1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. سچ ہر صورت بیان کرنے کی لگن

سچ ہر صورت بیان کرنے کی لگن

امریکہ کو خواہ کتنا ہی برا کہیں مگر یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ ڈونلڈٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد نفرت اور تعصب پر مبنی پالیسیوں کی شدید ترین مزاحمت بھی وہاں کے سوچنے سمجھنے والے افراد کی جانب سے بہت توانا انداز میں ہمارے سامنے آرہی ہے۔

ٹرمپ کی حیران کن انتخابی کامیابی کے بعد وہاں کے مین اسٹریم میڈیا کی اکثریت نے انتہائی خلوص سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ صدارتی مقابلے کے لئے چلائی مہم کا درست انداز میں تجزیہ کیوں نہ کرپائے۔اپنی غلطیوں کے دیانت دارانہ انداز میں اعتراف اور نشان دہی کے بعد لوگوں کے دلوں میں موجود تعصبات کی ٹھوس وجوہات تلاش کرنے کی کوششیں جارہی ہیں۔بہت خلوص سے یہ معلوم کرنے کی لگن بھی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ ٹرمپ جیسے کھوکھلے ذہن کے مسخرہ نما افراد،رائے دہندگان کی اکثریت کو سازشی اور سراسر جھوٹی داستانوں کے ذریعے کیوں اور کیسے گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

ٹرمپ کے خلاف مزاحمت کا سب سے بڑا محاذ ان اینکر حضرات نے کھول رکھا ہے جو بظاہر ”مزاحیہ شو“ کرتے ہیں۔سیاست دانوں کی ہلکے پھلکے انداز میں بھد اُڑانے کے عادی ان لوگوں نے اب پیروڈی کے ہنر کو ایک نئی صورت عطا کردی ہے۔ان کے تخلیقی جوہر کو امریکی عوام نے بھی بے پناہ انداز میں سراہا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے متعصبانہ جہالت کوٹی وی سکرینوں پر خوب صورت اور بااثر بنانے کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے Fox ٹیلی وژن Ratings کا بادشاہ مانا جارہا تھا۔اس کے ہم عصر Ratings کی دوڑ میں اس سے کہیں پیچھے رہے۔کئی مشہور نیٹ ورک Fox سے گھبراکر نیوزاینڈکرنٹ افیئرز کے پروگراموں پر سرمایہ کاری کے بجائے ایسی فلمیں اور ڈرامے وغیرہ بنانے کی جانب راغب ہونا شروع ہوگئے جو لوگوں تک پہنچنے کے لئے کیبل ٹی وی پر انحصار نہیں کرتے۔کوشش یہ ہوئی کہ ایسی فلمیں اور ڈرامے انٹرنیٹ اور سمارٹ فونوں کے ذریعے مارکیٹ ہوں۔ لوگ مگر انٹرنیٹ کے ذریعے خبریں وغیرہ مفت دیکھنے کے عادی ہیں۔تخلیق کاروں کے لئے بنیادی مسئلہ ایسے ذرائع بھی تلاش کرنا ہوگیا جن کی بدولت ناظرین”اپنی پسند“ کی چیز دیکھنے کے لئے کچھ رقم خرچ کرنے کو آمادہ ہوجائیں۔

ٹرمپ کے خلاف مزاحمت نے لیکن مین اسٹریم ٹیلی وژن کو ایک نئی زندگی بخش دی ہے۔SNL نام کا ایک پروگرام جو ٹرمپ اور اس کی ٹیم کا بے دریغ انداز میں مذاق اڑاتا ہے،اس وقت Ratings کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ Stephen Colbert کا شو بھی ہفتے کے پہلے پانچ دن ریکارڈ توڑنے والی تعداد تک پہنچ رہاہے۔ٹرمپ اور اس کے مصاحب ان پروگراموں کی مقبولیت سے حواس باختہ ہوگئے ہیں۔انہیں ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ اپنی پالیسیوں کو جائز اور ضروری ثابت کرنے کے لئے وہ کیسی زبان،لہجہ اور طریقہ اختیار کریں۔

ٹرمپ کے خلاف برپا جارحانہ مزاحمت کی وجہ سے ہی ہالینڈ کے عوام نے حالیہ انتخابات میں تاریخ ساز انداز میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔80فی صد سے زائد ٹرن آﺅٹ نے ”ڈچ ٹرمپ“کا راستہ روکا جو اس ملک کا وزیر اعظم بننے کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔

Geert Wilders نام کا یہ شخص گزشتہ کئی برسوں سے ٹرمپ کی طرح ٹویٹر پیغامات کی بھرمار کے ذریعے ہالینڈ کی سفید فام اکثریت کو یہ بتانے کی کوشش کررہا تھا کہ مسلمان جو اس ملک کی آبادی کا صرف 6فیصد ہیں آنے والے چند سالوں میں اکثریت میں تبدیل ہوجائیں گے۔اس امکان کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے ہالینڈ میں داخلے پر مکمل پابندی عائد کردی جائے۔وہاں موجود مسجدوں پر تالے لگیں اور قرآن پاک کی اشاعت کو قابلِ تعزیر جرم بنادیا جائے۔ٹرمپ کے صدر منتخب ہوجانے کے بعد امریکی اخبارات اور ٹی وی کی جانب سے اس ملک میں پھلی ”افراتفری“ کے تاثرنے ہالینڈ کے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ان کی بے پناہ اکثریت Wilders جیسے بدبخت نسل پرستوں کا راستہ روکنے کے لئے متحد ومتحرک ہوگئی۔

ٹرمپ کے خلاف امریکی میڈیا میں نظرآتی جارحانہ مزاحمت کا تذکرہ کرتے ہوئے حیرت درحقیقت مجھے اپنے ہمسایے میں موجود ”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت“ کے میڈیاپر حاوی رویے کے بارے میں ہورہی۔ مودی کے سحر میں مبتلا وہاں کے کارپوریٹ میڈیا نے اس حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ یوپی کے نتخابات لڑنے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے کسی ایک مسلمان امیدوار کو بھی اپنا ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ وہاں کی صوبائی اسمبلی میں 403 نشستیں ہیں۔ان میں سے کم از کم 100 نشستیں ایسی ہیں جہاں نام نہاد مسلم ووٹ بینک کو اپنے ساتھ ملائے بغیر جیتنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔مودی کی جماعت نے ان نشستوں پر بھی جان بوجھ کر معروف ترین ہندوانتہاءپسندوں کو اپنے ٹکٹ دئیے اور بالآخر دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔

کسی بھی مسلمان کو اپنا امیدوار نہ بنانے والی تلخ حقیقت کو مگر بھارتی میڈیا نے کوئی وقعت ہی نہ دی۔اپنا سارا ”علم“ ہمیں یہ سمجھانے میں صرف کردیا کہ مودی ”تبدیلی“کے نعرے کے ساتھ نچلی ذاتوں اور مسلم ووٹ بینک کی بدولت بنی”کرپٹ“ حکومتوں کی روایت کو چیلنج کررہا ہے۔اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ مذہب اور ذات پر مبنی تقسیم سے بالاتر ہوکر رائے دہندگان صرف ”گڈگورننس“ اور ”ترقی“ کے سوالات پر غور کریں۔مودی کے سحر میں مبتلا ہوکر مذکورہ ترجیحات گھڑنے والوں نے اس بات پر بھی غور نہیں کیا کہ یوپی کی انتخابی مہم کے دوران بھارتی وزیر اعظم نے ہندوروایات کے مطابق ”مقدس“مانے شہر- بنارس- میں پورے تین دن صرف کئے تھے۔بنارس میں اپنے قیام کے دوران ہوئے جلسوں سے خطاب کرتے وقت اس نے بھرپور انداز میں ”قبرستان اور شمسان“کے درمیان فرق کو اجاگر کیا۔”وکاس“ کی بات ضرور ہوتی رہی مگر لوگوں کے دلوں میں گرمی صرف ”قبرستان اور شمسان“ والے پیغام نے پہنچائی۔ انتخابی نتائج آجانے کے بعد مودی نے ادتیا ناتھ جیسے درندہ صفت”یوگی“ کو یوپی کا وزیر اعلیٰ نامزد کردیا ہے۔بھارت کا مین اسٹریم میڈیا مگر اب بھی یہ ”چورن“ بیچنے میں مصروف ہے کہ ان کے وزیر اعظم نے ایک ایسے ”یوگی“ کو اقتدار دیا ہے جو دنیاوی خواہشات سے بیگانہ ہے۔اسے کرپشن کی طرف مائل کیا ہی نہیں جاسکتا۔ ”گڈگورننس“ اور ”ترقی“اس ”یوگی“کی بنیادی ترجیح رہیں گے اور ”گڈگورننس“ کے اثرات بالآخر معاشرے کے تمام طبقات تک یکساں انداز میں پہنچتے ہیں۔

بنیادی مگر تلخ حقائق کی نشان دہی کرنے کے بعد ان کا مقابلہ کرنا یقینا ایک مشکل کام ہے۔صحافیوں کے لئے روزگار کا مسئلہ بھی اپنی جگہ اہم ہے۔بظاہر ”مزاحیہ“ شوکرنے والے امریکی اینکروںنے یکجاویکسو ہوکر مگر ثابت کیا ہے کہ اکثریتی آبادی کے تعصبات کو بے دریغ انداز میں للکارنے کے باوجود بھی نہ صرف زندہ رہا جاسکتا ہے بلکہ اپنے دھندے کوبھی چمکایاجاسکتا ہے۔بنیادی بات خلوص کی ہے۔سچ تلاش کرنے اور اسے ہر صورت بیان کرنے کی لگن۔ بڑے دُکھ کے ساتھ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ بھارتی صحافیوں کی اکثریت مودی کے سحر میں مبتلا ہونے کے بعد اس لگن سے قطعاََ محروم ہوچکی ہے۔