دن اتوار کا مہینہ ستمبر کا تشکیل دی گئی پی ڈی ایم سال تھا 2020۔ دن منگل کا مہینہ اپریل کا اور گیارہ جماعتوں میں سے ایک جماعت اے این پی نے پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرلیں۔ سال ہے2021، ایک سینیٹ کی سیٹ نے پی ڈی کا شیرازہ بکھیر دیا۔
بات لمبی ہے لیکن مختصر اتنا ہی کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی ڈھائی سالہ کارکردگی کو سوال کرنا یقینا اہم جبکہ معاشی میدان مین اس وقت حکومت کو کئی مسائل کا سامنا ہے، لیکن حکومتی نااہلی اور کارکردگی پر تو ہم شاید پچھلے کئی عرصے سے بات کر رہے ہیں لیکن اے این پی کی پی ڈی ایم سے علیحدیگی کے بعد سوال کرنا اہم کہ کیا پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ جیسی بڑی جماعتیں مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھر سکییں؟ میری دانست میں اسکا جواب نہیں ہے۔
اس بات سےا نکار نہیں کہ پی ڈی ایم ایک غیر فطری رومانس تھا جسکا انجام زبان زد عام تھا لیکن یہ سب اتنا جلد ہوگا اسکا شاید کسی کو اندازہ نہیں تھا، ایک دہائی قبل بھی تمھیں یاد ہو کہ نا یاد ہو ہمیں یاد ہے زرا زرا جناب آصف زرداری نے ن لیگ کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں کو توڑتے ہوئے کہا تھا کہ، معاہدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے، آج مسلم لیگ ن کو خواجہ آصف بھی یقینا یاد آرہے ہوں گے، جنھہوں نے آج سے سات ماہ پہلے ایک ٹی وی ٹاک شو میں یہ الفاظ کہے " میں بار بار کہوں گا کہ مجھے زرداری پر یقین نہیں "۔
بہرحال اپوزیشن کی ڈھائی سالہ کارکردگی پر اگر سوال اٹھ ہی گیا ہے تو اس دوران ضمنی الیکشن اور گلگت بلتستان کے ایلکشن میں بھر پور عوامی رابطہ مہم یقینا دونوں بڑی سیایسی جماعتوں نے کی اور ضمنی انتخابات میں کامیابیاں بھی سمیٹیں گئیں، لیکن گلگت میں بلاول بھٹو زرداری صاحب نے دھاندلی کا شور مچایا اور کچھ دن کے بعد سب بھول بھال گئے اپوزیشن نے حکومت کو پارلیمان کے اندر اور باہر میدان خالی کر کر کے دے دیا ہے وجوہات کئی ہوسکتی ہیں لیکن میری دانست میں سیاسی جماعتوں نے حقیقی اپوزیشن کے تمام مواقع بھر پور انداز سے ضائع کیے۔
مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ ہو یا پھر حکومت مخالف تحریک کے لئے بنائی گئی پی ڈی ایم دونوں بری طرح ناکام رہی ہیں، اپوزیشن نے کسی بھی طرح حکومت کو یہ پیغام نہیں دیا کہ آپکی بری کارکردگی ہمارا ہدف ہے جسکا حکومت نے بھرپور فائدہ اٹھایااور اب جبکہ بجٹ بھی آنے کو ہی تو بھی اپوزیشن کے پاس کوئی گیڈر سنگھی نہیں کہ وہ حکومت کو چلتا کر سکے ماسوائے پارلیمنٹ میں بجٹ کی کاپیاں پھاڑنے اور تقاریر کے، نا چیز عوام سے مسلسل رابطے میں ہے اس لئے کہ یہ میر اکام ہے عوام حکومت اور اپوزیشن دوں وں کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتی ہے اور صرف اپنے مسائل کا حل چاھتی ہے لیکن میر پاس بھی عوام کو صرف یہ کہنے کہ علاوہ کوئی دوسرا لفظ نہیں انتظار کیجئے اور اس بار سوچ سمجھ کر ووٹ کا حق استعمال کیجئے گا لیکن میرا یقین کریں عوام اب یہ کہتی ہے، کہ شاید موجودہ حالات میں ایسی کوئی سیای جماعت ہے ہی نہیں جو ہمارے ووٹ کی حقدار ہو۔
جو بھی ہے پی ڈی ایم تو ٹوٹ گئی، پیپلز پارٹی اس اتحاد کا حصہ رہے یا نا رہے یہ بات طے کہ دراڑ یا خلیج آگئی اور جب معاہدے قرآن وحدیث نا ہوں اور وفاداریوں پر شبہ رہے پھر یاد آتا ہے مریم نواز کا لاڑکانہ میں بینظیر بھٹو شہید کی برسی پر کہنا آہاہاہا پی ڈی ایم میں لڑائی ہوگئی ہے۔