1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محسن خالد محسنؔ/
  4. خواجہ سرا: جنس، مذہب، قانون اور معاشرت کے تناظر میں

خواجہ سرا: جنس، مذہب، قانون اور معاشرت کے تناظر میں

آج میرے پاس کُھلے پیسے نہیں ہیں، اگلے اتوار کو ڈبل دے دوں گا۔ کوئی بات نہیں صاحب۔ اللہ آپ کو بہت دے۔ اگر تمہیں جلدی نہیں ہے تو گھر آؤ، بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔ نہیں پھر کسی دن۔ یہ تو آپ ہر اتوار کو کہتی ہیں۔ آج گھر میں کوئی نہیں ہے آجائیں۔ ثنا نے شرماتے ہوئے گھر میں قدم رکھا۔ ثنا یعنی ہمارے علاقے کا مشہور خواجہ سرا، ہر اتوار کو ہمارے محلے میں ٹولی کرنے یعنی نذرانہ لینے آتا ہے۔

اس خواجہ سرا، کو میں گزشتہ پانچ برس سے دیکھ رہا ہوں۔ اس کی گفتگو، پہناوے، ملن جلن اور طرز معاشرت سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے بدن کی تراش خراش عورتوں سے مشابہ ہیں۔ پستان بھی اپنے ابھار میں کشش رکھتے ہیں اور پُشت کے کوہلوں کا اُبھار تو جان لیوا ہے۔

چہرے پر کوئی نشان اور دھبا موجود نہیں، گورا، چٹا رنگ، داڑھی کے اثر کا شائبہ تک نہیں، بال لمبے اور گھنیرے، ہونٹ شاعرانہ اور رخسار گل بداماں۔ بدن کا جملہ خمار عورت سے زیادہ پُرکشش ہے۔ پاؤں بھی نرم و نازک اور ہاتھ تو جیسے ریشم کے گولے سمجھیے۔ یہ خواجہ سرا، ایک خوبصورت اور پُرکشش خاتون سے زیادہ مجھے ہونٹ کرتا ہے۔

اسے دیکھ کر مجھے شہوت نہیں ہوتی، فرطِ عقیدت سے گلے لگانے کو جی چاہتا ہے عجیب بات یہ کہ اس کے پُرکشش بدن سے جنسی تسکین حاصل کرنے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی۔ اس خواجہ سرا کی گفتگو میں کبھی پست اور غیر معیاری الفاظ نہیں سُنے۔ ثنا، اُردو میں بات کرتی ہے اور کبھی کبھی انگریزی کے الفاظ بھی استعمال کرتی ہے۔

ثنا سے روبرو بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن یہ جانتی ہے کہ میں ایک پڑھا لکھا چور، ہوں جو اس کی محرومیوں اور ذات کے نقص کو ہدف ملامت بناکر ایک کہانی لکھے گا اور سرِ عام اِس کی جگ ہنسائی کا لوگوں کو موقع فراہم کرے گا۔

چندماہ قبل اس پر ایک نظم لکھی تھی، جس کا پرنٹ اس کے ہاتھ پر رکھا، وہ گھبرا گئی اور کہنے لگی، صاحب! آپ اس طرح کی نظمیں لکھ کر ہمارا دل دُکھاتے ہیں، آپ ہمیں سمجھتے ہیں، ہم وہ نہیں ہیں جو آپ سمجھتے ہیں۔ ہم ایک مٹے ہوئے خاندان کے آخری چراغ ہیں جسے بادِ مخالف نے ہمیشہ کے لیے بجھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے۔

صاحب! ہمارا تو گمنامی کے عالم میں وقت گزر رہا ہے، آپ جیسے صاحبان مدد کر دیتے ہیں، کسی نے رہایش دے رکھی ہے اور کوئی کھانے پینے کا بندوبست کر دیتا ہے۔ میرے پاس دُعائیں دینے اور خوش ہو کر رقص کے ذریعے محبت کا جواب دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ثنا سے باوجود کوشش کے جب کوئی بات نہ ہوسکی تو میں نے ضد کرنا چھوڑ دی۔ بغیر ناغہ کیے ہر روز اتوار کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوتی ہے، میں اُس کی مددکر دیتا ہوں، وہ شکریہ ادا کرکے چلی جاتی ہے۔

انگریزی میں خواجہ سرا کو Shemale، transgender، ladyboy کہتے ہیں۔ اُردو زبان میں اس صنف کو "ہیجڑا، کھسرا، زنخا، خواجہ سراء"کے ناموں سے جانا جاتا ہے جبکہ عربی میں ان کو "مخنث" کہا جاتا ہے۔ "خواجہ" فارسی کا لفظ ہے اور اس کی جمع خواجگان، ہے۔ خواجہ "سردار/آقا "کو کہتے ہیں۔ لغت کے مطابق توران میں سادات کا لقب تھا جیسے خواجہ معین الدین۔ لفظ خواجہ کا مطلب ہے "افسر" اور "سرائے" کا مطلب ہے "رہنے کی جگہ"۔ ان کو "محلّی" بھی کہتے ہیں۔

مغلیہ دور میں بادشاہوں نے درباروں میں اپنی بیویوں کے رہنے کی جگہوں پر اس کمیونٹی کو ملازمت دی اور ان کو "سرا" کا افسر یعنی "خواجہ سراء"کے لقب سے نوازا۔ تب سے اب تک ان کے لیے یہ لفظ قدرے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ مگر اب یہ خواجے یعنی افسر تو نہیں ہیں بس سرائے میں ہی قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ عرف عام میں خواجہ سرا، وہ غلام جو نامرد ہو اور گھر میں زنانہ کام کرتا ہو۔ یہ امیروں اور بادشاہوں کے زنانہ محل کی دربانی کرتے ہیں اور زنانے یعنی فیمیل اپارٹمنٹ میں آنے جانے کی انھیں اجازت بھی ہوتی ہے۔

رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں یہ جنس موجود تھی، بعض کے نام بھی ملتے تھے کہ وہ "معیت، نافع، ابوماریہ الجنّہ اور مابور" جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے۔ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شرائع اسلام ادا کرتے تھے۔ نمازیں پڑھتے تھے، جہاد میں شریک ہوتے اور دیگر امور بجا لاتے تھے۔

رسول اللہ ﷺ ان کے متعلق پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ یہ بے ضرر مخلوق ہے۔ آدمی ہونے کے باوجود انھیں عورتوں کے معاملات میں چنداں دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے آپ ازواج مطہرات کے پاس آنے جانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن جب آپ کو پتہ چلا کہ انھیں عورتوں کے معاملات میں خاصی دلچسپی ہی نہیں بلکہ یہ لوگ نسوانی معلومات بھی رکھتے ہیں تو آپ نے انھیں ازواج مطہرات اور دیگر مسلمان خواتین کے ہاں آنے جانے سے منع فرما دیابلکہ انھیں مدینہ بدر کرکے "روضہ خاخ، حمرآءالاسد اور نقیع" کی طرف آبادی سے دور بھیج دیا، تاکہ دوسرے لوگ ان کے برے اثرات سے محفوظ رہیں۔ (صحیح بخاری، المغازی: 4234)

رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو حکم دیا کہ "انھیں بے ضرر خیال کرکے اپنے پاس نہ آنے دیں، بلکہ انھیں گھروں میں داخل ہونے سے روکیں"۔ (صحیح بخاری، النکاح: 5235) رسول اللہﷺ کے پاس ایک ایسا مخنث لایا گیا جس نے عورتوں کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ یہ ازخود عورتوں جیسی چال ڈھال پسند کرتا ہے تو آپ نے اسے مدینہ بدر کرکے علاقہ نقیع میں بھیج دیا، جہاں سرکاری اونٹوں کی چراگاہ تھی۔ (ابو داؤد، الادب: 4928)

خواجہ سرا کمیونٹی کے بیسویوں افراد سے بات کرنے کا موقع ملا ہے۔ قسم قسم کی ذہنیت سے سابقہ پڑا ہے۔ خواجہ سرا، کمیونٹی میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں جن میں ستر فیصد تعداد فیک یعنی خود ساختہ خواج سراؤں کی ہے جو حالات سے تنگ آکر یا جنسی خواہش کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے یا عضو تناسل کے بہت چھوٹا ہونے کی وجہ سے، غربت کی وجہ سے، بچپن میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے کی وجہ سے، حادثات کی نذر ہونے کی وجہ سےیا، بائیو لوجیکل ڈیفیشینسیز کی وجہ سے یا کئی اور عوارض و عوامل کی بنا پر، اصل خواجہ سراؤں، کا حق مار رہے ہیں۔

یہ وہ خواجہ سرا ہیں جو آپ کو گلی محلوں اور کوچوں بازاروں سے لے کر مرکزی شاہراہوں پر بھیک مانگتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ان کے ظاہری حُلیے سے باآسانی ان کے پورے مرد ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان جعلی خواجہ سراؤں کی تعداد آئے روز بڑھ رہی ہے۔ اس قبیل کے خواجہ سرا، سار دن بھیک مانگتے ہیں، شام کے بعد جسم فروشی سے اپنے معاملات کی انجام دہی کو ممکن بناتے ہیں۔

ہمارے گاؤں کے ساتھ ایک گاؤں ہے جہاں سال میں دو، بار خواجہ سراؤں کا میلا لگتا ہے جو پندرہ دن مسلسل جاری رہتا ہے۔ اس میلے کے انعقاد میں سرکار مست سرکار بہڑوال، چونیاں، قصور کا نام لیا جاتا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اللہ کا ایسا ولی ہے جس کے پاس خواجہ سراؤں کی عقیدت مندی پوری دُنیا میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔

یہ درویش اب دُنیا میں موجود نہیں ہے لیکن اس کے دربار پر سال میں ایک بار پاکستان بھر میں رہنے والے خواجہ سراؤں کی حاضری لازمی تصور کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں لاہور، اسلام آباد، ملتان، فورٹ عباس، فیصل آباد، ننکانہ صاحب، قصور، کوئٹہ، کراچی سے متصل دوستوں سے میں نے ذاتی طور پر پوچھا تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ خواجہ سراؤں کی مانت کا مرکزی مقام بہڑوال ہے جہاں ایک زمانے تک بہت عقیدت مندی تھی تاہم اب بہت حد تک گھٹ گئی ہے۔

رب تعالیٰ نے مرد، عورت کے بعد تیسری نسل خواجہ سراؤں کی پیدا کی ہے جس کے بارے میں مذہبِ اسلام کے داعیان کے ہاں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اہل علم حضرات انھیں تیسری جنس قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ ان کا مقدمہ یہ ہےکہ تیسری جنس کا تصور کسی بھی مذہب میں موجود نہیں ہے۔ مذہب سے ہٹ کر اگر معاشرت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں یہ جنس پاکستان کے علاوہ دُنیا بھر میں کثیر تعداد میں موجود نظر آتی ہے۔ اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان و ہندوستان یعنی برصغیر سے متصل آبادیوں کے علاوہ دیگر بستیوں میں خواجہ سراؤں کے حقوق کا خیال کسی حد ضرور رکھا جاتا ہے۔

اس ضمن میں شعور بہت ہی کم ہے۔ خواجہ سراء کمیونٹی کی شادی پر ان کے اپنے ہی گھر والے پولیس کا چھاپا ڈلوا کر ہم جنس پرستی کی دفعہ لگوا کر ان کو ذلیل کرتے ہیں یعنی ایک تو گھر سے نکال دیا اور جب وہ لوگ اپنی فیملی شروع کرنے کا سوچیں تو اس کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ اس بارے میں اپنی قانونی طور پر کئی سقم موجود ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت اس معاملے میں صفر ہے۔ یہ لوگ شادیوں میں ناچتے گاتے ہیں، تماشا کی جگہوں پر لوگوں کے سامنے ناچتے ہیں، ہمارے بچے پیدا ہونے پر خوشیاں بکھیرنے آتے ہیں۔ ہماری ہر خوشی میں خوش ہوتے ہیں مگر ان کی اپنی زندگی میں خوشی دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ان کی زندگی میں سالگرہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ عید شب رات اور دیگر مذہبی تہواروں پر بھی ان کے اپنے ان سے نہیں ملتے۔ وہ لوگ مسجد مندر چرچ بھی جائیں تو نفرت سے دیکھے جاتے ہیں۔

کیا خواجہ سرا، صرف ناچ گانے اور بھیک مانگنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور جنسی تسکین و لواطت کا سامان فراہم کرنے کے لیے دستیاب ہوتے ہیں یا یہ کوئی تعمیری کام بھی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہےکہ اکیسویں صدی کے جدید سماج میں مرد و عورت کے مقابلے میں خواجہ سرا، ذہنی لیاقت کے اعتبار سے کسی سے کم نہیں ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔

پاکستان، کراچی کی 27 سالہ ڈاکٹر سارہ گل نے پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ڈاکٹر بن کر تاریخ رقم کردی۔ انھوں نے جنوری 2022ء میں ڈگری پاس کی۔ پاکستان کے مقامی ٹی وی چینل"کوہ نور" نے ایک خواجہ سرا "مارویہ ملک" کو بطور نیوز کاسٹر متعارف کروایا ہے جس کے بعد سوشل میڈیا پر اس صنف کی صلاحیتوں کو سراہا جا رہا ہے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ، پنجاب سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا ٹیچر "مس فیضی" جو کہ تعلیم و تربیت کے پیشے سے منسلک ہیں اور پاکستان میں ایم (اُردو) فل کرنے والی تیسری خواجہ سرا ہیں۔ انہیں ان کے گھر والوں نے ٹھکرا دیا تھا لیکن زندگی بنانے کی لگن نے تعلیم سے دوبارہ جوڑ دیا۔ تن تنہا اپنے بل بوتے پر زندگی کے مشکل مراحل طے کئے متبادل روزگار کے طور پر خواتین کے ملبوسات تیار کئے اور بیچ کر گزارا کیا ساتھ ساتھ اعلی تعلیمی مدارج طے کئے۔ اب ایک مقامی سرکاری کالج میں لیکچرار ہیں۔ یہ نوکری بھی قانونی جنگ لڑ کے قابلیت کے بل بوتے پر حاصل کی۔ مس فیضی تدریس کے ساتھ علامہ اقبال پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔

تعلیم و مذہب و سائنس کے میدان کے علاوہ سیاست میں بھی خواجہ سرا کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ نایاب خواجہ سرا نے پہلی بار سیاست کے میدان میں عملی قدم رکھا جس کے چہرے کو تیزاب کے ذریعے جھلسانے کی کوشش کی گئی تھی۔ نایاب کے مطابق وہ پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ہیں جنہوں نے سابق رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کی پارٹی کے ٹکٹ پر اپنے شہر اوکاڑہ سے 2018 میں الیکشن بھی لڑا۔ جس میں انہیں 1197 ووٹ ملے۔

اسلام آباد کے نواحی علاقے میں ایک خواجہ سرا نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک مدرسہ قائم کیا ہے جہاں صرف خواجہ سراؤں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ خواجہ سراؤں کا اولین مدرسہ ہے، مدرسے کی سربراہ 34 سالہ خواجہ سرا، رانی خان روزانہ خواجہ سراؤں کو قرآن مجید پڑھاتی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا کو پہلی مرتبہ جرگہ ممبر منتخب کر لیا گیا ہے، پشاور سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراء ثوبیہ خان کو شہر میں تمام ڈی آر سیز کا رکن منتخب کیا گیا۔

ڈاکٹر مہروب اعوان خواجہ سراء کمیونٹی میں نہ صرف اپنی ذہنی لیاقت، دانائی اور منفرد سوچ کی وجہ سے نمایاں نام رکھتی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی پشاورکے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں اس کو شامل کیا گیا ہے۔ یوٹیوب پر اس کے دسیوں انٹرویوز موجود ہے۔ یہ پاکستان کی غالباً پہلی میڈیکل سرٹیفائیڈ ڈاکٹر ہیں جنھوں نے خواجہ سرا کی مخصوص جنس پر امریکہ میں ریسرچ کی ہے۔ ڈاکٹر مہروب اعوان کو سننے کے بعد آپ کے سوالا ت کے جوابات مل جائیں گے۔

مذکورہ پڑھی لکھی خواجہ سراؤں کے علاوہ سینکڑوں ایسی خواجہ سرا موجود ہیں جو اپنی ذہانت، لیاقت اور قابلیت کے اعتبار سے دُنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم پورے مرد اس معاملے میں اس جنس کا کہاں تک ساتھ دے سکتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں خواجہ سراؤں کی پیدائش کے بارے میں عجیب و غریب تصورات پائے جاتے ہیں۔ مذہبی نکتہ نظر سے دیکھیے توسب سے زیادہ ذہنوں میں ناسور کی حد تک پلنے والا تصور یہ ہےکہ جس شخص پر رب تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اُس کے گھر میں خواجہ سرا پیدا ہوتا ہے جو اسے عبرت دلانے اور معاشرےمیں مکافاتِ عمل کا شاخسانہ ہے۔

یہ ایک فضول، لایعنی اور عقلی و سائنسی منطق سے پرے کا تصور ہے جس میں کوئی صداقت اوراصلیت موجود نہیں ہے۔ سائنس نے خواجہ سراؤں کی جنس کے بارے میں تحقیق کے ذریعے ثابت کر دیا ہے کہ میٹنگ کے بعد حمل ٹھہرنے کے معاملات میں کروموسوم اور سپرم کے باہمی ملاپ سے کہاں بائیو لوجیکل ڈیفی شینیسز اور ہارمونل کنٹراس کے نتیجے میں XY سپرم کے ساتھ Y47 سپرم پیدا ہوتا ہے جس سے ٹرانس جینڈر کی پیدایش ہوتی ہے جو ایک نارمل اور فطری عمل ہے جسے قبول کرنے میں کوئی عار نہیں ہے۔

اسے یوں سمجھیے، ڈیٹنگ کے عمل میں مرد و عورت کے اختلاط کے دوران سپرم کے جوڑے بنتے ہیں جو عورت کی بچہ دانی میں محفوظ ہونے کے بعد حمل کے ٹھہرنے کا عمل انجام دیتے ہیں۔ ہمارا 23واں کروموسوم کا جوڑا جنس کا تعین کرتا ہے۔ XX ہو تو لڑکی اور اور XY ہو تو جسمانی خدوخال اور ساخت لڑکوں کی ہوتی ہے۔ اس سنڈروم میں 23 واں کروموسوم کے ساتھ ایک X کروموسوم اضافی جڑ جاتا ہے۔ اگر XY کے ساتھ جڑ جائے تو اسے XXY 47 کہتے ہیں۔ یعنی ہے وہ لڑکا ہی مگر جنس تعین والے کروموسوم میں ایک X ایکسٹرا کاپی ہونے کی وجہ سے جسمانی ساخت اور ہارمونز میں قدرتی طور پر تقریباً 33 فیصد لڑکیوں والی عادات و خصائل آجاتی ہیں۔ یوں سمجھیں دو حصے مرد اور ایک حصہ عورت۔ یعنی جسمانی ساخت میں بدلاؤ کے ساتھ نفسیات میں 33 فیصد رجحان فی میل سائیکالوجی کا ہوتا ہے۔

اس عمل کو انگلش میں "انٹر سیکس" کہا جاتا ہے۔ یعنی جنسی اعضاء کا واضح نہ ہونا یا مکس ہونا، یا نمایاں نہ ہونا۔ "ٹرانس جینڈر" ایک الگ اصطلاح ہے۔ یعنی وہ لوگ جو جسمانی طور پر مکمل لڑکا اور لڑکی ہوتے ہیں، بس ذہنی طور پر اپنی جنس کو بہ حیثیت لڑکا/لڑکی قبول نہیں کرتے۔ یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ ہمارا موضوع وہ لوگ نہیں ہیں۔

انٹر سیکس میں ایک ایکس زیادہ ہونے کی وجہ سے ہی اس سنڈروم کا شکار Male کو X فی میل کروموسوم کی وجہ سے Shemale بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ بس ایک آپریشن کروا کر شادی بھی کر سکتی ہیں مگر اس کے بعد ہارمونل بیلنس رکھنے کے لیے کچھ دوائیں کھانا ہوتی ہیں جو حمل وغیرہ اور جنسی صحت کو متاثر کر سکتی ہیں۔

پوری دُنیا میں خواجہ سراؤں کی زندگی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور فلمیں بھی بنتی رہتی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں ٹاپ ٹرینڈ رہنے والی فلموں میں "بول، شناخت، رانی، جوائے لینڈ، بی اے پاس، جھگی، گنگو بائی کاٹھیا واری" وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

پاکستان میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ ایک تو ان لوگوں کا علاج نہیں ہو پاتا، دوسرا والدین ان بچوں کے مسائل کو سرے سے سمجھ ہی نہیں پاتے۔ XXY 47 ہوتا تو دیکھنے میں لڑکا ہی ہے مگر رجحان عادات و اطوار لڑکیوں والے ہوتے ہیں۔ میک آپ کرنا، بال لمبے کرنا اور لڑکیوں جیسی باتیں کرنا ان کی سرشت میں شامل ہوتا ہے جسے نظر انداز کرکے ان بچوں پر جسمانی و ذہنی تشدد و ظلم کیا جاتا ہےکہ وہ ان چیزوں کا اظہار نہ کریں اور خود کو مرد ظاہر کریں۔

نوبت یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ والدین معاشرے کے دباؤ کے خوف سے انھیں گھر سے نکال دیتے ہیں۔ یہ بچے بے یارومددگار خواجہ سراء کمیونٹی میں جا کر پناہ لے لیتے ہیں۔ والدین، بہن بھائی اور رشتے دار ان سے ہر قسم کا ناتا توڑ دیتے ہیں مرنے کے بعد بھی ان کی میت کو گھر میں لانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ خواجہ سراؤں کی وفات کے جملہ انتظامات ان کا "گرو" اور کمیونٹی ہی کرتی ہے۔ خواجہ سراکمیونٹی میں "گرو" باپ کا درجہ ہوتا ہے جو ان کے محافظ اور جان و مال و عزت کے رکھوالے ہوتے ہیں۔ باپ اگر اپنی شناخت اس بچے کو دینے سے انکاری ہے تو یہی "گرو" باپ کے خانے میں اپنا نام لکھواتا ہے جو دراصل ایک باپ کی طرح اس کی حفاظت و نگہبانی کے فرائض انجام دیتا ہے۔

پاکستان میں اس جنس کو ابھی وہ حقوق میسر نہیں ہیں جو انھیں بہر صورت ملنے چاہئیے کہ بہ حیثیت انسان یہ ان کا حق ہے اور ریاستِ پاکستان انھیں بنیادی ضروریات کے ساتھ ان کے والدین کے حصے سے ملنے والی وراثت منقولہ و غیر منقولہ میں حصہ دلوانے میں قانون سازی کے علاوہ علمی اقدامات بھی کرے۔

پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد یوں تو لاکھوں میں ہے لیکن جن کے شناختی کارڈ بن چکے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ خواجہ سراؤں کی دو تہائی تعداد وہ ہے جو مردوں کی سبھی صفات رکھتے ہیں، ان کے شناختی کارڈ بھی مردوں والے ہیں اور حرکات و سکنات بھی مردوں والی ہیں، لیکن حلیہ اپنا خواجہ سراؤں والا بنا کر بھیک مانگنے اور جسم فروشی کےمکروہ فعل میں یہ تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ اصل اور جعلی خواجہ سرا میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

خواجہ سرا مرد، عورت کے درمیان تیسری صنف ہیں۔ پاکستان میں سرکاری طور پر مردم شماری میں ان کی تعداد الگ شمار کی جاتی ہے، پاکستان کی خواجہ سرا کی ایک رپورٹ کے مطابق کل آبادی میں 21744 ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کے ووٹ کی تعداد 10400 ہے۔ دراصل یہ کمیونٹی برس ہا برس سے شناختی کارڈ کے حق سے محروم رکھی گئی ہے اس لیے لاکھوں خواجہ سرا، بغیر پاکستانی شناخت کے دُنیا میں بے عزت و ذلیل ہو کر گمنامی کی موت مر چکے۔

پاکستان میں ٹرانس جینڈر کے شناختی کارڈ اور وراثت میں حصے کے اسباب مرد، عورت اور ایکس کیٹگری کے حوالے سے جب مسئلہ پیدا ہوا تو حکومتِ پاکستان نے ایک قانون پاس کیا جس کے مطابق جو مرد خود کو عورت تصور کرتا ہے اور اپنے جسمانی جنسی اعضا سے میڈیکل چیک آپ کے ذریعے تصدیق کروا لیتا ہے وہ مرد کی حیثیت سے باپ کی وراثت میں حصہ لے سکتا ہے اور جس خواجہ سرا کے جنسی اعضا میں عورت کی مشابہت زیادہ پائی جاتی ہے اُسے وراثتِ منقولہ اور غیر منقولہ سے آدھا حصہ ملے گا۔

ڈاکٹر مہروب اعوان پاکستان کی مشہور خواجہ سرا ہے جس کی میڈیکل ایجوکیشن میں ٹرانس جینڈر پر تعلیم و ریسرچ ہے۔ ڈاکٹر مہروب نے عدالت میں اس کیس کو اپنی کمیونٹی کے دفاع میں کمال جرات سےلڑا۔ جینڈر کے تعین کے حوالے سے ان کا کہنا ہے: "جینڈر تبدیل نہیں ہوتا بلکہ اس کی تصحیح یعنی درستی ہوتی ہے۔ پاکستان کے قانون کے آپ اپنا جو جنس مارکر شناختی کارڈ میں مرد سے"خواجہ سرا مرد" یا عورت سے "خواجہ سرا، عورت" کرا سکتے ہیں۔

عورت سے خواجہ سرا، آج تک میرے خیال سے ایک انسان نے کرایا جو نادرا، کا اپنا ڈیٹا ہے (اس کی وجائنا تھی جسے میڈیکل بورڈ نے منظور کیا تھا)۔ مرد سے خواجہ سرا، کی جنسی تبدیلی پاکستان میں میرے خیال سے 5600 افراد نے کروایا ہے، خواجہ سرا کے اندر تین کیٹگریز ہیں "خواجہ سرا مرد " یعنی آپ کی جسمانی حالت زیادہ مردانہ ہے (نارملی بیسکلی پینس جو آپ کا پرائیویٹ پارٹس ہیں وہ پینس سے مشابہ ہیں زیادہ وجائنا کے) دوسرا "خواجہ سرا عورت" وہ یہ ہے کہ آپ کے پرائیویٹ پارٹس زیادہ فیمیل(وجائنا) سے مشابہ ہیں۔

تیسرا ہمارے پاس ہوتا ہے "خنثیٰ مشکل" جس میں یہ کہ آپ کے جو جنیٹلز ہیں جو آپ کے پرائیویٹ پارٹس (وجائنا، عضو تناصل) ہیں وہ مبہم ہیں جس سے صنف کا تعین کرنا مشکل ہوتا ہے۔

یہ تین کیٹگریز ہیں اور یہ تین کیٹگریز اس لیے ہیں کیونکہ اس پر آپ کو وراثت میں حصہ ملتا ہے۔ پاکستان میں بیشتر افراد کا جنس "خواجہ سرا مرد" ہوتا ہے۔ چند ایک کا "خواجہ سرا عورت" لکھا ہوتا ہے۔ "خواجہ سرا مرد کو "بیٹے کا حصہ" ملتا ہے اور "خواجہ سرا عورت" کو "بیٹی کا حصہ" ملتا ہے اور "خنثیٰ مشکل کو "بیٹے اور بیٹی کا حصہ کیلکولیٹ کرکے ان کا ایوریج نکال کے دیا جاتا ہے۔

جب نادرا میں آپ اپنا جینڈر چینج کرانے کے لیے جاتے ہیں تو آپ کو باقاعدہ بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک ون ٹائم چینج ہے ابھی آپ جینڈر چینج کرا رہی ہیں اس کے بعد آپ صرف ایک دفعہ دوبارہ چینج کرا سکتے ہیں وہ بھی رپورٹ کی صورت میں۔ میل سے ایکس یا میل سے خواجہ سرا۔ بیسکلی ہم لوگ گھس رہے ہیں کہ عورت کا شناختی کارڈ دے دو۔ یہاں تو عورت کا ملتا ہی نہیں ہے، ایکس کا ملتا ہے۔

مرد سے خواجہ سرا عورت کا کارڈ اگر آپ نے بنوانا ہے تو اس کا تعلق ٹرانس جینڈر قانون سے نہیں ٹرانس کیس لاء سے ہے جس کا عدالتوں نے فیصلہ کیا ہوا ہے جبکہ خواجہ سرا، عورت کے لیے آپ کا پورا میڈیکل چیک آپ ہوگا۔ اس میں الٹراساؤنڈ بھی ہوتا ہے، اس میں سب کچھ ہوتا ہے، ڈاکٹرز کا بورڈ فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو میل اور فیمل ڈیکلئر کرنا ہے۔ میرے خیال سے آج تک کسی کا بھی کوالیفائی ٹو بی فیمیل نہیں ہوا۔ ایک کیس میں ہوا ہے کہ اس خواجہ سر کی وجائنا تھی"۔ (https: //shorturl. at/wKr8F)

مفتی محمد اسماعیل تورو، نے بھی ڈاکٹر مہروب اعوان کے مذکورہ بیان کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے: "بالغ ہونے سے پہلے اگر وہ لڑکے کی طرح پیشاپ کرے تو اس کے احکام لڑکوں والے ہوں گے اور اگر لڑکی کی طرح پیشاپ کرے تو اس پر لڑکی کے احکام مرتب ہوں گے۔ بالغ ہونے کے بعد اگر اس کی داڑھی نکل آئے یا عورت سے ہمبستری کے قابل ہوجائے یا مردوں کی طرح اسے احتلام ہونے لگے تو وہ مرد شمار ہوگا اور اگر اس کا سینہ نکل آئے یا حیض آنے لگے تو اس پر عورت کے احکام مرتب ہوں گے اور اگر کوئی علامت بھی ظاہر نہ ہو اور پہچان مشکل ہو توپھر وہ خنثیٰ مشکل ہے۔ لہٰذا اس کے بارے میں تمام احکام میں احتیاط کی جائے (فتاویٰ شامی 6. 729، ط، سعید)(https: //shorturl.at/zgoIu)

یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ اس مضمون میں کوشش کے باوجود خواجہ سراؤں کے بارے میں جملہ معلومات کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ کسی اور مضمون میں اس موضوع سے متعلق مزید معلومات کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ خواجہ سرا، کمیونٹی کے حوالے سے اواخر میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کے لیے، جہالت سے باہر نکلیے۔

اگر آپ کے گھر میں کوئی خواجہ سرا پیدا ہو جاتا ہے تو اس سے لا تعلقی اختیار کرنے کی بجائے اسے دل وجان سے قبول کیجئے اور اسے وہی حقوق اور سہولیات دیجیے جو آپ اپنے دوسرے نارمل بچوں کو دیتے ہیں۔

یہ خناس ذہن سے نکال دیجیے کہ یہ ابنارمل ہوتے ہیں، یہ سپر نارمل ہوتے ہیں۔ انھیں رب تعالیٰ نے بہت سی ایسی صفات دی ہوتی ہیں جو مرد اور عورت میں عام طور پر نہیں پائی جاتیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ ان بچوں کو تھوڑی سی محبت، شفقت اور اپنائیت دیں گے تو یہ بچے آپ کا فخر بن جائیں گے۔ معاشرے کا دباؤ تو ہر دور میں رہا ہے ایک مضبوط ذہن ہمیشہ سے معاشرے کی قدامت پسندی سے بغاوت کرتا آیا ہے۔

قیامت کے دن یہ بچےخدا کے سامنے آپ کے روبرو ہوں گے اور سوال کریں گے کہ آپ نے انھیں پیدا کرنے کے بعد معاشرتی دباؤ کے خوف سے جیتے جی جہنم ایسی زندگی میں لاوارث تنہا کیوں چھوڑ دیا تھا؟ اس سوال کا جواب دینا پڑے گا۔ میدانِ حشر میں دیکھ لیں گے کہ ان بچوں کو رب تعالیٰ نے کیوں آپ کے گھر پیدا کیا تھا۔

خدا کے لیے اپنے ارد گرد ایسے پیدا ہونے والے بچوں پر نظر رکھیے۔ حوصلہ کرکے ان کی تربیت، تعلیم اور پرورش کا اہتمام کیجیے۔ انھیں ایک بہترین شہری بننے اور آئیڈیل لایف گزرانے میں اپنا حصہ ضرور ڈالیے۔

میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر رب تعالیٰ مجھے ایسا بچہ عطا کرے گا تو میں کمال شوق سے اس کی پرورش و تربیت اپنے دیگر بچوں سے زیادہ کروں گا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ مجھے اپنے اس بچے کے سامنے کسی بیانیے، نظریے، خوف، دباؤ، مصلحت اور شرمندگی کا وہم و ڈر نہیں ہے۔

محسن خالد محسنؔ

Mohsin Khalid Mohsin

محسن خالد محسن ؔ شاعر، ادیب، محقق، نقاد اور اُستاد ہیں۔ ان کے تین شعری مجموعے "کچھ کہنا ہے"، دُھند میں لپٹی شام"، آبِ رواں" شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کلاسیکی غزل میں تلمیحات کے موضوع پر ناردرن یونی ورسٹی نوشہرہ پی ایچ ڈی کی ہے۔ ان کے تیس سے زائد تحقیقی مقالات ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے مصدقہ رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے معروف ادبی رسائل وجرائد میں ان کے متفرق موضوعات پر مضامین شائع ہو تے رہتے ہیں۔ ادب، سماج، معاشرت، سیاست و حالاتِ پر ببانگِ دُہل اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔