کہتے ہیں کہ لفظوں کے دانت نہیں ہوتے لیکن انکی کاٹ ایسی ہوتی ہے جو زخم بھرنے کے بعد بھی تکلیف دیتی رہتی ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سخت سے سخت لفظ کہا جائے لیکن لہجہ ایسا ہو کہ آپ کے مخالف بھی آپکی تعریف کریں، لیکن حقیقت یہ ہے ایک یہ ایک مشکل کام ہے جو ہر ایک کہ بس کی بات بھی نہیں لیکن ایساہرگز نہیں ہے کہ یہ عمل کیانہیں جاسکتا، بس اسکے لئے تھوڑے صبر کے گھونٹ پینے ہوتے ہیں، جو ہم میں سے اکثر کے نہیں اترتے۔
گزشتہ دنوں خبر آئی کہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر نہال ہاشمی کوتوہین عدالت کیس میں ایک ماہ جیل اور 50 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ 5 سال کی نااہلی کا سامنا کرنے کی سزا سنادی گئی ہے، ایک جانب تو یہ خبر مخالف جماعت یعنی تحریک انصاف کے لئے نہایت خوشی کا باعث بنی وہیں مسلم لیگ نواز نے اس خبر کے ردعمل میں کہا کہ، فیصلوں پر تبصرے بھی نااہلی کا سبب بن رہے ہیں، یہ کونسا انصاف ہے، یہاں یہ یاد رہے کہ توہین عدالت کے ضمرے میں ہی وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوچکا ہے، ان خبروں کے اثرات ابھی پوری طرح زائل بھی نہ ہو پائے تھے کہ مسلم لیگ نواز کے ہی دانیال عزیز کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری ہو اور انھیں عدالت نے 7 فروری کو پیش ہونے کا حکم دے دیا ہے، جس سے یہ واضع ہوگیا ہے کہ توہین عدالت کی کاروائی میں نااہلیوں کی ایک لمبی فہرست تیار ہوسکتی، یاد رہے کہ اس کا آغاز نواز شریف صاحب کی نااہلی سے ہوا تھا، یہ الگ بات ہے کہ انکی نااہلی، انکا اقامہ بنی جبکہ کیس پانامہ کا تھا۔
بہرحال سوشل میڈیا پر اس وقت ایک نئی بحث چھٹر گئی ہے کہ اگلا توہین عدالت کا نوٹس کس کوملے گا بعض لوگ اشاروں میں مریم صفدرکا نام بھی لے رہے ہیں اب ان اشاروں کو تقویت ملے گی یا نہیں یا بھی جلد یا بادیر پتہ چل جائے گا، نواز شریف نے اپنے دو روزہ کراچی کے دورے کے دوران بھی عدالت کے حوالے سے کہا کہ جمہوریت پر جب شب خون ہوا عدلیہ کہ ایک حصہ نے آمروں کا ساتھ دیا، میاں نواز شریف کی اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ سب ہی جانتے ہیں، پاکستان نے تاریخی اعتبار سے چار مارشل لاء دیکھے ہیں، جن میں جرنل ایوب خان نے جب مارشل لاءنافذ کیا اس وقت پاکستان کا آئین موجود نہیں تھا، البتہ اس وقت کے موجودہ آئین کے مطابق اگر کوئی ناگزیر وجوہات ہوئی تو صدر اپنے اختیارات، اسپیکر قومی اسمبلی کو تفویض کرے گا لیکن جرنل ایوب نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اقتدار جرنل یحٰیی خان کے حوالے کردیا اور انھوں نے مارشل لاءکے نفاز سے متعلق کوئی قانونی توثیق نہیں لی جبکہ، جرنل ضیاءالحق، اور جرنل مشرف صاحب کے نام کسی نیم دیوانے سے بھی پوچھے جاسکتے ہیں اور انھوں نے کیسے عدالت سے اپنے فیصلوں کی تصدیق کروائی یہ بھی یاد ہوگا، نظریہ ضرورت کی اصطلاح، اور ہر بار کی یہ گردان کہ اس بار کسی بھی نئے مارشل کوروکنے کے لئے آئینی راستہ بند کردیا گیا ہے بعض بار یہ نوید سنانے والوں میں سے اکثر کے پیر ضرور کپکپاتے دیکھے ہیں اب واللہ اعلم بصواب مستقبل میں کیا لکھا ہے۔ گزارش یہ کرنی تھی عدالت عالیہ پاکستان کا سب سے معتبر ادارہ ہے جس سے انکار نہیں، لیکن اس ہی عدالت کہ مختلف ادوار کے مختلف فیصلوں کوناصرف خود ریٹائیرڈ ججز نے اپنی غلطی کہتے ہوئے نہ صرف تسلیم کیا، بلکہ ادارے کے کمزور ہونے کا موجد بھی بتایا، ایک ملاقات میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان اورگورنر سندھ جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم سے ایک سمینار میں ملاقات ہوئی، وہاں میں نے مرحوم سے سوال کیا تھا کہ سر یہ سو موٹو ایکشن لینے کے عمل کو آپ کیسے دیکھتے ہیں، بغیر مبالغہ آرائی کہ بتارہی ہوں انھوں نے مسکرا کر کہا تھا، بیٹی ہر روز ایک جیسا عمل اپنی اہمیت کھو دیتا ہے لیکن اس میں حالات و واقعات کا بڑا عمل دخل ہے، انکے اس جواب نے مجھے مطمئین بھی کیا، لیکن آجکل مجھے ایک سوال کا جواب نہیں مل رہا جسکے باعث سوچا کچھ لکھا جائے تک میرے پڑھنے والے بھی میری رہنمائی کریں سوال یہ ہے کہ توہین عدالت کی تشریح کیا ہے، کیا عدالتی فیصلوں پر رائے دینا اس کے ضمرے میں آتا ہے؟ کیا فیصلہ پرتنقید توہین عدالت ہے؟ کیا توہین عدالت سے مراد ان ججز کی توہین سے لی جاتی ہے؟ یا توہین عدالت سے مراد فیصلوں کو نا منانتے ہوئے روش برقرار رکھنے کا عمل ہے ناچیز اس کی تشریح چاھتی ہے آئین پاکستان کی شق 204 عدالت کو اس بات کا اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو جو عدالتی فیصلوں، اور عدالت کو مجروح کرنے یا عدالتی کاروائی میں روکاٹ کا سبب بنے تو اسے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جا سکتا ہے، اس وقت جب میں یہ تحریر کررہی ہوں بریکنگ نیوز میں مریم نواز کی خبریں چل رہی ہیں جوگجرانوالہ میں مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا کنوینشن سے خطاب کررہی تھیں جس میں انکا کہنا تھا کہ جب نہال ہاشمی نے عدلیہ کے خلاف بیان دیا تھا تو مجھے بھی غصہ آیا تھا اور مجھے لگا تھا کہ نہال ہاشمی کے بیان سے ہمارا کیس خراب ہو گیا ہے لیکن کروڑوں لوگوں کے ووٹ سے وزیراعظم بننے والے کو سسلین مافیا اور گاڈ فادر کہا گیا، کیا یہ آئین کی توہین نہیں۔ نہال ہاشمی کو توہین عدالت پر 5 سال کی سزا ہوئی لیکن عمران خان ساڑھے 4 سالوں سے پارلیمنٹ اور اداروں کے خلاف بیانات دے رہے ہیں، کیا انہیں بھی پارلیمنٹ کی توہین پر ایک ماہ قید اور 5 سال نااہلی کی سزا ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جیلیں بھر جائیں گی مگر نواز شریف سے محبت کم نہیں ہو گی، وہ جانتے نہیں کہ نواز شریف اب اکیلا نہیں بلکہ ہر گھر میں نواز شریف بستا ہے، دوسری جانب سابق اور نااہل وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ کہ وزیر اعظم کا عہدہ مفلوج ہوگیا ہے لیکن اس سوال کا جواب خود نواز شریف سے پوچھنا چاھئے کہ ایسا کیونکہ کیا جارہا ہے؟ وہ یہ یاد رکھیں کے حکومت انہی کی ہے، انھوں نے کہا کہ عدلیہ بحال ہوگئی لیکن عدل کا تابناک سورج طلوع نہ ہوسکا، جس کے لئے تحریک چلائی جائے گئی، نواز شریف نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ایک ستون دوسرے ستون پر کوڑے برسانے لگے تو دستوری نظام کیسے برقرار رہے گااوراب یہ ہاتھ پارلیمنٹ تک بھی پہنچ رہے ہیں، ناچیز کا ان تمام تر گزارشات کرنے کابنیادی مقصد یہ ہے نواز شریف سیسلین مافیا کہنے پر عدلیہ کو ہدف بنارہے ہیں، یا گاڈ فادر کہنے پر، یاپانامہ کیس میں اقامہ ظاہر ہونے پر، وجوہات جو بھی ہوں نواز شریف کی عدالت طلبی کے آثار واضع ہوتے جارہے ہیں باقول مرزا اسد اللہ خان غالب
ہر ایک بات پہ کہتے ہو کہ تو کیا ہے
تم ہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے