وہ کتنے پیار سے اُسے دیکھ رہا تھا، مارے بوکھلاہٹ کے اُس کے ہاتھ سے گلاس چھٹتے چھٹتے رہ گیا، ہائے میں مر گئی! حیا سے اُس کے گال گلال ہو گئے، ہزاروں تتلیاں جیسے چاروں طرف اپنے رنگین پروں کے ساتھ اُس کے سامنے ناچنے لگیں، ہوا کا ایک سرور آفرین جھونکا اُس کے بالوں سے اٹھکیلیاں کرنے لگا، آج کل ہر چیز خوبصورت نظر آ رہی ہے اور ہر رنگ کچھ زیادہ ہی گہرا لگ رہا ہے، سماعت سے ٹکرانے والی آواز گویا کہ موسیقی بن گئی تھی۔
رشنا نے جب اس گھر کا کام سنبھالا تھا وہ بہت خوش تھی، صاحب اور بیگم صاحبہ بہت رحمدل لوگ تھے، تنخواہ کے علاہ اور بھی بہت چیزوں سے مدد کر دیا کرتے تھے، اِس گھر سے پہلے وہ جس گھر میں کام کرتی تھی وہ بہت سخت گیر لوگ تھے، بہت سختی سے کام لیتے تھے، اُن کے گھر کام کرتے ہوئے محسوس ہوتا تھاکہ شاید وہ انسان سے بھی کوئی کمتر مخلوق ہیں۔
جب سے اس بیگم صاحبہ نے اُسے اپنے گھر رکھا تھا، اُس کے وارے نیارے ہو گئے تھے بیگم صاحبہ اپنے پرانے کپڑے اُسے پہننے کو دے دیا کرتی تھیں، اُن کے خوبصورت کپڑے پہن کر اُس کا بس نہ چلتا کہ بادلوں کے ساتھ اُڑنا شروع کر دے، زندگی اتنی خوبصورت بھی ہو سکتی ہے اُس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا، اِس نئے گھر میں چھ افراد رہتے اور سب اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ آپس میں بھی کم ہی بات کرتے تھے، شروع شروع میں تو اُسے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ اتنا خوبصورت گھر اتنا بڑا لان۔۔ پھر بھی یہ لوگ بہت خوش کیوں نہیں لگتے۔
پھر اُس نے چپکے چپکے رشنا کو دیکھنا شروع کر دیا، پہلے پہل وہ سمجھی کہ شاید صاحب کو میرا کام پسند نہیں آیا، اُس نے اور زیادہ دلجمعی سے کام کرنا شروع کر دیا مگر پھر وہ سمجھ گئی اور یہ ادراک اُسے نئے جہانوں کی سیر کو لے گیا، جہاں تاروں بھرے آسمان کے نیچے دو محبت کرنے والے دل ملتے ہیں اور دنیا جنت بن جاتی ہے، وہ اُس سے بڑی عزت سے بات کرتا، عزت کس چڑیا کا نام ہے، اُس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا، یہ نعمت اچانک ہی اُس کی جھولی میں آ پڑی تو اُسے احساس ہواکہ وہ بھی انسان ہے اور عزت کیے جانے کے لائق ہے۔
جب بھی وہ گھر میں ہوتا اپنے کمپیوٹر پر کام کرتا رہتا اور کبھی کبھی کمپیوٹر سے نظریں ہٹا کر اُس کی جانب مسکرا کر دیکھ لیا کرتا، جیسے صدیوں کی جان پہچان ہو، وہ گھر سے باہر ہوتا تو اُسے اُس کا انتظار رہتا کہ گھر جانے سے پہلے ایک نظر دیکھ تو لے، اُس سے ملنے کے بعد جب وہ گھر کی طرف روانہ ہوتی تو گویا ہواؤں کے دوش پر اُڑی جا رہی ہو، تھکن کو کوئی احساس تک نہ ہوتا۔
ایک دن اُس نے اُسے اپنے کپڑے استری کو دیے تو اُسے لگا کہ وہ اُس کے قریب آ کر کچھ کہنا چاہ رہا ہو مگر بیگم صاحبہ کے ڈر سے کچھ نہ کہہ پایا، اُس کے وجود سے اُٹھتی مہک سے اُس پر ایک مد ہوشی سی چھانے لگی، وہ اُس خوشبو کو کبھی بھی بھلا نہ سکے گی، خوشبو اپنا راستہ دور تک بناتی ہے اور اِس خوشبو نے تو اُس کے شعور کی آخری حدوں کو بھی تسخیر کر لیا تھا۔
تاروں بھری رات میں جب وہ یہ خوشبو دھیان میں لاتی تو لگتا کہ جیسے رات کی رانی اور موتیے کے باغ میں کہیں کھو گئی ہے، ہر چیز دُھند سے نکل کر اُس کے سامنے صاف اور شفاف ہو کر نظر آنے لگی تھی۔
اُسے اپنا مستقبل بہت تابنا ک نظر آ رہا تھا، بیگم صاحبہ تو پہلے ہی اُس سے بہت خوش تھیں اور وہ تو دل و جان سے اُسے چاہتا تھا، وہ اپنے چھوٹے سے گھر کو چھوڑ کر اِس بڑے سے گھر میں آکر رہنے لگے گی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، اُپنے خیالوں کی رو میں وہ کہیں سے کہیں بہہ جاتی تھی۔
ایک روز وہ اُس کا کمرہ صاف کر رہی تھی کہ اُسے پانچ سو کا نوٹ پڑا ہوا ملا، نوٹ اُٹھاکر اُس کو واپس دینے کے ارادے سے باہر آئی تو وہ ناشتہ کر رہا تھا، وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی کہ صاحب
جی وہ یہ۔۔ نوٹ میز پر رکھ کر وہ جا ہی رہی تھی کہ اُس نے آواز دی۔۔
کہاں سے ملا؟ رشنا نے پلٹ کر دیکھا تو وہ والہانہ انداز میں اُس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔
سرشاری سے اُس کا انگ انگ خوشی سے ناچ اُٹھا۔۔
وہ جی کمرے میں تھا۔ نظریں جھکا کر اُس نے جواب دیا۔
یہ تم ہی رکھ لو، عید آنے والی ہے نا! تم اپنے لیے چوڑیاں خرید لینا۔ اُس نے بہت اپنائیت سے اُس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور جلدی سے باہر کی جانب روانہ ہوگیا۔
کاش کہ وقت ٹھہرجاتا، آنکھیں بند کرکے اُس نے خود کو رنگ برنگی چوڑیوں میں پایا، یہ چوڑیاں اُس کے اِرد گرد قوس قزح کے رنگوں کی طرح چھنکتی رہیں۔ لال، ہری، نیلی، پیلی، جامنی، گلابی۔۔ وہ اس قوس قزح پر چلتے ہوئے اپنے خوابوں کی دنیا میں کھو جانا چاہتی تھی، کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔
ایک دن صبح سویرے جب وہ کام پر پہنچی تو گھر میں کچھ معمول کے خلاف چہل پہل دیکھی، بیگم صاحبہ نے خاص طور پر تنبیہ کی کہ آج ذرا اچھی طرح صفائی کر لینا کچھ خاص مہمان آنے والے ہیں اور وہ ہر چیز کو جھاڑ پونچھ کر نیا نکور بنانے میں مصروف ہوگئی۔ بیگم صاحبہ نے کہا کہ آج شاید کام کرتے کرتے دیر ہو جائے گی، ہم تمہیں خود ہی گاڑی سے تمہارے گھر چھوڑ آئیں گے۔
شام ہوئی تو گھر میں چہل پہل اور زیادہ ہوگئی مہمان بھی آنا شروع ہو گئے، جب پورا ڈرائنگ روم مہمانوں سے بھر گیا تو وہ اپنے کمرے سے نکل کر آیا، اُسے دیکھ کروہ ششدر ہی رہ گئی۔ اِس قدر اچھا لگ رہا تھا جیسے پریوں کے دیس سے کوئی شہزادہ کہانی سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آنکلا ہو، وہ مہمانوں سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا اور پھر اُسے یاد نہیں کہ کس نے اُسے بتایا کہ اُس کی شادی ہونے والی ہے۔
شادی؟ وہ بھی اُس کی؟ کسی اور سے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
وہ والہانہ انداز، وہ میٹھی میٹھی باتیں۔۔ نہیں وہ ایسا نہیں کر سکتا، اُس کے دل نے کمزور سی دلیل دی، مگر اُسے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ وہ اپنی ہونے والی سسرال سے بہت خوش ہے اور سب کو عزت دے رہا ہے، میرے ساتھ کہیں کوئی مذاق تو نہیں کر رہا ہے وہ؟
رات گئے تک وہ کچن میں صفائی کرتی رہی، بیگم صاحبہ بھی تھک چکی تھیں، اُنھوں نے اُسے آواز دی۔۔
ارے سنو بیٹا! ذرا اِس بیچاری کو اِس کے گھر تو چھوڑ آو، بہت رات ہوگئی ہے، اکیلی کیسے جائے گی؟
اُس نے خوشی خوشی گاڑی نکالی اور اُسے گاڑی میں بٹھا کر روانہ ہوگیا، راستہ بھر وہ خاموش رہا اور پھر جب اُس کا گھر آگیا تو اُس نے اپنی پوری ہمت مجتمع کرکے اُس سے پو چھا۔۔
صاحب جی کیا آپ اِس شادی سے خوش ہیں؟
اُس نے حیرت سے اُس کی آنکھوں میں جھانکا اور جواب دیا۔۔
ہاں یقیناً، پھر کچھ سوچ کر اُس نے اپنی جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر اُس کی طرف بڑھا دیا۔۔
لو۔۔ یہ رکھ لو۔
مگر۔۔ میں تو۔
وہ کچھ بولنا چاہ ہی رہی تھی کہ اُس نے زن سے گاڑی آگے بڑھا دی اور گاڑی کے ساتھ ہی وہ تاروں بھرا آسمان بھی اپنے ساتھ لے گیا جو اُس کے سر پر سایہ فگن تھا۔