صبح سویرے ٹھٹھرتی سردیوں کے بیچ نانبائی کی دوکان سے روٹی لاکر جب سلام خان گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے اسے کانگڑی پیش کی تاکہ پورے وجود کو گرمی سے تازگی بخشے۔ چلہ کلان کی سردیوں میں صبح گھر سے نکلنا اور افراد خانہ کے لئے دوکان سے روٹی وغیرہ کا انتظام کرنا ایک عمر رسیدہ شخص کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر سلام خان پچھلے کئی سالوں سے یہ کام بخوبی نبھاتا آیا ہے۔ نہ کسی سے کوئی گلہ نہ ہی کوئی شکایت کبھی کی ہے۔ لیکن آج صبح کی چائے نوش کرکے وہ نہ جانے کن گہری سوچوں میں گم ہوا ہے۔ نہ کسی سے کوئی بات کی نہ ہی آج کا اخبار ہاتھ میں لیا تاکہ گھروالوں کو روز کی طرح تازہ سرخیاں سنائیں۔۔
اس کی بیوی سے رہا نہ گیا اور وہ اس سے پوچھ بیٹھی۔۔
کیا ہوا میاں؟ آج خاموش کیوں بیٹھے ہو۔ روٹی لا کر آپ نے چائے تو پی لی لیکن گم صم کیوں لگ رہے ہو؟
سلام خان اپنی طویل خاموشی کو توڑتے ہوئے۔۔ بیگم میں کیا بتاؤں تمہیں، آج میں گم صم نہیں بلکہ حیران اس وجہ سے ہوا ہوں کہ جاوید خواجہ نے اپنے بیٹے جو ملک کی نامور کمپنی ہالینڑ اپریٹس کا چیف ایکزیکٹیو ہے کی شادی گلہ خان کی بیٹی سے اپنی مرضی کے مطابق طے کی ہے۔ چند روز بعد ہی شادی کی رسم انجام پائے گی۔ دکان پر سبھی لوگ جو روٹیاں لانے کی غرض سے آئے تھے یہ کہہ رہے تھے۔ وہ بھی سب اس بات پر حیران تھے کہ کہاں جاوید خواجہ کی امیری جس کو اپنی زمین جایداد اور دولت کا پتہ بھی نہیں ہے کہ کتنے کروڑوں کا مالک ہے اور کہاں گلہ خان جو ایک معمولی چھپر میں زندگی کے ایام گزار رہا ہے اور مشکل سے اپنے عیال کو پال رہا ہے۔۔
اسی بیچ سلام خان کا دوست اکبر بھی اسے ملنے آیا۔۔
اکبر (علیک سلیک کے بعد)۔۔ سلام بھائی آپ دونوں کس بات پر محو گفتگو تھے۔۔
سلام خان نے اپنے دوست اکبر کو سارا قصہ سنایا۔۔
اکبر۔۔ میں نے یہ کب کا سنا ہے، دراصل بات اس طرح ہے کہ کووڈ کے دوران جب جاوید خواجہ اور اس کی بیوی کرونا جیسے مہلک اور جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوئے تھے اور ان کی حالت اس قدر بگڑی تھی کہ کوئی ہمسایہ یا رشتہ دار ان کا حال تک پوچھنے نہیں آتا تھا نہ ہی انہیں فون پر خبر گیری کرتا تھا تو اس وقت صرف اور صرف گلہ خان ان کی مدد کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔
اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر گلہ خان ان کے لئے سبزیاں، گوشت اور دیگر ضروریات دوکان سے لاکر دیتا تھا حتیٰ کہ کبھی کبھی تیار کرکے بھی دیتا تھا۔ جاوید خواجہ نے اسی وقت گلہ خان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی اس کی بیٹی سے کرانا چاہتا ہے جس پر گلہ خان نے انتہائی خوشی ظاہر کی تھی۔۔