم پرست قیادت کے علاوہ عمران خان نے بھی پناب حکومت کی اس ضمن میں شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ہفتے کا سارا دن مختلف طریقوں سے شہباز شریف اپنی انتظامیہ کا دفاع کرنے میں مصروف رہے۔ اس تاثر کی نفی کرتے رہے کہ ان کی ”گڈگورننس“ پشتو بولنے والوں کوRacial Profiling کا نشانہ بنارہی ہے۔انگریزی محاورے والا Damage ہوچکا ہے۔اس کی موثر تلافی کئے بغیر آپریشن ردالفساد اپنے اہداف حاصل نہیں کر پائے گا۔ میرے منہ میں خاک،شاید چند روز بعد ہماری ریاست کو بلکہ ایک اور آپریشن کسی اور نام سے شروع کرنے کی ضرورت محسوس ہوسکتی ہے۔