1. ہوم
  2. کالمز
  3. رحمت عزیز خان
  4. کھوار فلم ''شرہ''

کھوار فلم ''شرہ''

کھوار فلم "شرہ" ماحولیاتی، لسانی و ثقافتی شعور کی بصری علامت کے ساتھ ساتھ بصری اظہار کا اعلیٰ نمونہ بھی ہے یہ پہلی کھوار دستاویزی فلم ہے جو کہ ماحولیات کے موضوع پر بنائی گئی ہے۔ کھوار زبان، جو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال، مٹلتان کالام (سوات) اور گلگت بلتستان کی وادی غذر میں بولی جاتی ہے۔ یہ زبان اپنی شعری، نثری اور لسانی روایت کے لحاظ سے ایک امیر ثقافتی ورثہ رکھتی ہے۔ مگر اس زبان میں بصری اور فلمی اظہار کی روایت تقریباً نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ ایسے میں "شرہ" (مارخور) جیسی کھوار فلم، جو کہ نہ صرف ماحولیاتی شعور کا آئینہ دار ہے بلکہ لسانی اور ثقافتی بیداری کی بھی ایک اہم کوشش بھی ہے، جسے کھوار زبان کی فلمی تاریخ کا سنگ میل قرار دی جا سکتی ہے۔

فلم "شرہ" کھوار زبان میں بننے والی پہلی دستاویزی فلم ہے، جس کی کہانی چترال گول نیشنل پارک میں پائے جانے والے نایاب جنگلی جانور مارخور کے گرد گھومتی ہے۔ یہ فلم صرف پاکستان کے ایک قومی جانور کی کہانی ہی نہیں، بلکہ انسان اور فطرت کے درمیان تعلق، ماحولیاتی عدم توازن اور نایاب نسلوں کو درپیش خطرات جیسے موضوعات پر ایک فکر انگیز تبصرہ بھی ہے۔ نثار ملک نے کھوار زبان میں فلم بنواکر کھوار زبان و ادب کی تاریخ میں اپنا نام لکھوایا ہے۔

اس فلم کا اصل محرک ماحولیاتی شعور ہے، جو کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ فلم ساز نثار ملک نے اپنی ماحولیاتی وابستگی اور فنکارانہ مہارت سے ایک ایسے موضوع کو اجاگر کیا ہے جو عام طور پر عوامی نظر سے اوجھل رہتا ہے۔

فلم "شرہ" میں صداکار کے طور پر راقم الحروف کی شرکت کھوار زبان میں صداکاری کے طور پہلی کوشش ہے۔ میں نے اپنی آواز کے ذریعے اس فلم کو فکری و جذباتی گہرائی عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔ میری سادہ مگر پرتاثیر آواز چترال کی وادیوں اور مارخور کی زندگی سے جذباتی رشتہ قائم کرنے کا سبب بنی ہے۔

یہ فلم کھوار زبان میں ماحولیاتی ادب کا ایک بصری استعارہ بن کر ابھرکر سامنے آئی ہے۔ یہ نہ صرف کھوار زبان کی خوبصورتی کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اس کے صوتی و ادبی اظہار کو فلمی اسلوب میں منتقل کرتی ہے، جو کہ ایک منفرد تجربہ ہے۔

فلم کی سینماٹوگرافی بھی بہترین ہے، جمیل احمد کی تصویری گرفت اس فلم کا ایک مضبوط پہلو ہے۔ چترال کی وادیاں، پہاڑ اور جنگلی حیات کی زندگی کو جس خوبصورتی سے کیمرے میں قید کیا گیا ہے، وہ فطرت سے قربت کا نیا انداز پیش کرتی ہے۔ جوناتھن ڈوگٹ، خرم شہزاد اور محمد کامران کی ایڈیٹنگ فلم کو ایک پیشہ ورانہ انداز میں آگے بڑھاتی ہے، جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فلمی معیار کو چھوتی ہے۔

لکی جی پروڈکشن کی دھنیں اور بیک گراؤنڈ اسکور فلم کے جذباتی اثر کو بڑھاتے ہیں، خاص طور پر جب قدرتی مناظر اور جانوروں کی حرکات فلمائے گئے ہوں۔

فلم کے مترجمین (سوزین ویسٹرن، ساجد حسین اور رحمت عزیز خان چترالی) نے اسے بین الاقوامی ناظرین کے ساتھ ساتھ شمالی پاکستان کے کھوار زبان بولنے والے ناظرین کے لیے بھی قابل فہم بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ داود فاؤنڈیشن اور واک اباوٹ فلمز پاکستان کی تقسیم کاری نے اس کھوار فلم کو عالمی سطح پر پہنچانے میں کردار ادا کیا ہے۔

مارخور پاکستان کا قومی جانور، یہاں صرف ایک نایاب چوپایہ ہی نہیں بلکہ مزاحمت، وقار اور فطرت کے حسن کا استعارہ بن کر سامنے آتا ہے۔ فلم "شرہ" اس علامت کو استعمال کرتے ہوئے ایک وسیع تر پیغام دیتی ہے کہ انسان اور قدرت کے درمیان توازن کو بحال کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

یہ فلم کھوار زبان میں صرف ایک فلمی تجربہ ہی نہیں بلکہ لسانی احیاء کی تحریک کا حصہ بھی ہے۔ کھوار ادب میں یہ پہلا موقع ہے کہ بصری فنون کے ذریعے زبان کو عالمی سطح پر متعارف کرایا گیا ہے۔ اس فلم نے ثابت کیا ہے کہ چھوٹی زبانیں بھی بڑے پیغام دے سکتی ہیں اور بصری میڈیا کے ذریعے عالمی سطح پر اپنا وجود منوا سکتی ہیں۔

"شرہ" صرف ایک ماحولیاتی فلم ہی نہیں بلکہ ایک تحریک بھی ہے۔ یہ ایک ایسی کاوش ہے جو نہ صرف فطرت کی بقا بلکہ زبان، ثقافت اور شناخت کی بقا کی علامت بن چکی ہے۔ رحمت عزیز خان چترالی جیسے فکری افراد کے کھوار تراجم نے اسے فکری گہرائی دی، جبکہ نثار ملک جیسے ماہر ہدایت کار نے اسے بین الاقوامی معیار کا شاہکار بنایا۔

یہ فلم کھوار زبان کے لیے ایک نقطۂ آغاز ہے ایسا آغاز جو مستقبل میں مزید فلموں، ڈاکیومنٹریز اور فکری پروجیکٹس کا محرک بن سکتا ہے ان شاء اللہ۔

حوالہ: شرہ (کھوار زبان میں پہلی دستاویزی فلم)"، واک اباوٹ فلمز، داود فاؤنڈیشن، 29 ہدایت کاری و پروڈکشن نثار ملک، کیمرہ مین: جمیل احمد، مترجم کھوار: رحمت عزیز خان چترالی، مارچ 2016، اسلام آباد