اس کی بے رحم پشت میری طرف تھی۔ وہ جھکی ہوئی، پھولوں کی راہداری دیکھ رہی تھی۔ مجھے معلوم تھا اسکے لب پھولوں سے، تراشیدہ ہیں اور اسے حیرانی سے دیکھتے ہیں۔ اسے کچھ دنوں سے ہی دیکھا گیا ہے۔ جب سے میرا یہاں سے گزر شروع ہوا ہے۔ ورنہ عام طور پر میں بڑی سڑک تک جانے کے لیئے دوسری گلی کا استعمال کرتا ہوں۔ وہ سیدھی گلی ہے، پراسرار سے موڑ تنگ نہیں کرتے۔ دوسری طرف، جہاں باغ ہے، پرانے ہوئے جاتے محلے کے درمیان چھپا، نظروں سے اوجھل رہتا ہے لیکن دن اور رات میں کھلنے والے پھولوں کی مہک گلیوں تک آ ہی جاتی ہے۔ یہ موتیئے اور گلاب کی تیز مہک ہے۔ اس دن جب دھوپ پر پھیلارہی تھی میں خوشبو کی تلاش میں وہاں تک گیا جب اسے دیکھا گیا۔ وہ مبہوت کردینے والے، حسن کا پیرہن پہنے وہاں موجود تھی۔
میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اسکی موجودگی یا دھوپ میں بے حد چمکتے پھولوں کی بدولت مجھے یہ اداس سی خاموشی، اوڑھے باغ بہت پرکشش لگا۔ ورنہ عام طور پر مجھے مٹتے جاتے مناظر، جہاں خواب آلود چاند، ہلکے ہلکے دیئے جلائے، گلیوں کی ویرانی کو روشن رکھے حیران رکھتے ہیں۔ یہ حیرانی مجھے زندہ رکھتی ہے۔ شدید حیران کن احساسات لیئے یہ محلہ جو کائی لگے مکانوں سے بھرا پڑا ہے اور کبڑی ہوئی ممٹیوں پر سرمئی، تھکے ہوئے پرندے ساکت بیٹھے رہتے ہیں۔ چاند بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا ہے۔ گلیوں کی ساخت میں باربار آ جاتے موڑ انتہائی پراسرار ہیں۔ عورتوں کی جلد اتنی زرد ہے کہ دفن ہونے سے پہلے ہی مردہ ہوئی جاتی ہے۔
اس دور دراز محلے میں جب سے رہائش پزیر ہوں، روز ہونے والی بارشوں نے چہروں پر نئی یادداشت سے پیدا ہونے والے ماضی کو دھو ڈالا ہے، جو انہیں مایوسی سے دور رکھتا ہے لیکن نادیدہ مستقبل، جس میں کوئی بھی واقعہ ہونے کو تیار بیٹھا ہو، ان کے نقوش کو سراسیمگی کا احساس دیئے، پہچان کے قابل نہیں چھوڑتا۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ رہائش پزیر لوگوں کے نقوش، پٹھے اور ان پر لپٹا گوشت ویسا نہیں رہا۔ وقت کتنا بدلاٶ لیئے، کیسی چال چل گیا ہے۔ جھریوں نے نقوش کو یوں تبدیل کیا ہے کہ وہ پہچان کے قابل نہیں رہے۔
اگر ہجرت کیا ہوا کوئی شخص واپس آئے تو شائد پہچان نہ سکے اور اسے لگے کہ اسکی بینائی کمزور ہوگئی ہے ہاں وہ انہیں نام سے پہچان سکے گا اگر وہ اسے یاد ہوں۔ ایک ہی جگہ پر مقیم رہنے والوں کا یہ مسئلہ نہیں۔ انہیں ہونے والی تبدیلوں کا اندازہ نہیں ہوتا۔ انہیں لگتا ہے سب کچھ ویسا ہی ہے۔ شکستہ ہوئے جاتے مکان، دھیرے دھیرے کمزور ہوئے جاتے جسم، آنکھوں کی ختم ہوتی بینائی، یہاں تک گلیوں میں نظر آتے جانور، سب کچھ ویسا ہی لگتا ہے، ٹہرا ہوا، جما ہوا پانی سا" باوجود اس کے کتنا پانی زندگی کی درزوں سے رستا رہا ہے۔ کتنے جسموں کو بیماری نے آن لیا ہے۔ کیسی کیسی بیماریاں تاک لگائے بیٹھی ہیں کہ حملہ آور ہو سکیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے بیماری ایک راستہ ہے، یہ الگ بات ہے کہ یہ راستہ عبور کرنے میں کافی دقت پیش آتی ہے پھر موت جو انسانی، حیوانی جسموں کو پرسکون کرنے سے پہلے کیسے کیسے ظلم ڈھاتی ہے۔
باغ بھی مکمل پرانے مکانوں کی طرح سی، بوسیدہ دیواروں میں قید ہے لیکن اندر کی سطح روز نئئے رنگ لیئے، کھلے پھولوں سے رنگ بدلتی رہتی ہے۔ جس دن اسے دیکھا گیا باغ سرخ پھولوں سے بھرا، ایسے خواب سا دکھتا تھا جو پرسکون نیند کا مرہون منت ہو۔ وہ انہی پھولوں میں کھڑی تھی، دہکے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ، اگی کوئی بل کھاتی بیل سی، جو بڑے، خوشنما پھولوں سے لدی ہو۔ اس کی چھٹی حس، مخصوص عورتوں سے زیادہ تیز تھی اور آنکھیں، طلسماتی خیالوں، سے زیادہ چمکدار کہ اسے احساس تھا میں اسی باغ میں موجود، اسے جگہ جگہ سے دریافت کرتا ہوں۔ اس کے پاس بے شمار جگہیں تھیں۔ خواب آلود آنکھوں سے دیکھتی، چمکدار پانی سی بہتی، گھنے جنگل سی پراسرار، سمندری لہروں کی شکل لیئے بےقرار، وہ قریبی محلے کے کسی گھر کی باسی تھی لیکن وہ کن گلیوں سے آتی ہے، مجھے معلوم نہیں تھا۔
میرے کمرے کی کھڑکی، جس تنگ گلی میں کھلتی تھی وہ آگے جا کر بند ہے۔ سامنے کی دیوار پر بھی، جو میری کھڑکی سے نظر پڑتی ہے، کھڑکی ہے، عام طور پر بے انتہا خاموش چہرے کے نقوش لیئے حیران کیئے دیتی ہے۔ ویسے بھی میں ایک کتاب کے ترجمے میں مصروف رہتا ہوں اور باہر کی چہل پہل سے میرا زیادہ واسطہ نہی ہے۔ وہ تو ایک دن بہت دنوں سے ہوتی بارش رکی تو میں سگریٹ خریدنے باہر نکلا تو اسے، باغ کی طرف جاتے دیکھ سکا۔ بس ایک جھلک، جیسے کوئی، ایک لمحہ نظر آئے، کسی خیال سا، تو معلوم ہوا باہر کافی دلکشی ہے، یا یوں کہہ لیں رنگوں کا امتزاج ہے جس سے دل بہلایا جا سکتا ہے۔
بس ایسا ہی ہوا تھا کہ باغ جو عام طور پر اکیلے پن کا شکار رہتا ہے، اسکی تنہائی میں وہ جاتی رہتی ہے۔ اسکا چہرا طباعت شدہ تھا، جسم کے اعضاء، بپھرے ہوئے پانی سے، کناروں سے چھلک چھلک جاتے تھے جنہیں ملبوس نے سنبھال رکھا تھا، جن پر مختلف رنگ بہتے تھے۔ اس دن بھی جب وہ اپنی بے رحم پشت کیئے، پھولوں پر جھکی جاتی تھی، میری موجودگی کا خیال کیئے ہوئے، ایسے پودے سی لگ رہی تھی جو ہوا کے دباٶ سے جھکا جاتا ہو۔ محسوس کرنے پر کہا جا سکتا تھا کہ ہوا کہیں نہیں تھی محض بارش سے پہلے کا حبس تھا تبھی میں نے ایک انجانا سا خوف محسوس کیا تھا۔
"یہ وہی مکار خوف تھا جو مجھے اسیر کیئے، میرے وجود کو ڈرا رہا ہے۔ یہ مجھے ایسے ہی ڈراتا رہا ہے۔ جب بھی تعیش سے بھرا حسن میرے احساس کمتری کے خیال سے ٹکراتا رہے گا کہ میں لاغر اور بد شکل ہوں۔ میرے بازو کمزور ہیں۔ جب بھی یہ خیال مجھے ڈستا رہے گا۔ خوف لاحق رہے گا۔ یہی ڈر کے صحت مند عورتوں کا قرب مجھے، بہت جلد انزال سے دوچار کر دے گا بہت سی آسان دلچسپیاں مشکل ہوتی جایئں گی۔ جیسا ہوتا رہا ہے۔ کچھ واقعات یاد ہیں جب تاریک گلیاں اچانک چاند کے آ جانے سے روشن ہو جایا کرتی تھیں تب یہی خوف، مکڑی سا جال بنتا تھا"۔
اپنے پشتینی مکان کو چھوڑ کر، یہاں بسنے کی دو ہی وجوہات تھیں: مجھے سکون سے ترجمے کے کام کو نمٹانا تھا اور ان صحت مند عورتوں سے دوری جو ہر گلی پر کھڑی نظر آتیں، مرد پرست عورتیں، جن کے اعضاء چھلکے پڑتے تھے۔ یہاں کوئی ایسی عورت نہیں تھی۔ کمروں کی جان لیوا تنہائی نے انہیں، اپنے تک ہی محدود کر دیا تھا۔ اپنے خیالوں، اپنے جسمانی اعضاء تک محدود، کہ ان کے تھکے ہارے مرد رات کی نیند سے شدید آشنائی رکھتے تھے۔ شاید وہ بھی کہیں سے آن بسی ہو کہ مکان خالی ہوئے جاتے تھے۔
وہ اب چہل قدمی کر رہی ہے۔ اسکی چال پروقار اور مغرور ہے۔ مغربی سمت سے چلتی ہوا کا کوئی بھولا بھٹکا جھونکا اسکے بھاری بالوں سے کھیلا ہے۔ وہ اب میرے قریب سے گزرے گی ایسا ہوتا ہے: کسی انجان سی آواز میں بسی بو سے اسکا جسم، قربت کے احساس کو جنم دیتا ہے۔ اسکی بہت لمبی آنکھیں مجھے دیکھتی ہیں جہاں بے شرم سیاہ آلود رقص برپا ہے۔ میں ڈر جاتا ہوں، دیکھتا ہوں وہ گزر چکی ہے۔ بے رحم پشت بادبانی کشتی کی طرح ہلکورے لیتی، جاتی دیکھائی دیتی ہے۔ وہ حیران کن طور پر صحت مند ہے۔
میں اپنے کمرے کی ہولناک بے ترتیبی میں قید ہوں۔ کچھ نہیں کر پا رہا ہوں۔ ترجمے کا کام ادھورہ، کاغذ کی بھوری سطح پر ویسے ہی رکھا ہے۔ میں اسکے بارے سوچتے سوچتے رہ جاتا ہوں۔ جھٹکتا ہوں پھر اپنے پشتینی مکان کے بارے سوچتا ہوں لیکن ایسا کر نہیں پا رہا۔ بھلا کوئی دو مختلف خیالوں کو کیسے سوچ سکتا ہے۔ سوچنے کی صلاحیت میں اتنی جگہ کہاں ہوتی ہے؟ اور اگر ایسا کیا بھی جائے تو دورخی خیال یادداشت کو زنگ آلود کر دیتے ہیں۔ اسی تگ و دو میں مجھے کچھ اور یاد آتا ہے۔ بہت دنوں سے کچھ الفاظ میں الجھا ہوں، مجھے لابریری جانا ہوگا۔
"اگر قدیم گلیوں سے نکل کر بڑی سڑک تک جایا جائے تو دو منزلہ عمارتوں کی صف ہے، وہیں، جہاں بہت سے بھکاری مل جاتے ہیں۔ ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ شہر سے جڑے، دیہاتی علاقوں سے آ جاتے ہیں۔ اس علاقے میں بے اندازہ بڑھتی ہوئی، ان کی تعداد کسی افتاد سے کم نہیں۔ میں وہیں سے گزرتا ہوں۔ غلیظ، بدبو سے بھرے جسموں کی یلغار میرا پیچھا کرتی ہے۔ دیکھتا ہوں بچوں کے چہرے سکھڑتے جاتے ہیں۔ ستے ہوئے چہرے والیوں کی سیاہی مائل چھاتیاں، نیم برہنہ ہیں جیسے گلی سڑی ہوئی، بے موسم سبزیاں ںسانس لیتی ہوں"۔
ریستوران کے باہر، جہاں سے گلی اندر اتری ہے، وہاں ہی لایبریری ہے، جس کے اندرون میں خاموشی ہے۔ ایک خالی پن مجھے گھورتا ہے یہ خالی پن کا جال جب تک نہیں ٹوٹتا جب تک میں لایبریرین سے بات نہیں کرتا- وہ ہمیشہ کی طرح موجود ہے، مجھے ایک ڈکشنری کی تلاش ہے۔
وہ سست اور اکتاہٹ کا شکار ہے۔ چہرا، بوسیدہ ہوئی جاتی کتاب کی جلد سا، مٹتے جاتے الفاظ سی دو آنکھیں: پھر بھی وہ میری مدد کرتی ہے۔ میں شکر گزار نظروں سے اسے دیکھتا ہوں جب اسکی نظریں، میری نظروں سے ملتی ہیں، دیکھتا ہوں میں خوفزدہ نہیں کہ اسے دیکھ کر کوئی بھی خیال مجھے نہیں ستاتا، لیکن وہ خوشی کا اظہار کرتی ہے۔ اسکی گردن پر کوئی انجانا سا دھبہ ہے، جو دھیرے دھیرے ختم ہو رہا ہے۔ چہرے پر بھیگے ہوئے کاغذوں کی بساند ہے۔
"انسانی جسم کو دیکھ کر جو خیال بتدریج جنم لیتے ہیں وہ عام طور پر لالچ اور خوف کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ عورت اور مرد کے درمیان رابطے کے وقت، ایسی صورت اختیار کرتے ہیں جب ملاپ کی کوئی شکل بن رہی ہو۔ ان کے اعضاء جس قدر مختلف نوعیت کے ہیں اتنے ہی ایکدوسرے کے لیئے پر کشش ہیں۔ وہ ایک دوسرے میں سما کر مکمل شکل بننا چاہتے ہیں لیکن پھر بھی سناٹا ختم نہیں ہوتا جیسے، جس مباشرت، کے عمل سے وہ گزرتے ہیں، اس میں سوائے سانسوں کے بے ہنگم ہو جانے کے، کچھ حاصل نہیں ہوتا"۔
سنسان سی فضاء میں اسے کچھ کہنے کی حاجت ہوتی ہے۔ جیسے کوئی بوسیدہ ہوئی جاتی کتاب، انسانی لمس کے لیئے بے چین ہوئی جاتی ہو - وہ کچھ کہتی بھی ہے۔ شاید، شدید تنہائی نے اسے بے حال کر رکھا ہے- یہ تنہائی اسکی آنکھوں کے نیچے چپکی، صاف محسوس ہوتی ہے۔
یہ ملاپ ہی مجھے غیر فطری لگتا ہے۔ ایک شدید اکتاہت جسم کو تھکا ڈالتی ہے۔ ہاں افزائش نسل کے لیئے مفید ہے۔ لیکن لایبریری آتے ہوئے، جن بچوں کو میں نے دیکھا، کیا ان کی آفزائش ضروری تھی؟ کیا ضروری تھا کہ وہ پیدائش کے بعد یوں رسوا ہوتے نظر آئیں؟ ان چھاتیوں کو پنپنے کی کیا ضرورت تھی جن میں خون کی ایک رمق بھی موجود نہیں اور جو محض جنسی تشدد کے لیئے استعمال کی جاتی ہیں"۔
میں دیکھتا ہوں کچھ لفظ مجھے مل گئے ہیں۔ وہ میری یادداشت سے محو ہو گئے تھے۔ میں انہیں نوٹ بک پر لکھتا جاتا ہوں۔ سامنے وہ شائد اونگھنے لگی ہے۔ ہو سکتا ہے گزری رات میں وہ بھی اسی بے معنوی عمل سے گزری ہو جس کی بابت ابھی میں نے سوچا تھا۔ اس میں کوئی خواہش ابھی بھی موجود ہے۔ خواہش کہاں پیچھا چھوڑتی ہے؟ پچھل پائی سی پیچھے لگی رہتی ہے"۔
واپسی کا راستہ شام کی پیدا شدہ دھندلاہٹ کا شکار ہے۔ آسمان پر پھر سے بادل گہرے ہوئے جاتے ہیں۔ میں ان کے مزاج سے واقف ہوں لیکن پھر بھی میں کسی ڈھابے کی تلاش میں ہوں کہ چائے پی سکوں۔۔
"انسانی زندگی کسی نہ کسی تلاش میں گزر جاتی ہے۔ یہ چھوٹی، بڑی تلاش، ان دیکھی خواہشات کی مرہون منت ہے۔ لیکن دیکھا گیا ہے ہم کسی تلاش میں کہیں اور جا نکلتے ہیں۔ ایک بار میں خود بھی غلط راستے سے منزل تک پہنچ گیا تھا۔ وہ غلط راستہ ایسے گھنے جنگل کی طرف جاتا تھا جہاں اندھیرے کا راج تھا۔ اندھیرے میں چھوٹے چھوٹے منہ لیئے جانور چیختے تھے۔ یہ الگ بات ہے وہ منزل تھی بھی یا نہیں یا محض واہمہ تھاآسمانی، صحرائی، یا سمندری واہمہ جس کی لمبی دم پر گیلے گیلے پیروں کے نشان تھے"۔
ڈھابے میں طرح طرح کے لوگ ہیں۔ ایک کی بھی، شکل دوسرے سے نہیں ملتی ہاں کچھ گورے کچھ سانولے اور کالے رنگ کے ہیں۔ سب زور زور سے باتیں کر رہے ہیں۔ کچھ انتہائی غلیظ گالیاں بک رہے ہیں ہر گالی میں عورتوں کے اعضاء کا زکر ہے۔ وہ تمام اعضاء ان کے لیئے نا محرم ہیں۔
"ویسے گالیاں دینا ہر معاشرے کا لازمی جزو ہے ایک طرح کا جنسی، نفسیاتی، معاشرتی کیتھارسس کا ذریعہ، جس سے طبیعت بہل جاتی ہے۔ مردانی طبیعت کے بہلنے کا سب سے بڑا زریعہ عورت ہے۔ لمبی، پستہ قد، بھاری، باریک عورتیں جو ان کے حواس پر سوار ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ ایک وہم ہو لیکن تاریخ کے اوراق اس رشتے کی بدولت بھرے پڑے ہیں۔ ساری تخلیق عورت سے ہی مخاطب ہے۔ مصوری کے بے انتہا نمونے عورت کے اعضاء کی نمائش کرتے نظر آتے ہیں۔ پتھر کی زبان میں عورت کو کتنا برہنہ تراشا گیا ہے۔ ایک خیال دوسرے خیال سے جڑا ہے"۔
نوٹ بک پر کچھ الفاظ لکھے ہیں۔ چائے کے گھونٹ، ایک ایک کرکے حلق جلاتے ہیں۔ سگریٹ کا کش ایک دوسرے کے پیچھے لگا، سگریٹ کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ باہر بارش ہو رہی ہے۔ چھوٹی بوندوں سے موٹی بوندوں کا سفر کرتی بارش، نے سب کچھ بگھو دیا ہے تبھی بھیگتے پرندے سی رات کے پروں میں پھڑپھڑات کا شور ہے۔
"میرے پشتینی مکان اور جس جگہ آن بسا ہوں، زیادہ فاصلہ نہیں ہے لیکن اسطرف بہت دنوں سے نہیں گیا ہوں۔ اندر جانے والی گلیاں، گہری یاسیت کی بدولت کشش سے عاری ہیں۔ مکانوں کی اشکال اتنی دیکھی بھالی ہیں کہ انہیں دیکھنے کی خواہش ختم ہو چکی ہے۔ لوگوں کے چہرے، کسی زبردستی یاد کروائے سبق سے یاد ہیں۔ خود میرا مکان، ماں باپ کے مرنے کے بعد، بہت سے رشتوں کی تبدیلی کا باعث بنا ہے۔ وہاں بھائی اپنی اولادوں کے ساتھ رہائش پزیر ہیں۔ جب میں نے وہاں سے روانگی کا قصد کیا تھا تو بھابھیاں خوش تھیں۔ انہیں میری موجودگی سے کچھ عجیب سا اختلاف تھا۔ وہ بے پردگی کا شکار ہوتی تھیں۔ بھائی خاموش رہےتھے۔ پشتینی مکان کی عورتیں زیادہ بولتی ہیں لیکن جب خاموش رہیں جب میں وہاں سے نکل آیا بغیر دیکھے کہ کیا کیا رہ گیا ہاں کچھ کتابیں، لکھے ہوئے صفحات اور کچھ کپڑے جو میری ضرورت میں رہتے ہیں، ساتھ لے آیا"۔
میں گلی کے ساتھ ساتھ ہوتے اپنے کمرے تک پہنچ رہا ہوں۔ بارش نے اپنی شکل بدل لی ہے۔ اب وہ دیواروں پر زیادہ شور نہیں مچا رہی ہیں جیسے وہ تھوڑی دیر پہلے، بادلوں کی گرج سے ساتھ ڈرا رہی تھیں۔
اسے تیسری بار دیکھا گیا ہے۔ وہ سامنے سےآ رہی ہے، کسی مشاق رقاصہ سی، اپنی چال کے رقص میں محو، منہ زور چھاتیاں، گرم موسموں میں نظر آتے، پھلوں سی، خوشبو لیئے واضح اور رس دار محسوس ہوتی ہیں، میں نظریں جھکآ لیتا ہوں کہ وہ پاس سے گزر سکے۔ مجھ میں ہمت نہیں یہ الگ بات ہے کہ خون کی گردش، بے قابو وقت سی گزرتی سنائی دیتی ہے۔ ایک سرسراہٹ، کسی سمندری لہر کی طرح مجھے بگھوتی ہوئی، پاس سے آواز دیتی، پیروں تلے روندھنے کو بے قرار ہے۔ پھر کوئی کچھ بولتا ہے۔ آواز میں برسا برس پرانی شراب کے جھاگ سی، سنسناہٹ ہے۔ باغ کی خوشبو میں بسی خاموشی، چونک جاتی ہے۔ دیکھتا ہوں وہ کھڑی ہے۔ ننگے شانوں پر ہلکا ہلکا پسینہ چمک رہا ہے۔ سانس لیتا جسم، بے قابو ہوا جاتا ہے، آپ بھی یہاں پھولوں سے بآتیں کرنے آتے ہیں۔
نہیں۔
میں خود سے باتیں کرنے آتا ہوں۔
یہ عجیب سا جواب ہے۔ ہمیشہ کی طرح میں لرز رہا ہوں۔ وہ اپنی پر تعیش آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ اس کے رس سے بھرے ہونٹ کچھ کہتے کہتے رک جاتے ہیں۔ جیسے وہ میرے جواب سے حیران ہو تبھی ایک گہری اجنبیت درختوں سے اترتی ہے جو اسکے اور میرے درمیان نہ نظر آتی، آہنی دیوار کی طرح کھڑی ہے جسے عبور کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ میں اپنے مساموں سے بہہ رہا ہوں۔ اسکے کے پوچھے ہوئے سوال کا سہی جواب نہ دے پایا تھا۔ اسے، پھولوں سے محبت تھی اور میں بھی جواب میں، ہاں، کا صیغہ استعمال کر سکتا تھا۔ لیکن میں نے جواب دینا سیکھا ہی کہا تھا۔
ایک زنگ آلود سی یاد آجاتی ہے۔ ایسا میرے ساتھ ہوتا رہتا ہے کہ کسی الجھن کا شکار ہوں، کچھ یاد آجاتا ہے۔ نجانے کب سے بھولی ہوا، جب ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی، جسے راستے معلوم تھےجو پستہ قد اور جذبوں سے سنسان ہوئی آنکھوں والی لڑکی تھی۔ وہ خود ہی میرے پاس آ گئی تھی جب میں شہر سے دور کسی پرانے کھنڈر میں بھٹکا، راستہ بھول گیا تھا۔ وہ وہاں پہلے سے موجود تھی اور میری پریشانی پر کچھ حیران، دیکھا تھا موٹے موٹے ہونٹ راستہ بتانے کی خاطر ہمکلام ہوئے تھے۔ باہر ریت تھی۔ ہم نجانے کتنے دن ریت پر چلتے رہے کہ شہر آن کھڑا ہوا پھر وہی ہوا۔
جسمانی طور پر یاد رہتے ہوئے، شہری اکتاہت نے ہمارے درمیان اچانک پیدا ہوا رشتہ ختم کرنے کی کوشش کی یہ اس دن ختم ہوا جب خزاں نے سڑکوں پر کھڑے پرانے درختوں پر حملہ کیا جن کے نیم زرد پتے جگہ جگہ پڑے موت سے ہمکنار ہوئے۔ ایک ایسے ہی دن کے درمیانی وقت میں اس نے بتایا کہ اس کا رشتہ آیا ہے اور وہ شادی کر رہی ہے۔ میں خاموش رہا کہ مجھے پتوں کے یوں مرنے کا دکھ تھا۔ پھر اسنے پوچھا تھا۔ میں اسقدر خاموش کیوں ہوں؟ میں ہمیشہ کی طرح جواب دینے سے قاصر تھا وہ شدید اوب گئی اور مجھے علم نہ ہوا کب، وہ پاس سےاٹھ کر ہجوم کا حصہ بن گئی۔ ہجوم اسے یوں کھا گیا جیسے کوئی بھوکا گوشت خور جانور، خوراک کا انتظار کرتا ہو "۔
"مجھے جواب نہیں سوجھتا۔ بس کوئی لعاب سا حلق میں جمتا ہے۔ مجھے لگتا ہے میں نے بچپن سے ہی خود سے باتیں کی ہیں بہت سی پیچیدہ باتیں، جنہیں دوسروں سے کہنے سے قاصر ہوں"۔
وہ سوال بھی جو اچانک پوچھا گیا تھا، اسکا جواب کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ تب درختوں پر خزاں نہیں اتری تھی دیکھنے میں وہ بہت خاموش تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ تھوڑی دیر میں وہاں کچھ پرند اترنے لگیں گے اور دن بھر کے قصے سنائیں گے۔ جنہیں سننے کے لیئے، وہ وہاں موجود نہیں ہوگی۔
میں شام کا انتظار کرتا ہوں۔ وہ ہمیشہ کی طرح آجاتی ہے۔ چہرے پر رینگتے محروم رویئے، شام کی سرمئی چادر میں چھپ جاتے ہیں۔ میں خاموشی سے باہر نکل آتا ہوں۔ راستہ مجھے لیئے چلتا ہے۔ میں دوبارہ کمرے میں قید ہوں۔ میں ترجمے کے بارے سوچتا ہوں۔ جسے مکمل کرنے میں دقت کا شکار ہوں۔ ایسا لگتا ہے لفظ کم پڑھ گیئے ہیں یا میں بھولنے لگا ہوں۔ ویسے بھی بھول جانا میری فطرت میں شامل ہے۔ تبھی میری سماعت باہر کہیں، دو لوگوں کی آتی، آوازوں میں الجھ گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے وہ، کسی باغ کی بابت باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے چہرے نظر نہیں آ رہے۔ سننے سے محسوس ہوتا ہے بوڑھی ہوئی جاتی، تجربہ کار آوازیں ہیں۔
میری کھڑکی کے سامنے محض دیوار ہے جو گھر کے اندرون کو چھپائے کھڑی ہے۔ دیوار میں کھڑکی ہے، دیمک کھائی لکڑی میں ڈھلی ہوئی ساخت لیئے، گونگے چہرے سی لگ رہی ہے۔ یہ ہمیشہ سے، اسی معذوری کا شکار ہے۔ دو افراد جو نظروں سے اوجھل ہیں ان کی گفتگو میں باغ کا زکر ہے، جہاں لوگوں نے جانا چھوڑ دیا ہے۔ وہ کچھ کہہ رہے ہیں۔ شاید کچھ ایسا جیسے "دن بدن سنورتا باغ، سارے علاقے کی تازگی چوس رہا ہے۔ مکان، مکین، جانور اور اشیاء مردنی کا شکار ہوئے جاتے ہیں۔ سوائے ایک عورت کے جو وہاں روز ہی نظر آتی ہے اور سنورتی جاتی ہے"۔۔