1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. اس گلی میں جانے کی ضد کیوں؟

اس گلی میں جانے کی ضد کیوں؟

کوئی فرد اپنے فیصلے کرنے میں کتنا آزاد ہے؟اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے فلسفئہ جبروقدر تشکیل پایا۔ طویل وتاریخی مباحث-دلائل کے طومار-کوئی حتمی جواب مگر ابھی تک مل نہیں پایا ہے۔

Soren Kierkegaard نامی ایک فلاسفر کا اصل میدان تو خیالات کے اظہار کے لئے استعمال ہوئے عمومی الفاظ کی اصلیت اور ضرورت کو سمجھنا تھا۔ اس موضوع پر غور کرتے ہوئے وہ یہ سوال اٹھانے پر بھی مجبور ہوگیا کہ کوئی فرد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کس حد تک منفرد اور تخلیقی ہوسکتا ہے۔ کیا وہ مختلف انسانی جذبات کی تخصیص کرنے والے الفاظ اور اصطلاحات ،جو کسی بھی زبان میں برسوں سے استعمال ہورہے ہوں،کونظرانداز کرتے ہوئے قطعاََ نئے الفاظ کے استعمال کے ذریعے بھی اپنے جذبات کو مؤثر طورپربیان کرسکتا ہے یا نہیں۔اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے وہ فرد کی آزادی کے موضوع پر غور کرنا شروع ہوگیا اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ کس شخص کا Freedom درحقیقت اپنی Limitations کو جان لینا ہے۔

سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ ’’اپنی اوقات‘‘ پہچان لینا ہی ہمیں ’’آزاد‘‘ہونے کا گماں دیتے ہوئے شانت رکھتا ہے۔ ہمارے عقلِ کُل بنے اینکر خواتین وحضرات کی اکثریت مگر ’’اپنی اوقات‘‘ پہچاننے کو تیار نہیں۔2011ء کے آغاز میں ریمنڈ ڈیوس کا قصہ ہوا تھا۔ اسے ’’نشانِ عبرت‘‘بنانے کے لئے ہماری سکرینوں پر بہت چیخم دھاڑ ہوئی۔بالآخر اسے راتوں رات’’انصاف‘‘فراہم کرنے کے بعد پاکستان سے باہر بھیج دیا گیا۔

مئی 2011ء کے آغاز کے ساتھ ہی اسامہ بن لادن والا واقعہ بھی ہوا تھا۔ امریکی طیاروں کے ذریعے ایبٹ آباد کے ایک گھر میں رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند کمانڈرز اُترے۔اپنی کارروائی مکمل کرنے کے بعد اطمینان سے اپنے ٹھکانوں پر واپس چلے گئے۔ہماری قومی غیرت اس واقعہ کی وجہ سے بلبلااُٹھی۔پارلیمان کا طویل In Camera اجلاس ہوا۔ اس وقت کے آرمی چیف اور DG ISI وہاں وضاحتیں دیتے رہے۔ بالآخر ایک متفقہ قرار داد منظور ہوئی جس کے ذریعے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم ہوا۔اس کمیشن کو اپنی رپورٹ وزیر اعظم کے دفتر بھجوائے اب تین سے زیادہ برس گزرگئے ہیں۔وہ رپورٹ خلق خدا کے سامنے مگر ابھی تک نہیں آسکی۔ رات گئی ،بات گئی والا معاملہ ہوچکا ہے۔

جنرل پرویز مشرف نام کے ایک صدر بھی ہوا کرتے تھے۔پاکستان کا تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نواز شریف صاحب نے موصوف کے خلاف 3 نومبر 2007ء کی رات کو آئین کو معطل کرنے کے جرم میں ایک مقدمہ چلانا چاہا۔کاغذوں کی حد تک وہ مقدمہ اب بھی اپنی جگہ قائم ہے۔مشرف صاحب مگر بیرون ملک جاچکے ہیں۔

اپنی روزمرہّ زندگی سے،جو بہت مزے کے ساتھ گزررہی ہے،کبھی کبھار اُکتاجائیں تو جنرل مشرف اپنی پسند کے کسی اینکر کو ون آن ون انٹرویو دے دیتے ہیں۔ایسے انٹرویو میں وہ بہت رعونت کے ساتھ ہمارے سزا اور جزا سے جڑے نظام کی اصل اوقات یاد دلاتے رہتے ہیں۔ ہماری مگر پنجابی والی تسلی اب بھی نہیں ہوپائی ہے۔

2016ء ختم ہورہا تھا تو جاوید ہاشمی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں 2014ء میں دئیے دھرنے کے بارے میں مزید ’’انکشافات‘‘ کردئیے۔ اس انٹرویو کے بعد سے ایک بار پھر ’’حقائق‘‘ کو جاننے کے لئے سیاپا برپا ہے۔جمہوری نظام کے خلاف ایک گھنائونی سازش وغیرہ کاذکر۔اس کے ذمہ داروں کا تعین اور انہیں سزا دینے کی فریاد۔

جاوید ہاشمی کے تازہ’’انکشافات‘‘ کی وجہ سے برپا شور نے مجھے گئے وقتوں کی ایک فلم یاد دلادی ۔’’مولاجٹ‘‘اس کا نا م تھا۔ میں اس فلم کو دیکھنے سینما ہائوس میں صرف اس لئے گیا تھا کیونکہ کھڑکی توڑ رش لے رہی تھی۔ مجھے دریافت صرف یہ کرنا تھاکہ اس فلم نے لوگوں کو اتنا دیوانہ کیوں بنارکھاہے۔

اس فلم میں مصطفیٰ قریشی ایک بے رحم قاتل وعادی مجرم کاکردار ادا کررہا تھا۔ ہدایت کار نے اسے بہت ڈرامائی انداز میں متعارف کروایا۔ فلم کی زبان میں اسے کسی کردار کی Entry کہا جاتا ہے۔ کیمرہ لانگ شاٹ سے قیدیوں کا لباس پہنچے ایک شخص کی کمردکھاتے ہوئے کلوزشاٹ کی طرف بڑھتاہے۔ وہ شخص بہت بے چینی سے اپنی کمر کو جیل کی سلاخوں کے ساتھ رگڑتے ہوئے فریاد کررہا ہوتا ہے کہ ’’میرا وی کوئی دشمن ہوئے‘‘۔تخت یا تختہ کے معرکوں میں حصہ لے کر اپنے جسم کو اذیت پہنچانے کا عادی ایک کردار۔نفسیات کی زبان میں اسے Masochist یا خود اذیتی کی علت میں مبتلا شخص بھی کہا جاسکتا ہے۔

’’حقائق کو پوری طرح جاننے‘‘ کی تڑپ جو ہمارے 24/7 چینلز کی سکرینوں پر تواتر کے ساتھ دیکھنے کو ملتی ہے،مجھے ہمیشہ ’’مولاجٹ‘‘ میں مصطفیٰ قریشی کی انٹری والا منظر یاد دلادیتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے بخیروعافیت اس ملک سے چلے جانے کے بعد ہمارے ملک میں موجود سزا اور جزا کے نظام کی حقیقت کو مگر ہمیں اب پوری طرح سمجھ لینا چاہیے تھا۔اس نظام کی حدود (Limitations) کو یاد کرتے ہوئے ہم خود کو سوائے ذہنی اذیت پہنچانے اور شرمساری محسوس کرنے کے کچھ اور حاصل نہیں کرسکتے۔ بہتر یہی ہے کہ جو میسر ہے اسی پر گزارہ کریں۔غور طلب مسائل کا ایک انبار جن کا حل صرف اور صرف منتخب سیاسی قیادتوں کے پاس ہے۔اپنی جگہ موجود ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ فی الوقت پوری توجہ صرف ان مسائل پر ہی مرکوز رکھی جائے۔ جس گلی سے ’’طوطیا من موتیا‘‘ کو جانے سے روکنے پر داستانیں زور دیا کرتی تھیں

ریاست کے طاقت ور اداروں اور افراد سے ’’پورے حقائق جاننے‘‘پر زور دیتے ہوئے ہمارے جیّد وجی دار اورحق پرست بنے اینکر خواتین وحضرات کو 2014ء کے دھرنے کے دوران اپنے اجتماعی کردار کو بھی یاد کرلینا چاہیے۔

شرطیہ Ratings پہنچانے والے جو ٹاک شوز ہیں ان کے دوران لمبے لمبے وقفے آتے ہیں۔ان وقفوں کے دوران اشتہارات دکھائے جاتے ہیں جو کسی بھی ٹی وی نیٹ ورک کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ 2014ء کے دھرنوں کے دوران لیکن ایسے شوز کو کسی بھی مقام پر فوری Cut کرتے ہوئے کیمرے اچانک دھرنے کے مقام پر کھل جاتے۔ DSNG کے ذریعے کنٹینرپر ہوئی تقاریر،جو ہمیشہ ایک سی ہوتیں، Live چلنا شر وع ہوجاتیں۔ میرے سمیت ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی آج تک یہ جرأت نہیں کر پایا ہے کہ سنجیدگی سے صرف یہ معلوم کرلے کہ اشتہاروں کے محتاج Networks یہ Live Cuts دکھانے پر کیوں مجبور ہوجاتے تھے۔

یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ٹی وی نیٹ ورکس اپنے اشتہارات کی کمائی کو فی سبیل اللہ بھلادے۔کسی نہ کسی نوعیت کی Compensation کے بغیر ایسا فیصلہ ممکن ہی نہیں۔ وہ Compensation کیا تھی اور کس انداز میں ادا ہوئی؟ یہ سب جان لیں تو جاوید ہاشمی،عمران خان اور ریٹائرڈ جنرل خٹک سے بھی یہ پوچھنے کا حق مل جائے گا کہ 2014ء کے دھرنے کے دوران انہوں نے کیا کردار ادا کیا تھا۔اپنے حصے کا سچ بتائے بغیر دوسروں سے سچ کا تقاضہ کرنا دانشوارانہ بددیانتی ہے۔ میں اس بددیانتی کا ارتکاب کرنے کی جرأت سے قطعاََ محروم ہوں۔ مجھے کونے میں بیٹھ کر دہی کھانے دیجئے۔