عشق محمد ﷺ وہ گداز ہے جو زندگی کا رخ متعین کرتا ہے۔ نعت گوئی جہاں ایک طرف کائنات کی سب سے بڑی سچائی سے محبت کرنے والوں کا فض اکمل ٹھہرا تو دوسری طرف ادب کے اعلی ترین معیارات کی ضمانت بھی ہے کہ اظہار کی تمام تر صورتوں اور بیان کے تمام زاویوں کے ذریعے خیر، حسن اور صداقت کا معنوی جمال دکھائیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ محبوب خداﷺ کا عشق توفیق ہے، "متاع" ہے۔ اویس راجا کا نعتیہ مجموعہ "متاع" کے نام سے ہاتھوں میں ہے۔ لوح و قلم کی وفاداری اور کائنات کے عظیم ترین دائمی شعور کے ساتھ۔ جہاں تکمیل ذات کا مظہر صرف اور صرف عشق محمد ﷺ ہے۔ اویس راجا نے اپنی محبت و عقیدت کے اظہار کے لیے نعت کا سہارا لیا۔
مرے سینے میں جو بارہ دری ہے
انھی کے ذکر سے مہکی ہوئی ہے
اور
کیسے وہ بیاں تم سے کروں لطف کا عالم
ہوتے ہیں عطا جب کہ مجھے نعت کے الفاظ
اویس راجا کے نعتیہ مجموعہ "متاع" میں خوش آئیند جدت ہے۔ الفاظ و تراکیب کی تازہ کاری سے امکانات کی لو جگمگا رہی ہے۔
جہاں تک یقیں ہے، جہاں تک گماں ہے
ازل سے ابد تک تری داستاں ہے
تیرے نزدیک ہوگی صنف سخن
نعت کو میں عطا سمجھتا ہوں
"متاع" میں دست ہنر کی مہارت کے ساتھ محبت و عقیدت کی چاشنی بھی ہے۔ نعت کی حرمت کے پیش نظر ایک حد بندی انھوں نے خود متعین کی ہے۔ بے پناہ تخلیقی وفود کے ساتھ انھیں یہ احساس بھی ہے کہ پر کہاں جلتے ہیں۔ ذکر نبی سے سینے کا ہر شگاف بھرنے والے کے سینے میں ذکر نبی سے سورج طلوع ہونے کی طمانیت نے ایسی فضا تخلیق کی ہے جو ہنر بھی ہے اور بخشش و کرم بھی۔ یہاں قلب و نظر کی تبدیلی سے آگے کے مراحل ہیں۔ دعا کا انداز مسیحائی کے اعتراف سے منسلک ہے۔
جو نطق محمد سے ادا ہو گئے الفاظ
دنیا کو عطا کرتے گئے معجزے الفاظ
پکڑے ہوئے ہوں حشر میں راجا یہ پارسا
عیبوں کے باوجود میں بخشا ہوا پھروں
یہ بھی حقیقت ہے کہ نعت گوئی ایک لمحہ کی محبت نہیں یہ عشق مسلسل ہے۔ محمدﷺ کی توصیف، سیرت محمد کے واقعات کی اثر پذیری رسمی محبت کے ساتھ ممکن ہی نہیں۔ اس تاثیر کا تعلق ماہیت قلب کے ساتھ ہے جو عرفان ذات اور ادراک ذات کے ساتھ منسلک ہے۔
ایسی کھلی ہے آنکھ انھیں دیکھنے کے بعد
اب تو خدا بھی آنکھ سے اوجھل نہیں رہا
جب دل پر لطف و کرم کی عطا ہوتی ہے تو سامنے کے مناظر خود بخود بدل جاتے ہیں اور بقول شاعر یہ اشعار امت محمد ﷺ کی طرف سے سیرت رسول کی صورت وہ تصویر ہے جو ہمیشہ روشن رہے گی۔
ہجر کیوں درد لا دوا کہیے
آپ کے ذکر کو شفا کہیے
دنیا تو دے رہی ہے صدا پر صدا مجھے
میں اٹھ کے جاؤں کیسے، یہ دوران نعت ہے
عشق نبی کی اوٹ میں رکھ تو ذرا چراغ
پھر دیکھ آندھیوں میں بھی جلتا ہوا چراغ
اویس راجا نے عوامی مزاج کے ساتھ شعر عقیدت کے معیارات کی تکریم کا بھی خیال رکھا ہے۔ نعتیہ اشعار میں سہل ممتنع کے ساتھ اشاراتی تلمیح کا عمل دخل واضح دکھائی دیتا ہے۔
بلا ناغہ محمد جا رہے ہیں
کسی بڑھیا نے کوڑا پھینکنا ہے
گزر کر دیکھ طائف سے کسی دن
انھیں گر اپنے جیسا کہہ رہا ہے
مرے نزدیک توہین نبی ہے
یتیموں کو اگر تو ڈانٹتا ہے
نعت کے یہ اشعار عوامی تربیت کے مظہر ہیں جہاں سرسری طور بھی تبدیلی کا جذباتی دیا جلایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف اویس راجا کی "متاع" میں ادبی فنی مہارت اور جدت و ندرت کے سازوسامان سے آراستہ سیرتی واقعات کا اظہار زیادہ نمایاں ہیے۔ نبی کریم اور آل بیت سے محبت بھی نعت گوئی کا حصہ ہے۔ اشعار دیکھیے
مدتوں سے مرے رسول کریم
ایک یثرب مرے مضاف میں ہے
نہیں لوٹا نواسہ کربلا سے
ابھی بیٹی نہیں ہے سوئی ان کی
اور
جو گرد جمنے لگی ہے ترے عقیدے پر
تو ذکر آل نبی سے اسے نتھار کے دیکھ
ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں کہ "اویس راجا کے ہاں بعض قرانی الفاظ بھی اپنے خاص مفہوم میں توجہ طلب ہیں۔ نعت میں غیر شاعرانہ اور غیر متداول الفاظ کے استعمال سے انھوں نے نہ صرف ان الفاظ کو مانوس بنا دیا ہے بلکہ مستقبل کی نعتیہ لسانیات اور لفظیات کی معنوی تازہ کاری (Neology) کے راستے کی نشاندہی بھی کر دی ہے۔ واضح رہے کہ اویس راجا کے ہاں یہ الفاظ صرف مفاہیم کو ہی اجاگر نہیں کرتے بلکہ اپنی دلالت وضعی میں بھی قرینے سے جڑے ہیں"۔
دیکھ سکتا ہوں، جہاں بھی ہوں مدینہ ان کا
دور و نزدیک کی اب ایک ہے عینک میری
داغ عصیاں کے تو آجاتے مرے چہرے پر
ختم کرتے نہ جو سرکار یہ چیچک میری
یہ اشعار محض جذب دروں کے سہارے نہیں۔ خالص شاعرانہ سچائی اور ہیئتی تنوع کے آئینہ دار ہیں۔ "متاع" غماز ہے کہ اویس راجا مدحت خیر البشر ﷺ کے مختلف زاویوں سے آگاہ بھی ہیں اور نعت گوئی میں ایک دلکش اسلوب کا اضافہ کرنے پر قادر بھی۔ یہ اشعار محض جذب دروں کے سہارے نہیں۔ خالص شاعرانہ سچائی اور ہیئتی تنوع کے آئینہ دار ہیں۔
اویس راجا کے تخلیقی انداز میں ابلاغ سے زیادہ اظہاریہ کی اہمیت ہے۔ بے تکلفانہ مقامی زبان کے الفاظ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ عقیدت عشق میں بھی اجتہاد پر مائل ہیں۔
پوٹھوہار کے تاریخی خزانوں اور سحر انگیزی میں"متاع" ادبی حسن اور شعری جمالیات سے لبریز طبع زاد محبت نامہ ہے۔ وہ محبت نامہ جو ہم سب کے دل کی خواہش بھی ہے اور آواز بھی۔
لبادہ اوڑھ کر آتے نہ گر، بشر کا وہ
ہمیں پتا ہی نہ چلتا کہ خود خدا کیا ہے