کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہیں، ٹھوس حقیقت مگر یہ ہے کہ 2013 کی انتخابی مہم کے دوران عمران خان کی تحریک انصاف شہر کراچی میں ایک تازہ اور توانا لہر کی صورت ابھری تھی۔ پڑھے لکھے اور خوش حال اُردو بولنے والوں کو اس جماعت کی جانب سے کرپشن کے خلاف گفتگو پسند آئی۔ صرف میرٹ پر اصرار کرتے ہوئے اس جماعت نے اُردو بولنے والوں کی ایک متاثر کن تعداد کو یہ اُمید بھی دلائی کہ انہیں اپنی نوکری، تعلیمی اداروں میں داخلے اور کاروبار کے تحفظ کے لئے ایم کیو ایم کی سرپرستی درکار نہیں رہی۔ متوسط طبقے کے یہ لوگ اپنی زبان اور ’’مہذب‘‘ ہونے کے بارے میں بہت نازاں ہوا کرتے تھے۔ ایم کیو ایم کے ’’سیکٹر کمانڈروں‘‘ نے گلی کے غنڈوں جیسا انداز اپنا کر انہیں پریشان کردیا تھا۔ تحریک انصاف انہیں پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل متبادل کی صورت نظر آئی۔
اُردو بولنے والے متوسط طبقوں کے ساتھ ہی ساتھ کراچی میں رہائش پذیر بے تحاشہ پشتو اور پنجابی بولنے والوں نے بھی تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ جماعت لسانی اور نسلی تفریق سے بالاتر ہوکر کراچی کے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک برتنے کی خواہش مند ہے۔ مختلف وجوہات کی بناء پر تحریک انصاف اگرچہ لیاری کے بلوچوں اور کراچی کے مضافات میں قائم بستیوں میں اپنے لئے مناسب Space ڈھونڈ نہیں پائی۔
2013ء کا انتخابی عمل مکمل ہوجانے کے بعد عمران خان اور تحریک انصاف اگر ایک مناسب حکمت عملی کے ساتھ کراچی کے شہریوں سے اپنا رابطہ مستقل اور متحرک بنیادوں پر برقرار رکھتے تو بتدریج ’’نئے سندھ‘‘ کی سیاست یقینا شروع ہوجاتی جو 80ء کی دہائی سے دیہی اور شہری میں تقسیم ہوچکی تھی۔ لسانی اور نسلی گروہوں کی یرغمال تھی۔
لاہور کے ایک انتخابی جلسے میں اپنی کمر پر لگی چوٹ سے صحت یاب ہونے کے بعد مگر عمران خان کے ذہن پر ’’چار حلقے کھولنے‘‘ کی ضد سوار ہوگئی۔ یہ تمام حلقے صرف پنجاب کے تھے۔ کراچی کے لوگوں کو اس ضد سے پیغام یہ ملا کہ عمران خان کا اصل مقصد نواز شریف کو ہر صورت قبل از وقت انتخاب کی طرف دھکیلنا ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے ’’مسلط کردہ‘‘ انتخاب کی صورت میں پنجاب جو پاکستان کے دیگر صوبوں میں تقسیم ہوئی قومی اسمبلی کی نشستوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ نشستوں کا حامل ہے۔ عمران خان کے وزیراعظم ہونے کو یقینی بنادیتا۔
عمران خان سے مایوس ہوکر کراچی کے شہریوں نے وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ بالآخر رینجرز کی متحرک شراکت سے اس شہر میں ایک آپریشن شروع ہوا۔ اس کی بدولت شہر کا امن وامان متاثر کن حد تک بہتر ہوچکا ہے۔
ریاستی اداروں کی جانب سے ہوئے ’’آپریشن‘‘ مگر عملی سیاست کا متبادل ہوہی نہیں سکتے۔ لندن میں کئی برسوں سے مقیم ’’بھائی‘‘ نئی حقیقتوں سے سمجھوتہ نہ کر پائے تو مقامی سیاست میں ’’خلا‘‘ پیدا ہوگیا۔ اسے کراچی کے ایک سابقہ میئر نے عجلت میں پُرکرنے کی کوشش کی۔ اس کی عجلت اور بدکلامی نے لوگوں کو یہ تاثر بھی دیا کہ ریاستی سرپرستی میں شاید ایم کیو ایم میں سے ایک ق لیگ جیسی ایم کیو ایم نکالی جارہی ہے۔ اس کی پذیرائی نہ ہونے کے سبب وفاقی حکومت اسی ایم کیو ایم سے نبھاہ کرنے پر مجبور ہوئی جو کئی برسوں تک ’’بھائی‘‘ کے جاں نثار وفاداروں پر مشتمل تھی۔ یہ لوگ مگر اب ’’پاکستان‘‘ کی خاطر ’’بھائی‘‘ سے قطع تعلقی پر مجبور تھے۔
ایم کیو ایم کی صفوں میں پھیلے انتشار اور بددلی سے فائدہ اٹھانا پیپلز پارٹی کا فطری حق اور ذمہ داری تھی۔ اس کے لئے مگر ضروری تھا کہ بلاول بھٹو زرداری ایک قطعاََ نئے بیانیے کے ساتھ آگے بڑھ کر لوگوں سے رجوع کرتے۔ سندھ میں بسے تمام نوجوانوں کو یہ پیغام دیتے کہ پرانے سیاست دانوں نے محض ووٹ بینک کی منحوس سیاست کی ہے۔ اس سیاست نے سندھ کو دیہی اور شہری میں تقسیم کرنے کے بعد اسے بالآخر ان گروہوں کا یرغمال بنادیا جودعویٰ تو ’’سیاسی‘‘ ہونے کا کرتے ہیں مگر انداز مافیا کے ڈان والا اپنائے ہوئے ہیں۔ اپنی Territory بنائے،اسے ہر صورت بچانے اور بھتہ خوری سے غنڈے پالنے والے ڈان۔ ان لوگوں سے نجات پانے کے لئے سندھ میں بسے تمام لوگوں کو ایک جدید ریاست کا ’’شہری‘‘ بنانا ضروری تھا جن کے حقوق کے ساتھ چند اہم فرائض بھی ہوا کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو کئی بار’’لانچ‘‘ ہونے کے باوجود لیکن وہ سیاست نہیں کر پائے جس کی ان سے اُمید باندھی جارہی تھی۔
وزیراعظم کے دفتر میں تیسری بار پہنچ جانے کے بعد سے نواز شریف صاحب نے خود کو سندھ کے معاملات سے تقریباً لاتعلق رکھا۔ ان کے وزیر داخلہ نے اگرچہ انتظامی حوالوں سے خود کو اس صوبے اور خاص کر شہر کراچی کے لئے اہم ترین کردار ثابت کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ فی الوقت اس سوال کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ وہ اس ضمن میں کس حد تک کامیاب ہوئے۔ یہ بات اگرچہ واضح طور پر نظر آنا شروع ہوگئی ہے کہ نئے انتخابات کی طرف بڑھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نون اب سندھ اور خاص کر کراچی کی Political Pie میں اپنا Stake بنانے کو تیار ہورہی ہے۔
محمد زبیر جو کئی برسوں تک اسلام آباد میں بیٹھے Privatization کے عمل پر توجہ دینے کی بجائے ٹی وی ٹاک شوز میں نواز حکومت کا دفاع اور عمران خان کی مذمت میں مصروف رہے تھے، چند ماہ قبل گورنر سندھ بناکر کراچی بھیج دئیے گئے۔ گورنر کا عہدہ نمائشی اور کئی حوالوں سے قطعاََ غیر سیاسی سمجھا جاتا ہے۔ محمد زبیر کا گورنر ہائوس مگر بہت متحرک نظر آرہا ہے۔ صرف منگل کے دن اس ’’غیر سیاسی‘‘ گورنر نے کراچی الیکٹرک کے عہدے داروں سے طویل ملاقات کی۔ اس ملاقات کے نتیجے میںاعلان ہوا کہ کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی رمضان المبارک کے دوران کم از کم لوڈشیڈنگ کو یقینی بنائے گی اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
کراچی کے شہریوں کو بجلی کی فراہمی کے ضمن میں گورنر سندھ کی کاوشوں سے اطمینان دلادیا گیا تو چند ہی گھنٹوں بعد سندھ کے ’’چیف ایگزیکٹو- سید مراد علی شاہ- صوبائی اسمبلی میں اس امر پر بلبلاتے نظر آئے کہ سندھ کے بقیہ شہروں اور قصبوں میں 20/20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ وفاقی حکومت اس صوبے کو جو پورے ملک کے لئے 70 فی صد سے زائد قدرتی گیس پیدا کرتا ہے، غیر ملکی کمپنیوں کو بجلی پیدا کرنے کے لئے میگا پراجیکٹس لگانے کی راہ میں مختلف النوع رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے۔ سندھ حکومت کو تنگ آمد بجنگ آمدوالا رویہ اپنانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
مراد علی شاہ کے سندھ اسمبلی میں واویلا مچانے کے دوران ہی گورنر سندھ ٹرانسپورٹروں کے ایک وفد سے مذاکرات کرتے نظر آئے۔ ایک عدالتی فیصلے کی وجہ سے کراچی میں مال برداری والے ٹرکوں کی آمدورفت کو Regulate کیا گیا تھا۔ ٹرانسپورٹروں نے اس فیصلے کے خلاف دس دن سے ہڑتال کررکھی ہے۔ کراچی کی بندرگاہ پردرآمدی سامان کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ ہماری برآمدات بھی اس بندرگاہ تک پہنچ نہیں پارہی ہیں۔ سندھ کا وزیر اعلیٰ اس خوفناک کاروباری جمود کا حل ڈھونڈنے میں ناکام نظر آیا اور ’’غیر سیاسی‘‘ گورنر کو اپنا جلوہ دکھانے کا موقعہ مل گیا۔
’’غیر سیاسی‘‘ گورنر کی پھرتیاں مگر سندھ کے منتخب وزیراعلیٰ کو،جو آئین میں ہوئی 18 ویں ترمیم کی بدولت بہت بااختیار سمجھاجاتا ہے،ایک ’’نکمّے اور بے اثر‘‘ شخص کی صورت پیش کررہی ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ مراد علی شاہ اپنے بارے میں تیزی سے پھیلائے اس تاثر کو برداشت نہیں کر پائیں گے۔ وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان Show Down کا ساماں ہورہا ہے جس کا انجام کافی خوف ناک بھی ہوسکتا ہے۔