گئے دنوں کی بات ہے جب بچپن کی بے فکر زندگی میں بس ایک یہ فکر تھی کہ پڑھائی لکھائی بھی نہ ہوتی تو کیا ہی اچھا ہوتا، اسکول میں داخلہ نہیں ہوا تھا، لیکن گھر کسی کیڈٹ ہاسٹل سے کم نہیں تھا، اور اماں ایک ایسی سخت واڑن کم ٹیچر زیادہ اور دنیا کی سب سے مشکل خاتون لگتی تھیں اے بی، اور الف ب اور ون ٹو لکھنے اور پڑھنے سے کوفت ہوتی تھی بہرحال ایک دن اماں باباایک تصویروں والا قائدہ لے آئے اسکے سروق پر ایک بابا کی تصویر تھی، کالی کیپ، اور شیروانی پہنے ہوئے ایک لمبے قد کے بابا میں نے آج سے پہلے انہیں نہیں دیکھا تھا، اسیلئے فورا کچھ سوچے سمجھے اماں کو پوچھا اماں یہ کون ہیں؟تب اماں نے بتایایہ بانی پاکستا ن قائد اعظم محمد علی جناح ہیں، ، ، وہ پہلا موقع تھاجب میں نے لفظ بانی اور قائد سنا تھااور جس شخصیت کے لئے یہ الفاظ ادا کئے جاتے ہیں اس پر ہر پاکستانی مرتے دم تک فخر کرتا رہے گا، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اس پورے جملے میں سب کچھ پنہاں ہے، اگر جلدی میں پڑھنے سے احساس نہیں ہوا تو ایک بار اور پڑھ لیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ دو خصوصیات یعنی بانی اور قائد محمد علی جناح کے نام کے ساتھ ہی جچتے ہیں، اور میں ہمیشہ اس لفظ بانی اور قائد سے بے پناہ متاثر رہی ہوں قائد اعظم کی شخصیت پر میں کیا لکھ سکتی ہوں، میرے لفظوں کی ہیت انکے عمل کے سامنے بے حد معمولی ہے وقت کے ساتھ ساتھ اس لقب کی اہمیت کا اور ادراک ہوا، اور یہ سمجھنا مشکل نہیں رہا کہ سخت ترین حالات میں جب کوئی ساتھ نہیں تھا قائداعظم نے اپنے عمل سے ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے اپنے بچوں کومملکت خداد کی آزدای کا وہ تحفہ دیا جس پر ہم بانی پاکستان کے احسان مند ہیں۔
وقت نے یہ سمجھ بھی دی کہ ان لفظوں کی حرمت کا پاس رکھنا بھی آسان نہیں جب کوئی بھی شخص کسی بھی مثبت عمل کو شروع کرنے میں پہل کرتا ہے تو یہ یقینا وہ اس عمل کا بانی کہلاتا ہے، اور جب اسکے پہلے قدم کے ساتھ دیگر ہم قدم ہوتے ہیں تو وہ شخص انکے حوصلے کی بنیاد پر قیادت کرنا شروع کرتاہے، سیاسی منظر نامے پر ابھرنے والی بیش بہاجماعتوں کے اغراض و مقاصدریاست کی فلاح وبہبود ہے لیکن اس عمل میں شفافیت کی ایک دھند ہے جواسکے عمل کو زائل کر رہی ہے، اس پر بحث کی وسیع گنجائش بھی ہے، اب یہ سوال بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ بانی اہم ہوتا ہے یا قائد، دور حاضر میں کوئی ان دونوں خصوصیات کے ساتھ اگر ہو تو مجھے ضرور ملوادیجیئے گا، لیکن اس سچ سے انکار نہیں کہ جو بنیاد رکھتا ہے اسے قیادت کے رموز بھی خوب آتے ہیں، سیاسی جماعتوں میں گزشتہ دو برسوں میں یہ قائد اور بانی کی ایسی بحث رہی کہ سیاست کی تھوڑی بہت بھی سمجھ بوجھ رکھنے والے اس سے پوری طرح واقف ہیں، 23 اگست2016 کی شام پریس کلب پر صحافیوں کا جم غفیر سندھ کی دوسری اور کراچی کی بڑی جماعت ہونے کی دعوے دار متحدہ قومی موومنٹ کی ایک بڑی اور پر ہجوم پریس کانفرس میں قائد سے لاتعلقی کا اعلان کیا گیااور تاحیات بانی تسلیم کیا گیا اس پریس کانفرنس میں ڈاکٹر فاروق ستار صاحب کا کہنا تھا کہ جب تک زہنی دباﺅ اور صحت ٹھیک نہیں ہوتی ہم ایم کیوایم پاکستان کو پاکستان سے ہی چلائیں گے، ایم کیوایم کو یہ عمل کیوں اختیار کرنا پڑااسکی وجوہات لکھنے کی ضرورت نہیں اور نا یہ بحث اہم ہے کہ تاریخ میں کون کون سے ایسے لوگ رہے ہیں جنھوں نے (میرے منہ میں خاک) پاکستان مردہ باد کہا، تاحیات قیادت کی اصطلاح بعض ایسے مواقوں پر بھی سننے کو ملی جہاں سے امید ہی نہیں تھی کہ یعنی مسلم لیگ ن جی ہاں سینٹ انتخابات سے پہلے پارٹی کے صدر شہباز شریف اور تاحیات قائد نواز شریف بن کر ابھر ے، اس جمہوری بقا کے عمل سے اور کیا کار ہائے نمایاں سامنے آتے ہیں اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں، یاد رہے کچھ عرصہ پہلے اے این پی جیسے جماعت کی قیادت پر بھی سوال اٹھا تھا جو خود اسفندر یارولی کی والدہ نے اٹھایا تھا، لیکن اسکے محرکات کی بڑی وجہ خاندانی ناچاقی تھی، جیسے دور کر لیا گیا، کچھ لوگوں کا ماننا تھا کہ، پاکستان میں سینیٹ انتخابات 2018 کا سورج طلوع ہونا ناممکنات میں سے ہے لیکن گزشتہ روز یہ سورج بھی چڑھ گیا، جو جیت گئے انکے لئے چمک دار ثابت ہوا اور جو ہار گئے اس نے سورج گرہن کہہ ڈالاکہیں قائد کے زیر سایہ اور کہیں بانی کی لاتعلقی کے ساتھ، اور کہیں قائد عوام کے افکار کے ساتھ سیاسی جماعتیں اس میدان میں اتری پاکستان پیپلز پارٹی نے جسطرح میدان میں چاروں طرف کھیلا ہے اس پر تبصرہ نگاروں کے دلچسپ جملے اور خبروں کی ہیڈلائنز اسکا منہ بولتا ثبوت ہیں، اور آزاد اراکین نے جس غیر محسوس طریقے سے مانوں بلی کی چاپ کی طرح اس ایوان میں قدم رکھا اسکی مثال نہین ملتی، کھلاڑیوں کو بہرحال اس وقت یہ سہولت میسر ہے کہ انکے بانی اور قائد ایک ہی ہیں لیکن یہ الگ بات ہے انھیں اس نظریہ کے حقیقی کارکن کی آج بھی تلاش ہے۔
سینیٹ انتخابات 2018 کے بعد اب سینیٹ میں مسلم لیگ ن کی 33 نشستیں ہوگئی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی نشستیں کم ہوکر 20 نشستیں رہ گئیں سینٹ میں آزاد ارکان کی تعداد 17، پاکستان تحریک انصاف کی 12، ایم کیو ایم کی 5، نیشنل پارٹی کے 5، جے یوآئی ف کی 4، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی 3، جماعت اسلامی کی نشستیں بڑھ کر 2 ہوگئیں، بلوچستان میں اس وقت توڑ جوڑ کی سیاست جوبن پر ہے کیونکہ چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کا معرکہ ابھی باقی ہے ن لیگ اپنے اتحادیوں اور آزاد امیدواروں کو ساتھ ملانے کے لئے سرگرم ہے ادھر پاکستان پیپلزپارٹی نے بلوچستا ن سے آٹھ آزاد کامیاب امیداواروں کی پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کی نوید دی ہے، لیکن پاکستان تحریک انصاف کے 12 سینٹرزجو سینٹ میں تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرے ہیں انکی اگلی پیش رفت یقینا ایک نئی سمت کا تعین کرے گی پاکستان کی سیاست اس وقت تاریخ کے کے ایک نئے عمل سے گزر رہی ہے جس میں جمہور کم یا زیادہ اپنے کردار سے آشنا ہوگیا ہے لیکن سیاسی جماعتیں آج بھی اس سے نابلد ہیں، ایم کیوایم کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اسکی ذمے دار وہ خود ہے اب تکیے میں منہ رکھ رکھ کر رونے سے تو کچھ ہونے والا نہیں، نوشتہ دیوار تھا یہ سب کچھ لیکن جانے دیں، نعرہ لگاتے تھے کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاھئے آج زرا خود اپنا احاطہ کریں نہ منزل رہی نہ رہنما۔
پاکستان کے پاس کئی سیاسی جماعتوں کے قائد اور بانی ہیں جنکے اپنے اپنے منشور اور ان منشوروں سے منسلک مفادات ہیں، لیکن اس ریاست کا کوئی قائد نہیں کوئی رہنما نہیں، خان لیاقت علی خان جیسا وزیر اعظم اس عوام سے چھین لیاگیا اور آج تک اس سچ سے خوف زدہ ہیں کہ کہیں یہ نہ پتہ چل جائے کہ کہ اگر لیاقت علی خان جیسی قیادت رہ جاتی تو ہم گدوں کے ٹولے کیسے اکھٹا ہو پاتے، ہو گئے یہ سینٹ کے الیکشن بھی، اور آئندہ عام انتخابات بھی ہوجائیں گے، لیکن نہیں ہوگا تو کوئی اس ریاست سے مخلص نہیں ہو گا، اس کی قیادت کا جذبہ رکھنے والانہیں ہوگا، اسکے بانی کی جدوجہد کا پیروکار نہیں ہوگا، تو جب نہیں ہوگا تو پھر یہ لقب جنکو سجتا ہے انھی کے لئے استعمال کریں، آپ تو قانون ساز لوگ ہیں کوئی نیا لفظ نکال لیں اور اسے سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتاوں سے منصوب کر دیں معاف کیجئے گایہ بانی او ر قائد جیسے القبات آپکے لئے نہیں۔