ساجھے کی ہنڈیا چوراہے پر پھوٹنے کا قصہ نیا نہیں لیکن بیانات کی کھلبلی اور شہرت کے لالچ سے اب ہر گھر کی ہنڈیا سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہے۔ عجیب سی ہانڈیوں کا زمانا ہے، ہر چیز ان کے پیندے سے چپکی رہتی ہے اور کبھی تو اتنا جل جاتی ہے کہ کھانے کے قابل ہی نہیں رہتی۔ ٹک ٹاکر اپنی ہانڈی کو بڑے برتن کی کھرچن قرار دے کر خوب بیچ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جب بھی کوئی نیا معاملہ شروع ہو، سب اپنی اپنی ہنڈیا پھوڑ کر پرانے برتن بھی قلعی کروانے لگتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ چوراہے والی دیگچی کو ہی پالش کرواتے ہیں۔ اس دیگچی میں عجیب رمز ہے کہ ہر بار نئی پالش سے اس کا زنگ مذید نمایاں ہو جاتا ہے لیکن سب اسے یہ سوچ کر پالش کرواتے ہیں کہ کہیں کھرچن ضائع نہ چلی جائے۔ یہ کھرچن بھی لوگوں کے لیے نعمت ہے۔ عمرو عیار کی زنبیل کی طرح دیگچی میں بھی کھرچن امڈے چلے آتی ہے۔
پورے میڈیا کے لیے یہ کھرچن وبال جان بھی ہے لیکن دل کی خوشی! ۔ روٹی کے لقموں کو ترسنے والے بھی اس کھرچن سے جان نہیں چھڑانا چاہتے۔ یہ کھرچن کمبل کی طرح لپٹ گئی ہے اور یہ دیگچی دنیا بھر کا مشغلہ ہے۔ سب یہیں ملتا ہے۔ موہوم مستقبل کے خواب سے آنے والی قیامت تک رجسٹر کروائی جا سکتی ہے۔ لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ چندہ جمع کرتے ہوئے یہ دیگچی مصالحہ بھری دیگ کا چوغہ پہن لیتی ہے یوں جیسے کسی سنپولیے کو اچھا دھاری کھال مل جائے اور وہ پہننے اتارنے میں ہی اسے پھاڑ ڈالے۔
کتنے ہی چندے اس ہانڈی میں جلی کھرچن بن چکے ہیں۔ وہ ڈیم کا چندہ ہو، ملک بچاو تحریک کا، اسپتال یا روحانیت کی تاج پوشی کی چندہ مہم۔ یہ کھرچن کسی کے کام نہیں آتی۔ اب ایک وزیر نے اس دیگ کے گھی کو خطرناک قرار دے کر بچت پروگرام کی طرف اشارہ کیا ہے انھوں نے پکوڑوں کے حجم اور انسانی معدہ پر ریسرچ کے نتیجے میں آئل کی مقدار کر ضرب تقسیم کرکے تمام ماہرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اس لیے سب اپنی اپنی ہنڈیا جلتا چھوڑ کر آئل بچاو مہم میں شامل ہو رہے ہیں۔ بھلے اپنی ہانڈی کی کھرچن بھی جل جائے۔
عجب رمز ہے کہ جب جب سہولیات کی فراہمی کا سوال اٹھتا ہےتو دیگ کی کھرچن بھی سکڑ جاتی ہے۔ خواب تہہ سے چپکے زندہ درگور ہیں اور تعبیر کھرچن بن کر ناچ رہی ہے۔ چندے کے منصوبوں کی بے شمار دیگوں سے تو کھرچن بھی برآمد نہیں ہوتی۔ عوام الناس کے لیے اپنی ہانڈی چوراہے پر رکھنے کا مشغلہ ہی غنیمت ہے۔ البتہ کھرچن کے بے شمار دعوی دار ہیں۔ جو وقت آنے پر اسے کھیر، بریانی، چکن روسٹ، مٹن کڑاھی اور ذائقہ دار پکوان ثابت کرنے میں فائلوں کے انبار لگا لیتے ہیں۔
کتنے ہی سانحات ان چوٹیوں کو سر کرنے میں جان گنواتے رہیں گے۔ لفظوں کے ہیر پھیر سے چوٹیوں کا طول و عرض تبدیلی کے کتنے ہی مراحل سے گزرتا ہے لیکن یہ بازی گر دھوکا دینے سے باز نہیں آتے۔ کھرچن کا حساب بھی پٹاخوں جیسا سا ہی ہے۔ جب جی چاہتا ہے یہ پٹاخہ پھٹ کر عوام کو سہما دیتا ہے اور ضرورت پڑنے پر پرانے پٹاخوں میں نیا آتش گیر مادہ بھر کر عوام کو بہلایا جاتا ہے۔ فریب و سراب کی دیگ چولہے پر ہی رہتی ہے۔ تہہ سے لگی مذہب کی کھرچن پوری ہانڈی پر گھی بن کر تیر رہی ہے اور فائدہ اٹھانے والے اسی سے روٹی چپڑ چپڑ کر کھاتے اور خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔
البتہ عوام کے لیے دیگچی کی وہی کھرچن ہے جس میں گھی کا تڑکا کبھی نہیں لگ سکتا۔ وہ ستتر سال سے عید پر بھی سوکھی روٹی دیکھ رہے ہیں اسے پانی سے تر کرنا بھی بہت سوں استطاعت سے باہر ہے۔ تاریخ میں ایسی بے شمار کھرچنوں کا ذکر ہے جو زمانہ حال تک پہنچتے پہنچتے دیگ بن جاتی ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ بہت سی روایات لنگر کی دیگ کو بھی کھرچن ثابت کرنے میں ہلکان ہیں۔
ہر شخص اپنی اپنی دیگ کے خالص مصالحوں اور ایمان داری کے بیانحلفی معہ اکاؤنٹ نمبر شئیر کرکے عابد و زاہد قرار پا رہا ہے اور خلقت اچھل اچھل کر کاپی پیسٹ کرنے میں مگن ہے۔ جس کے شئیر زیادہ ہوں گے وہی فاتح عالم اور باقی سقراط سمجھے جائیں گے۔ چوں چوں کرتے رنگ برنگے چوزے اچھلتے کودتے اودھم مچا رہے ہیں۔ اب یہ مرغی کے اختیار میں نہیں کہ وہ چوزوں کو سمجھا سکے۔ چوزے کوئی بات سننے یا سمجھنے کو تیار ہی نہیں بس اپنی اپنی ہنڈیا کو دیگ بنانے میں مگن ہیں۔
کس طرح جمع کیجئے اب اپنے آپ کو
کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے