1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. ٹرمپ اتنے بھی ”بھولے“ نہیں

ٹرمپ اتنے بھی ”بھولے“ نہیں

ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس پہنچنے سے کئی ہفتے قبل ہی میں اس کالم کے ذریعے تواتر کے ساتھ اس شبے کا اظہار کرنا شروع ہوگیا تھا کہ وہ پنجابی محاورے والی”بھولی“ ہے جو ”بھولی“ تو ہوتی ہے مگر”اتنی بھی نہیں“۔

اقتدار سنبھالنے کے صرف 77 دن بعد اب اس نے شام کے ایک چھوٹے،گمنام اور جنگی حوالوں سے تقریباََ غیر اہم ہوائی اڈے پر کروز میزائلوں کی بارش برسادی ہے۔اپنے کامیڈین کے ذریعے نئے امریکی صدر کی مسلسل بھداُڑانے والے امریکی ٹی وی چینلوں نے میزائلوں کی اس بارش کو بڑے مان سے اپنی سکرینوں پر دکھایا۔یہ اعتراف کرلیا کہ اپنی حماقتوں اور فقروں سے سب کو پریشان کردینے والا ٹرمپ بالآخر "Presidential" ہوگیا ہے۔انہیں اعتبارآگیا ہے کہ اوبامہ کے 8سال گزرنے کے بعد ان کے ملک کو ایسا صدر مل ہی گیا ہے جو امریکہ کو دُنیا کی واحد سپرطاقت بنائے رکھے گا۔ایک ایسی طاقت جو دُنیا کے کسی بھی حصے میں اپنی چوہدراہٹ جدید اور مہلک ترین ہتھیاروں کی مدد سے چٹکی بجاتے ہی ثابت کرسکتی ہے۔

شام کے حوالے سے اپنی چوہدراہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرمپ نے سعودی عرب،اسرائیل اور ترکی کو بھی یکساں طورپرخوش کردیا ہے۔بلے بلے ہوگئی ہے۔ یہ سب مگر دھوکہ ہے۔شعبدہ بازی ہے جس کے کھوکھلے پن کو جانچنے کا ریگولر اور سوشل میڈیا کی رنگینیوں،پھرتیوں اور شوروغوغا کی بدولت ہم میں سے کسی کے پاس وقت اور فرصت ہی میسر نہیں۔

ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخاب کو حیران کن انداز میں جیت کر وہاں کے جغادری صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو شرمندہ کردیا تھا۔اپنی خفت مٹانے کے لئے ان لوگوں نے دل وجان سے امریکی جاسوسی اداروں کی پھیلائی اس کہانی کو بغیر کوئی سوال اٹھائے مان لیا کہ روس کے جاسوسی اداروں کے لئے کام کرنے والے چند ہیکروں نے ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم چلانے والے لوگوں کی ذاتی ای میلزتک رسائی حاصل کرلی تھی۔اس رسائی کی وجہ سے جمع کی ہوئی معلومات کو شاطرانہ مہارت کے ساتھ لوگوں کے سامنے لایاگیا۔Privacy کے معاملات کے بارے میں ہکا بکا ہوئی ہیلری اور اس کی ٹیم دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی۔توجہ کے اس ارتکاز سے محروم جو تخت یا تختہ والی انتخابی مہم میں کامیاب ہونے کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔

امریکی جاسوسی اداروں کی بنائی کہانیوں کو لے کر امریکی میڈیا نے یکے بعد دیگرے ٹرمپ کے چند قریبی مصاحبین کو بے نقاب“کرنا شروع کردیا۔یہ تاثر ابھاراگیا کہ روسی صدر پیوٹن،ٹرمپ کا ”جگر“ ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کے لئے کام کرنے والے کئی اہم افراد واشنگٹن میں متعین روسی سفیر سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ان روابط کی بناءپر امریکی صدر کے لگائے قومی سلامتی کے مشیر کواستعفیٰ دینا پڑا۔اس کا لگایا اٹارنی جنرل اپنی ساکھ کھوبیٹھا اور بالآخر پارلیمان کا وہ رکن بھی ”بے نقاب“ ہوگیا جس نے اپنی کمیٹی کے ذریعے ٹرمپ کے پیوٹن کے ساتھ رابطوں اور رشتوں کا سراغ لگانا تھا۔ٹرمپ انتظامیہ کو مسلسل بوکھلاہٹ میں مصروف رکھنے کی بناءپر امریکی میڈیا نے امریکی صدر کے انتہا پسند”بیرم خان“۔Steve Bannon کو بھی نیشنل سکیورٹی کونسل سے فارغ کروادیا۔اس کی رخصت کے بعد تاثر پھیلنے لگا کہ امریکہ کے ”قومی مفادات“ کے ”اصل اور سنجیدہ نگہبان“بتدریج صدر ٹرمپ کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی قوت حاصل کررہے ہیں۔

اپنی انتظامیہ کے بارے میں افراتفری اور آپادھاپی پر مبنی تصور کو یک مشت تباہ کرنے کے لئے ڈونلڈٹرمپ نے شام پر میزائلوںکی بارش برسانے کا حکم دے دیا۔یہ میزائل گرتے ہی روسی حکومت بلبلااُٹھی۔احتجاجی بیانات کا سلسلہ شروع کردیا۔”جوابی کارروائی“ کی دھمکیاں بھی سنائی دیں۔ان سب کی بدولت امریکی عوام کو اب ا عتبار آگیا ہے کہ ٹرمپ،پیوٹن کا آلہ کار نہیں ہے۔وہ تو بلکہ روس کی شام کے معاملات پر اجارہ داری کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ چیلنج کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔

شام پر میزائلوں کی بارش کی وجہ سے واہ واہ کروانے والے ٹرمپ نے اپنے اقدام کا جواز بشارالاسد کی حکومت کے خلاف جنگ میں مصروف ایک گروہ کے ٹھکانوں پر مبینہ طورپر کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کوبنایا ہے۔کیمیاوی ہتھیار یقینا بہت سفاک اور مہلک ہوتے ہیں۔ان کا نشانہ بنے افراد کی لاشیں جھلس جاتی ہیں۔چہرے مسخ ہوجاتے ہیں۔انہیں دیکھ کر دل کانپ جاتا ہے۔

بشارالاسد کی حکومت مگر روسی فضائیہ اور زمینی افواج کی بھرپور معاونت اور شرکت سے گزشتہ کئی مہینوں سے اپنے مخالفین کی زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔شام کا تاریخی شہر حلب حال ہی میں کئی مہینوں تک محصور رہا۔ 3 لاکھ سے زیادہ شامی کئی ہفتوں تک اس شہر کے مشرقی حصوں میں محدود ہوکر رہ گئے۔ان حصوں پر روسی فضائیہ نے مسلسل بمباری کی۔ان علاقوں میں خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ سربفلک عمارتیں کھنڈروں میں تبدیل ہوگئی۔کئی ہفتوں پر پھیلے آپریشن کے بعد محصور ہوئے بے بس ولاچارشہریوں کو نقل مکانی کے لئے بالآخر ”محفوظ راستے“ فراہم کئے گئے۔حلب پر جو قیامت کئی ہفتوں تک مسلط رکھی گئی اس کا ”انسانی ہمدردی“میں مبتلا عالمی میڈیا نے خاص نوٹس نہیں لیا۔

حمس کے ایک گاﺅں میں لیکن جب باغیوں کے ٹھکانے پر کیمیاوی ہتھیاروں سے حملہ ہوا تو اس کا شکار ہوئے بچوں کی تصاویر ریگولر اور سوشل میڈیا پر پھیلادی گئیں۔”مسلم اُمہ کا ضمیر“ جگانے کی خاطر پھیلائی ایسی کئی تصاویر مجھے بھی ایسے سوالات کے ساتھ ملی ہیں جو یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے پاکستانی میڈیا کی ”مجرمانہ خاموشی“ کی وجہ سے شام کے عوام بشارالاسد کی ”کافرانہ“ حکومت کے ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔دنیا بھر کے تمام مسلمان ملک باہم مل کر بھی اگرچہ شام میں روسی معاونت وشرکت سے برپا خانہ جنگی کو روک نہیں سکتے۔کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا ”بدلہ“ بالآخر ٹرمپ انتظامیہ ہی نے لیا ہے جس نے اقتدار سنبھالتے ہی امریکہ میں شام سے پناہ کی تلاش میں دنیا بھر میں دربدر ہوئے مہاجرین کے داخلے پر کڑی پابندیاں لگادیں تھی۔

یہ سوال مگر اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا شام کے ایک چھوٹے،گمنام اور جنگی حوالوں سے تقریباََ غیر اہم ہوائی اڈے پر میزائلوں کی بارش سے بشارالاسد اور اس کی حکومت کو کماحقہ”سزا“ مل گئی ہے؟ میرا جواب اس ضمن میں قطعا نفی میں ہے۔ٹھوس ذرائع سے بلکہ اب یہ اطلاعات بھی آشکار ہورہی ہیں کہ روسی حکومت کو اس حملے کے بارے میں پہلے سے ”اعتماد“ میں لیا گیا تھا۔روسی حکومت کا اس حملے کے بعدمچایا شورشرابا بھی سفارتی حوالوں سے محضPosturing ہے۔امریکی حملہ اور اس کے بارے میں روسی ردعمل درحقیقت دنیا کو یہ بتائے گا کہ شام کی خانہ جنگی کا حل نام نہاد مسلم امہ کے پاس ہرگز موجود نہیں ہے۔واشنگٹن اور ماسکو ہی بالآخر مل بیٹھ کر یہ طے کریں گے کہ شام کو ”استحکام“ کیسے مہیا کیا جائے اور اس کے حصول کے لئے اپنا یا طریقہ ایسا ہو جو امریکہ اور روس دونوں کے لئے Win-Win والا ماحول بنائے۔

فی الوقت مگر ٹرمپ نے کھیل کا یہ راﺅنڈ جیت لیا ہے۔وہ اپنے میڈیا اور ریاستی اداروں کے لئے "Presidential" ہوگیا۔ سعودی عرب اور ترکی بھی مطمئن ہوگئے ہیں کہ ٹرمپ،اوبامہ کی طرح ایران کے ناز نخرے نہیں اٹھائے گا۔اسے ”آنے والی تھاں“تک محدود رکھے گا۔