1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. وزیراعظم ہاوس کے گُھس بیٹھیوں کی نشاندہی ہو سکی؟

وزیراعظم ہاوس کے گُھس بیٹھیوں کی نشاندہی ہو سکی؟

اس کالم کے عنوان کے ذریعے میں ہر بات کو برملا کہنے کا دعویٰ کرتا ہوں۔ وقت آگیا ہے کہ انتہائی خلوصِ دل سے یہ اعتراف کرلیاجائے کہ میرا یہ دعویٰ قطعاََ باطل ہے۔ بڑھک بازی ہے۔ منافقانہ پھنے خانی ہے۔

یہ سب کہنے کے بعد مجھے تھوڑی سی ہمت کرکے اس کالم کا عنوان تو بدل لینا چاہیے۔ ”بچ بچا کے“ شاید زیادہ مناسب ہو مگر اس عنوان کی وجہ سے بھی پیغام شاید یہ جائے کہ میں حیلوں بہانوں اور استعاروں،تشبیہوں اور علامتوں وغیرہ کے استعمال کے ذریعے کسی نہ کسی صورت سچ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ حالانکہ یہ بات بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہوگی۔ رزق کے غلام ہوئے اذہان سچ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ اسے بیان کرنا توبہت دور کی بات ہے۔

انگریزی روزنامہ ”ڈان“ میں 6 اکتوبر 2016ء کی صبح چھپی خبر نے مثال کے طورپر، ”قومی سلامتی“ کو نقصان کیسے پہنچایا؟ اس سوال کا جواب میں آج تک ڈھونڈ نہیں پایا۔ یہ خبر چھپنے کے بعد اسی اخبار نے حکومت کی جانب سے ایک نہیں تین تردیدی بیانات کو من وعن چھاپ دیا تھا۔ اس بھرپور تردید کی اشاعت کے بعد مذکورہ خبر کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی تھی۔ طوفان مگر مچ گیا۔

”ذرائع“ نے ہمارے بہت ہی ”آزاد“ اور ہمہ وقت مستعد میڈیا پر حاوی حق گو وطن پرستوں کی معاونت سے فضا یہ بنائی کہ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کے دفتر میں کوئی ”گھس بیٹھیا“ موجود ہے جو پاک فوج کو میڈیا میں جھوٹی کہانیاں چھپواکر بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔

اس گھس بیٹھیے کی نشان دہی کے لئے ایک اعلیٰ سطح کمیشن قائم ہوا۔اس کمیشن میں تحقیق وتفتیش کے عمل کو جدید ترین سائنسی ذرائع کے ذریعے یقینی بنانے والے تین ”حساس اداروں“ کے نمائندے بھی موجود تھے۔ FIA کی شمولیت بھی یقینی بنائی گئی۔ ان چار نمائندوں کی شراکت ومعاونت سے اب تک ان لوگوں کی نشاندہی تو ہوجانا چاہیے تھی جو مبینہ طورپر پاک فوج کو ”بدنام“ کرنے کے گھناﺅنے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

ہفتے کی صبح لیکن وزیر اعظم کے دفتر سے جو حکم جاری ہوا،اس کے ذریعے ہمیں پیغام مگر یہ ملا کہ مشکوک افراد کی ٹھوس انداز میں نشان دہی نہیں ہوپائی ہے۔وزیر اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ طارق فاطمی کی فراغت کا اعلان ضرورہوا۔ان کے ساتھ وزارتِ اطلاعات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر(PIO) بھی اپنے عہدے سے ہٹادئیے گئے۔راﺅتحسین علی خان ان کا نام ہے۔اب موصوف کے خلاف محکمانہ انکوائری ہوگی۔ کسی سرکاری افسر کی بنیادی خواہش گریڈ 22میں ریٹائر ہونا ہوتا ہے۔راﺅ صاحب کو میرٹ کی تمام شرائط پر پورے اترتے ہوئے بھی چند ماہ قبل ”ترقی“ پانے کی گنجائش سے محروم کردیاگیا۔ کسی بھی سرکاری افسر کے لئے اس سے کڑی سزا ہو ہی نہیں سکتی۔ معاف انہیں مگر اب بھی نہیں کیا گیا۔

میرا صحافتی کیرئیر شروع ہونے کے تقریباََ دو برس بعد اس ملک میں جنرل ضیاءکے مارشل لاءکی بدولت ”پری سنسرشپ“ کا نفاذ ہوگیا تھا۔ مجھ ایسے بدنصیب جو سارا دن خبروں کی تلاش میں خوار ہوا کرتے تھے، دفتر لوٹ کر کوئی خبر لکھتے تو ڈیسک پر اس کی خوب چھان پھٹک ہوتی۔ اس چھان پھٹک کے بعد بھی اس خبر کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (PID) پہنچانا ضروری ہوتا تھا۔وہاں بیٹھے سنسر افسر یہ فیصلہ کرتے کہ میری خبر اشاعت کے قابل ہے یا نہیں۔ یہ فیصلہ بھی وہیں سے نازل ہوتا کہ کافی کانٹ چھانٹ کے بعد اشاعت کے قابل قرار دی خبر کو اخبار کے کونسے صفحے پر کس انداز میں شائع کیا جائے گا۔

ضیاءالحق کے دور میں ہوئے بے شمار تلخ تجربات کی وجہ سے میں PID کے افسروں سے ہمیشہ لئے دئیے رہتا ہوں۔ راﺅ تحسین مگر PR کے معاملے میں جنونی ہونے کی حد تک ایک پروفیشنل شخص ہے۔ کسی نہ کسی بہانے میرے ساتھ ہمیشہ رابطے میں رہا۔یہ بات بھی عجب اتفاق ہے کہ ڈان کی خبر چھپ جانے کے بعد آنے والی اتوار کی شب اس نے خود کو میرے گھر رات کے کھانے کے لئے ”مدعو“ کیا تھا۔اس کے ساتھ ہوئی اس ملاقات کے بعد سے میں بہت اصرار کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا رہا ہوں کہ موصوف کا 6 اکتوبر 2016 کی صبح چھپی خبر سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ یہ ”خبر“ کیوں اور کہاںسے آئی والے سوال کاجواب حاصل کرنے کو بلکہ وہ خود بھی بے چین تھا۔

یہ خبر لکھنے والا سیرل المیڈامیرا بے تکلف دوست ہے۔ میں نے راﺅ تحسین کی تشفی کے لئے اسے اپنے ہاں بلالیا۔ کوئی بھی رپورٹر اپنی خبر کی سورس ہرگز نہیں بتایا کرتا۔ راﺅ تحسین نے مگر اسے گھیرنے کے کئی ہتھکنڈے استعمال کئے۔ سیرل غچہ دے گیا۔ میں نے بطور صحافی ا پنے ساتھی کا اس ضمن میں بھرپور ساتھ دیا۔ راﺅ تحسین کو ”بیوروکریٹ والی چالاکیاں“ دکھانے کے طعنے دیتا رہا۔ اس راﺅ تحسین کو مگر 6 اکتوبر 2016 والی خبر کی اشاعت کا ذمہ دار ٹھہرادیا گیا ہے۔ گریڈ 22 میں ترقی سے محروم ہوجانے کے بعد اب وہ OSD ہوا محکمانہ کارروائی بھگتے گا۔ناکردہ گناہوں کی سزا پانے کی عملی مثال۔

معاملہ مگر اب انفرادی نہیں رہا۔ جھگڑا اداروں کے درمیان ہوچکا ہے۔سانڈوں کی لڑائی میں راﺅ تحسین جیسے سرکاری ملازم ہی نہیں میرے اور آپ جیسے سینکڑوں عام افراد بھی کچلے جاتے ہیں۔انگریزی میں عام افراد کی ہلاکتوں اور زخموں کو Collateral Damage کہہ کر بھلادیا جاتا ہے۔

بہتر ہوتا کہ 6 اکتوبر 2016 کی صبح چھپی خبر کے بارے میں ہوئی انکوائری کی رپورٹ ہفتے کے دن چند افراد کے خلاف تادیبی کارروائی لینے سے پہلے من وعن شائع کردی جاتی۔ اس رپورٹ کی عدم موجودگی میں مجھ ایسے صحافی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ چند لوگوں کو مذکورہ خبر کو چھپنے سے روکنے میں ناکامی کے ”جرم“ میں سزا وار ٹھہرایا گیا ہے۔ ”گھس بیٹھیوں“ کی نشان دہی اب بھی نہیں ہوپائی۔ راﺅتحسین جیسے سرکاری ملازموں کو نشانہ بناکر اخبارات کو واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ پی آئی ڈی سے آئے کسی افسر کے فون کو احترام سے سنا جائے۔ وہ کسی خبر یا کالم کو روکنے کا تقاضہ کرے تو ہر صورت اس کے حکم کی تعمیل کی جائے۔ ورنہ....

”ورنہ....“ والے پیغام کومزید مو¿ثر بنانے کے لئے اخباری مالکان کی تنظیم APNS کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ 6 اکتوبر 2016ء کی صبح چھپی خبر کے ذمہ دار رپورٹر اور مدیر کے خلاف از خود کوئی کارروائی کریں۔اخباری مالکان کی تنظیم کو ایسی ”تھانے داری“ کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ دیکھتے ہیں ہمارے مالکان اس اعزاز سے کس انداز میں لطف اندوز ہوں گے۔ اگرچہ مجھے خدشہ یہ بھی لاحق ہے کہ وہ خود کو ’تھانے داری“ کا بوجھ اٹھانے کے قابل محسوس نہ کریں۔

زیادہ بہتر یہی ہوگا کہ اخبارات کی کاپیاں پریس میں بھیجنے سے قبل جنرل ضیاءکے روشن اور افغان جہاد کی سرمستی میں مسحور دور کی طرح قومی سلامتی کے نگہبانوں کے ہاں بھیجنے کا حکم صادر فرمایا جائے تاکہ خوب چھان پھٹک کے بعد انہیں ”تخریبی مواد“ سے پاک کیا جا سکے۔