ایک حیران کن انتخابی مہم کے ذریعے ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کے بعدامریکہ کی یونیورسٹیوں میں ایک سنجیدہ بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ اخبارات کے ادارتی صفحات پر اس بحث کی جھلک اکثر دیکھنے کو مل جاتی ہے۔
اس بحث کے مرکزی نکتے نے فرض کرلیا ہے کہ ٹرمپ کی اپنی کوئی ٹھوس سیاسی سوچ نہیں ہے۔ وہ محض ایک کاروباری شخص ہے۔ توجہ کا بھوکا۔اس لئے ایک ٹی وی پروگرام کا اینکر بھی بنا۔ ٹی وی کے ذریعے اپنی ”کشش“کو دریافت کرنے کے بعد اس نے ”شغل شغل“ میں صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ابتداََ امریکی میڈیا اور وہاں کی انتخابی سیاست کو برسوں کی تحقیق اور بڑی محنت سے تیار کردہ سروے کے ذریعے سمجھنے والے مبصرین نے ٹرمپ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔یہ بات تقریباََ طے کرلی گئی کہ امریکہ کی قدیم ترین سیاسی جماعت صدارتی انتخاب کے لئے اسے اپنا امیدوار نہیں چنے گی۔
ری پبلکن پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے باوجود ٹرمپ انتخابی مہم کے ابتدائی دنوں میں ہیلری کلنٹن کے مقابلے کا امیدوار تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔صحافیوں اور مبصرین کی اکثریت کو یقین تھا کہ بے پناہ سیاسی تجربے کی حامل ہیلری اسے بالآخر شکست سے دوچار کرنے کے بعد امریکہ کی پہلی خاتون صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کرلے گی۔ یہ امید بھی بارآور نہ ہوپائی۔
ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کے بعد اب بہت سنجیدگی سے فرض کیا جارہا ہے کہ اپنی محبت میں مریضانہ حد تک مبتلا یہ شخص درحقیقت انتہائی دائیں بازو کے ایک متعصب اور سازشی گروہ کے اشاروں پر کھیلتی کٹھ پتلی ہے۔امریکی حکومت کے فیصلے ان دنوں ٹرمپ نہیں ”کوئی اور“ کررہا ہے۔اس ”اور“کی تلاش بالآخرSteve Bannonنام کے ایک شخص پر جاکے رک گئی ہے۔اسے کئی حوالوں سے عصرِ حاضر کا ”بیرم خان“ مانا جارہا ہے جو کئی برسوں تک اکبر اعظم کو ”چلاتا“ہوا نظر آیا تھا۔
یہ طے کرلینے کے بعد کہ امریکی حکومت میں اصل فیصلہ سازی ان دنوں Steve Bannon کررہا ہے۔امریکی صحافی اور محققین اس کے نظریات کو سمجھنے کی تڑپ میں مبتلا ہوگئے ہیں۔آخری خبریںآنے تک فیصلہ یہ ہوا ہے کہ Bannon اپنی نوعیت کا ایک ”انقلابی“ ہے جس کا اصل مقصد امریکی ریاست کے قیام کے پیچھے موجود اصولوں اور اس ریاست کو آئین اور اس کے تحت قائم ہوئے اداروں کے ذریعے چلانے کی روایات کو روندتے ہوئے ایک ”نئی دنیا“تعمیر کرنا ہے۔اس دنیا پر سفید فام عیسائی اشرافیہ کی بالادستی مسلم بنانا ہوگی۔
ایسی بالادستی کا قیام مگر پرامن طریقوں سے ممکن ہی نہیں۔یہ خواہش ”سخت“ اور ”نامقبول“ فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ایسے فیصلوں کے نتیجے میں امریکی عوام کا ایک بہت بڑا حصہ ہی نہیں بلکہ یورپ میں موجود امریکہ کے روایتی اتحادی بھی پریشان ہورہے ہیں۔ امریکی عوام اور باقی دنیا میں ٹرمپ کے بارے میں مسلسل اُٹھتے سوالات نے واشنگٹن کی اشرافیہ کو پریشان کردیا ہے۔ وہاں کی وزارتِ خارجہ اور سی آئی اے اس ضمن میں خود کو انتہائی بے بس محسوس کررہے ہیں۔
Steve Bannon اپنے کچھ اقدامات اور خیالات سے انہیں مزید پریشان کئے چلے جارہا ہے۔ چند ہفتے قبل امریکہ میں قدامت پرست عناصر کا سالانہ اجلاس ہوا تھا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے Bannon نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ اس کا اصل ہدف امریکہ کی "Administrative State" کو بتدریج تباہ کرنا ہے۔
Bannon جیسے لوگوں کا خیال ہے کہ ریاست کے دائمی ادارے جنہیں قومی بقاءاور عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے قائم کیا جاتا ہے۔بالآخر ”ریاست کے اندر ریاست“ کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔ان کے اپنے ادارہ جاتی مفادات ہوتے ہیں اور یہ بات ہرگز ضروری نہیں کہ ریاست کے دائمی اداروں کے طے شدہ اہداف،ریاست اور اس کے شہریوں کی حقیقی توقعات اور مفادات کی حقیقی ترجمانی بھی کرتے ہوں۔ایسی ترجمانی کا حق صرف اور صرف عوام کے منتخب کردہ کسی رہ نما کو حاصل ہونا چاہیے ۔یہ رہ نما مگر ریاست کے دائمی اداروں کو ”اپنی اوقات“یاد دلانے اور انہیں وہاں تک محدود رکھنے کے بغیر اپنا فیصلہ سازی کا حق استعمال ہی نہیں کرسکتا۔
امریکی میڈیا،عدلیہ اور وہاں کے انٹیلی جنس اداروں کو مسلسل تضحیک کا نشانہ بناتے ہوئے ڈونلڈٹرمپ فی الوقت ان اداروں کو ان کی اوقات یاد دلانے کی کوششیں ہی کررہا ہے۔امریکہ کے عام آدمی کو لہذا اس کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے تاکہ سفید فام عیسائیوں کا امریکہ ہی نہیں پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا خواب پایہ تکمیل ہوجائے۔
اپنے ثقافتی حوالوں سے اگر غور کریں تو ٹرمپ، Bannon کی نظر میں ویسا ہی ”دیدہ ور“ ہے جس کا تصور اقبال سے منسوب کیا جاتا ہے۔امریکی میڈیااور علمی حلقوں میں اگرچہ اس تصور کا حوالہ نہیں دیا جارہا۔جدید دور میں اس کی بھرپور علامت ترکی کے طیب اردوان کو سمجھا جارہا ہے۔
Bannon کی بتائی "Administrative State" ترکی میں ”دریں دولت“کہلاتی تھی۔انگریزی میں اس کا ترجمہ Deep State ہوا۔ہمارے ہاں Establishment کا استعمال ان ہی معنوں میں ہوتا ہے۔”دریں دولت“اتاترک نے متعارف کروائی تھی۔اس کے ذریعے اس نے طے کردیا کہ خلافتِ عثمانیہ کی شکست وریخت کے بعد ترکی کی عسکری قیادت ہی اس ملک کی بقاءکو یقینی بناسکتی ہے۔صرف وہ طے کرے گی کہ ترکی کا اصل”قومی مفاد“کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کرنا ہے۔
برسوں تک پھیلی جدوجہد کے ذریعے اردوان نے اس ”دریں دولت“ کو شکست وریخت کا نشانہ بنایا۔ اپنے خلاف ہوئی ایک حالیہ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے بعد اب وہ ریفرنڈم کے ذریعے ”سلطان اردوان“ بننے ہی والا ہے۔ایک ایسا”منتخب صدر“جس کے پاس بادشاہوں جیسے اختیارات ہوں گے۔یہ ”بادشاہ“ہی طے کرے گا کہ ترکی کا اصل قومی مفاد کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کرنا ہے۔اردوان اور ٹرمپ کا ذکر کرتے ہوئے امریکی محققین یہ بھی محسوس کررہے ہیں کہ بھارت کا نریندرمودی بھی ان دونوں کی طرح کاطاقت ور اور عوام میں مقبول Authoritarian Populist بننا چاہ رہا ہے۔
پاکستان کے لئے ”خوش خبری“یہ ہے کہ ٹرمپ وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے امریکی صحافی اور محقق اس بات پر متفق نظر آرہے ہیں کہ دنیا میں مصر اور پاکستان وہ ”خصوصی ملک“ ہیں جہاں کی ”دریں دولت“ یا Deep State مضبوط ومستحکم ہے۔عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے Populists ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔