وہ دونوں میاں بیوی اپنے دو کمسن بچوں کے ساتھ ایک چھوٹے کچے اور پرانے کمرے میں جو لگ بھگ بوسیدہ ہو چکا تھا، میں زندگی کے دن کاٹ رہے تھے۔ ہر راہ چلتا مسافر اور اپنے دوست احباب انہیں اکثر طعنے دیتے تھے کیونکہ صاحب ثروت اور مالدار ہونے کے باجود بھی وہ پچھلے تین سالوں سے اسی ایک چھوٹے کمرے میں اچھی طرح جی رہے تھے۔ وہ مین روڈ کے دہانے پر واقع تھا اس لیے جو بھی شخص اس راہ سے گزرتا تھا انہیں کچھ نہ کچھ بول کے ہی آگے کی راہ لیتا تھا۔۔
عابد (جو عمران کو بچپن کا دوست تھا)۔۔ عمران بھائی آپ کو ہوا کیا ہے، اتنی کمائی اور دولت جمع ہونے کے باجود بھی آپ اپنے ان چھوٹے اور ننھے منے پھول جیسے بچوں کے لئے ایک پختہ مکان تعمیر نہیں کرواتے ہو۔ کیوں آپ نے خود کو اور ان بچوں کو اس ایک چھوٹے کمرے میں گویا قید کروایا ہے۔ اگر آپ کو پیسے کی عارضی قلت اس وقت ہے تو فکر مت کرنا میں آپ کی ہر ممکن مالی مدد کرنے کیلئے تیار ہوں۔ لیکن اس پرانے کچے کمرے میں آپ کا قید رہنا مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ہے۔۔
عمران۔۔ عابد بھائی آپ ہمارے گھر کے بارے میں بالکل واقف ہیں کیونکہ ہم دونوں نے بچپن اکٹھے گزارا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم پہلے ایک عالیشان مکان میں رہتے تھے۔ ہمارے پاس بہت ساری زمین جائداد ہے اور کروڑوں کی دیگر پراپرٹی بھی مگر عمران بھائی تجھے میں کیا کہوں۔۔ یہ چھوٹا سا کمرہ اگر بوسیدہ بھی ہوچکا ہے لیکن مجھے اور میرے اہل وعیال کے لئے یہ جنت کا ٹکڑا ہے۔ جو سکون اور قرار ہم لوگ یہاں محسوس کررہے ہیں وہ اس عالیشان پختہ اور آسمان سے باتیں کرنے والے مکان میں نہیں تھا جس میں ہر روز ساس بہو اور نند بھابھی کی صبح شام نوک جھونک ایک معمول بن چکا تھا۔
میں وہاں رہ کر ایک ذہنی مریض بن گیا تھا اس میں ہماری نہ کوئی عزت تھی نہ قدر۔ اس لیے ہم اس چھوٹے چھپر جیسے کمرے میں نہایت ہی سکون کے ساتھ دن گزار رہے ہیں۔