کشمیر کی سرزمین صدیوں سے امن و محبت کی علامت رہی ہے، لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ خطہ بھارتی جبر، مکروہ سیاست اور ریاستی دہشت گردی کی نذر ہو چکا ہے۔ پہلگام کی بیسران وادی میں ہونے والا خونیں واقعہ کوئی اچانک حادثہ نہیں، بلکہ بھارتی حکومت کی جانب سے ایک منظم فالس فلیگ آپریشن ہے، جو اپنے سیاسی مفادات کیلئے کشمیریوں اور معصوم سیاحوں کے خون سے کھیلا گیا ہے۔ یہ واقعہ بھارت کی دہشت گرد ریاست بننے کی طرف ایک اور سنگ میل ہے، جسے بین الاقوامی برادری کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ بھارت ایک غیر فطری ملک ہے جس کی اقلیتوں کو ہندو انتہاپسند ذہنیت جیسے عفریت کا سامنا ہے جس کے نزدیک معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہنا ہی عین ہندتوا ہے۔
بھارت نے ماضی میں بھی اپنے داخلی مسائل چھپانے اور پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے جعلی واقعات کو ہوا دی ہے۔ 2008ء کے ممبئی حملوں سے لے کر 2019ء کے پلوامہ حملے تک، ہر واقعے کے پیچھے بھارتی حکومت کے ہاتھ صاف نظر آتے ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے، جس میں 68 مسافروں کی موت ہوئی، کے بارے میں بھی بعد ازاں یہ انکشاف ہوا کہ یہ حملہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را"کے افسران نے کیا تھا۔ اسی طرح پلوامہ حملے کے بعد بھارتی فضائیہ نے پاکستان میں بالاکوٹ کے نام پر خالی پہاڑوں پر بمباری کی، جس کا مقصد صرف داخلی عوامی ردعمل کو بھڑکانا تھا۔
اب پہلگام میں ہونے والا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بھارت کو کشمیر میں ہر طرح کا ظلم روا رکھنے کے باوجود اپنی ناکامی کا احساس ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ کشمیر میں اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر عوامی تحریک کو کچل نہیں سکتا، اس لیے اب وہ ایسے کھیل رچاتا ہے تاکہ دنیا کی توجہ کشمیریوں کے جائز مطالبے سے ہٹا کر "کراس بارڈر دہشت گردی" کے جھوٹے بیانیے پر مرکوز کر دے۔ اس پر سندھ طاس معاہدے کا توڑنا، واہگہ بارڈر بند کرنا، پاکستانیوں کے سارک ویزوں پر پابندی اور سفارتی عملے پر نزلہ گرانا، تمام ایسے اقدامات ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت جیسے ڈیڑھ ارب بدنصیب آبادی والے ملک کی باگ ڈور کتنے غیرسنجیدہ، کم عقل اور بدقماش لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔
نریندر مودی کی حکمران پارٹی کے ان اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اگلا الیکشن بھارت میں خود خوریزی کرکے اور اسکا ملبہ پاکستان پر پھنک کے جیتنا چاہتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج موجود ہے، جو دنیا کی سب سے بھاری فوجی تعیناتی ہے۔ ہر گلی، ہر بازار اور ہر گاؤں میں بندوقیں تنی ہوئی ہیں۔ لاک ڈاؤن، کرفیو اور انٹرنیٹ بندش کے باوجود، اگر کوئی حملہ ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یا تو بھارتی فوج انتہائی نااہل ہے، یا پھر یہ حملے خود بھارتی ایجنسیوں کے ہی اسٹیج کیے گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کشمیر میں اپنی ناکامی چھپانے کیلئے ایسے واقعات کو استعمال کرتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری بھارت کے ان فالس فلیگ آپریشنز پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مغربی ممالک، جو خود دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ بھارت کے ہاتھوں کشمیر میں ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟
امریکہ اور یورپی یونین بھارت کو اپنا اسٹریٹجک پارٹنر سمجھتے ہیں، اس لیے وہ کشمیر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموش رہتے ہیں۔ لیکن دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بھارت کا یہ رویہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے، بلکہ یہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اگر بھارت کو اس کی جارحانہ پالیسیوں پر روکا نہ گیا، تو یہ خطہ ایک بڑے تنازعے کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
پاکستان ہمیشہ سے کشمیری عوام کا سچا حامی رہا ہے۔ ہم نے نہ صرف سفارتی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اٹھایا ہے، بلکہ اخلاقی، سیاسی اور قانونی طور پر بھی کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ ہر سفارتی، اخلاقی، سیاسی اور نظریاتی محاذ پرکھڑا رہے گا۔ ہم بھارت کے جھوٹے پراپیگنڈے کا مقابلہ کرتے رہیں گے اور دنیا کو حقیقت سے آگاہ کرتے رہیں گے۔ لیکن صرف پاکستان کی کوششیں کافی نہیں۔ عالمی اداروں، خاص طور پر اقوام متحدہ، کو چاہیے کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تحقیقات کروائے۔
بھارت کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن کشمیر ضرور آزاد ہوگا اور اس دن تک پاکستان کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ آنکھوں سے بھارت کے فریب کے پردے ہٹائو اور کشمیر کے مظلوم عوام کی آواز بنے ورنہ خود عالمی برادری کے برادری ہونے کا تصور گہنا جائیگا۔