1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. سید محمد زاہد/
  4. خصم، سرہانے کا سانپ

خصم، سرہانے کا سانپ

میں بات بات کی آہٹ لیتے اونچے مکانوں سے گھری تنگ گلیوں میں اسے ڈھونڈ رہی تھی۔ وہ گلیاں جہاں روشن دن میں بھی سورج کی کرنیں پہنچ نہیں پاتیں۔ جہاں بھوک اور مفلوک الحالی نے اپنا مسکن بنا رکھا تھا۔ ویرانی ہی ویرانی۔ ایک تھڑے کے نیچے لیٹے، بوری کا لبادہ اوڑھے شخص سے اس کے بارے میں پوچھا تو انوکھا ہی جواب پایا۔

"کیوں ملنا چاہتی ہو؟"

"سنا ہے وہ سکھ بانٹتی ہے"۔

"دکھ کی اس آماجگاہ میں سکھ کہاں؟"

"دکھ ہی تو ادھر چھوڑنے آئی ہوں"۔

"پھر تم صحیح جگہ آئی ہو۔

برے لوگوں کو پانے کے لیے اوگھٹ راستے ہی اپنانے پڑتے ہیں، بائیں ہاتھ والی گندی گلی میں مڑ جاؤ۔ کائی دار پتھر کی سیڑھیاں نظر آئیں گی۔ تیسری منزل پر اس کا ٹھکانہ ہے"۔

پر پیچ تنگ سی سیڑھیوں کا اختتام گہرے سبز رنگ کے دروازے پر ہوا۔ کئی جگہ سے رنگ اکھڑ چکا تھا۔ دروازہ تنگ لیکن میرے خاوند کی رکھیل جیسا اونچا لمبا۔

کئی سال پہلے اس دروازے کو کسی نے اس گشتی یا کسی اور طوائف زادی کی آنکھوں کی رنگت دیکھ کر زمردیں رنگ میں رنگا ہوگا لیکن اب گندے عاشقوں کے پان سے لتھڑے ہاتھ لگنے سے یہ جگہ جگہ سے کالا ہوگیا تھا۔

رنگ کے پرت اتر اتر کر فرش کے ساتھ جھڑے ہوئے تھے۔ دروازے پر دستک دوں یا واپس چلی جاؤں؟ یہ سوچتے ہوئے کاپر کے پھپھوندی لگے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تو خوفناک سی چرچراہٹ کے ساتھ دروازہ کھل گیا۔

"چلے آؤ! "

جو تصویر مجھے دکھائی گئی تھی اس میں وہ بیہودہ اور خوفناک دکھائی دیتی تھی۔ الف لیلیٰ کی کہانیوں کی جادوگرنی کی طرح، جس کے چہرے پر وقت اور گناہوں کی سیاہی چھائی ہوئی ہو۔ سامنے موجود بڑھیا ویسی نہیں تھی۔ اس کے کپڑے خستہ اور ردی تھے۔ کچھ پیوند تھے کہ جن سے تن ڈھانپنے کا کام لیا گیا تھا۔ غربت اور بڑھاپے میں جو کسی اکیلی عورت کی حالت ہوتی ہے وہ اس سے زیادہ قبول صورت تھی۔ ڈھلکے ہوئے پپوٹوں کے نیچے دھنسی ہوئی لال انگارہ آنکھیں کمرے کی تاریکی میں اندھیرے کو چیر کر دل میں پیوست ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔

"آ جاؤ! کیوں ڈر رہی ہو؟ لوگ کہتے ہوں گے لیکن تم فکر نہ کرو، میں کاٹ نہیں کھاؤں گی۔ گرچہ میں باقی زہریلی چیزوں کی گارنٹی نہیں دے سکتی"۔

ہوا کی طرح سریلی سرسراتی آواز کمرے کی خاموشی میں پراسرار طلسم کی طرح آہستہ آہستہ ابھرتے ہوئے مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ الفاظ کانوں میں جادو بکھیر رہے تھے۔ میں خوفزدہ ہوگئی کہ یہ آواز مجھے کھینچ کر کسی جادوئی کھنڈر میں نہ لے جائے۔ لیکن مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ صرف مردوں کو گھیرتی ہے۔

"بیٹھو، پیاری۔ چائے لینا پسند کرو گی؟" وہ سامنے پڑی ٹی کوزی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔

میں خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔

"ٹھیک ہے ابھی نہیں تو کچھ دیر بعد لے لیں گے۔ میں خود رات دیر گئے تک پیتی رہتی ہوں۔ پرانی عادت ہے۔ اب اور تو کچھ ملتا نہیں، اس سے ہی دل جلا لیتی ہوں"۔

میری آنکھیں اندھیرے کی عادی ہوگئی تھیں۔ کمرہ انتہائی گندا تھا۔ دیواروں پر اخبارات کے تراشے فریموں میں سجا کر لگائے گئے تھے۔ جوانی کی کامیابیوں کی کہانیاں جو اس وقت کے اخبارات میں بیان کی گئی تھیں۔ بہت سے ایسے تراشے بھی تھے جن میں مختلف افراد کی اموات اور ان کی جنازوں کی اطلاعات تھیں۔ بڑھاپے میں لوگ جوانی کی کامیابیوں کو یاد کرکے دل بہلاتے ہیں۔

ایک انتہائی پرانا پردہ اس کے پیچھے موجود کھڑکی پر جھول رہا تھا جس کا رنگ کبھی گہرا سبز رہا ہوگا لیکن اب کالا ہو چکا تھا۔ الماریوں کے خانے بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ اوپری خانے میں غلاف میں لپٹی کوئی مذہبی کتاب اور ایک دو موٹی جلد والے چھوٹے سے رسالے اور باقی شیلفوں میں پرانے برتن اور شیشے کی پتلی گردن والی خالی بوتلیں۔ اس بازار کی روایت کے عین مطابق کمرے میں دین و دنیا، دونوں کو دھوکا دینے کے سارے سامان موجود تھے لیکن سب ردی ہو چکے تھے۔

اس نے اپنا ہاتھ کمر کے گرد لپٹی چمڑے کی بیلٹ پر رکھا ہوا تھا جس کی ایک طرف پستول لٹکا تھا۔

"چھوٹا سا یہ پستول مجھے بہت عزیز ہے۔ میرا خاوند پولیس ملازم تھا اور اسلحے کا ماہر، اس نے سالگرہ پر تحفے میں دیا تھا۔ یہ ہتھیار میں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتی تھی۔ کوئی گاہک سفلہ پن دکھانے لگتا تو یہ اسے راہ راست پر لے آتا۔ تمہیں شاید پتا نہ ہو یہ مرد نشے کا ڈھونگ رچا کر اوچھی حرکتیں کرنے لگتے ہیں بعد میں کہتے کہ ہوش میں نہیں تھا۔ میں پسٹل نکال لیتی تو سارا نشہ ہرن ہوجاتا اور جوانی گندی نالی سے پھر کرکے نکل جاتی۔

بزدل کہیں کے!

اب یہ میرے کسی کام کا نہیں رہا۔ اپنے شوہر کی آخری نشانی اس کی بیسویں برسی پر بیچ کر میں سونے کا نیکلس خریدوں گی جو میرے ساتھ قبر میں جائے گا۔

اگر وہ مجھے وہاں بھی مل گیا تو پستول سے تو مرے گا نہیں: مجھے پکا یقین ہے کہ میرے گلے میں سونے کا ہار دیکھ کر اس کا سینہ جل اٹھے گا؟"

خاموش ہونے سے پہلے وہ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگی۔

قہقہے نے مجھے پریشان کر دیا۔ خاوند کی موت پر افسوس کا اظہار کرنا بنتا نہیں تھا اور داد و تحسین کی یہ جا نہیں تھی۔ پھر بھی میرے چہرے پر تاسف کے تاثرات بکھر گئے۔ یہ دیکھ کر کہنے لگی۔

"اوہ، ڈارلنگ اس کی موت پر مجھے کوئی افسوس نہیں تو تم کیوں افسردہ ہوگئی ہو۔ اس کے مرنے میں ایک انوکھی بھلائی تھی۔ موت نے مجھے حوصلہ دیا اور میں نیکی کے اس راستے پر چل نکلی۔

میں سٹیج ڈراموں کی ایک خوبصورت اداکارہ تھی۔ لوگ میری جگتیں سننے اور ڈانس دیکھنے آتے۔ میرا اپنا سیلون تھا جہاں ماہر میک آپ مین میری نوک پلک سنوارتے اور اپنے ہی بوتیک میں تیار کردہ زرق برق لباس پہن کر سٹیج پر آتی تو ہر بوالہوس اس کے اندر موجود خزانے کی ایک جھلک پانے کو میرے پاؤں میں ڈھیر ہو جاتا۔ میرا ڈانس دیکھ کر عورتوں کو بہکانے والے بھوت پریت کے جھرمٹ بھی اپنی شکتی کھو دیتے۔ میری چھب بہشتی پکھیرو جیسی تھی جو آتماؤں کو بھی گھیر لیتی۔ میری ایک جھلک اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں بپتا کا بیج بو دیتی اور دولت والوں کے دلوں کو اپنے جادو سے موہ لیتی۔ میرا روپ دیکھ کر ان کے سینے میں شاہی گنبدوں کی چوٹی کے سپنے جاگ اٹھتے اور دیوانہ وار دولت لٹاتے۔ میری اداؤں اور چلتروں کے جال میں الجھ کر بلوان دلوں والے ہزاروں متوالے سامان زندگی کی تمام قوتیں تباہ کر چکے تھے۔

میرا خیال تھا کہ وہ بھی میرا دیوانہ ہے۔ یہی سب عورتوں کی بھول ہوتی ہے۔ مرد دھوکا دیتے ہیں کہ وہ ان کے جسم کے اسیر ہو چکے ہیں۔ عورت پریم جوانی کو جیون کا دھن سمجھتی ہے۔ ان پر اعتماد کرکے سدا کا سنجوگ باندھ لیتی ہے لیکن ان کی نگاہیں اس کی دولت پر ہوتی ہیں۔ اسے میرے جسم سے کوئی غرض نہیں تھی اس لیے وہ نشے کے بہانے مجھ پر تشدد کرتا۔ ایک بار میرے سر کے سارے بال مونڈھ دیے۔

ہائے! میرے گھنے بال جو پریم کے دھوئیں کا بگولا تھے اور عشاق کو میرا غلام بنا دیتے۔

جب میں نے اسے چھوڑنا چاہا تو اس نے میرے جسم کو داغدار کر دیا۔ یہ دیکھو"۔

اس نے اپنے سامنے سے چیتھڑے ہٹا دیے۔

پیٹ کا نرم لہریا گوشت اور مرجھائی ہوئی لٹکی چھاتیاں جگہ جگہ سے داغدار تھیں۔ یوں جیسے کسی خود کش حملہ آور کی بیلٹ سے اڑ کر گولیوں اور بارود کے شعلے پورے جسم کو بھسم کر گئے ہوں۔ چہرہ خوبصورت اور جسم اتنا بھیانک۔

میرا ہاتھ فوراً اپنا جسم سہلانے لگا۔ جگہ جگہ سے اٹھتی جلن اور اینٹھن میری روح کو زخمی کر رہی تھی۔ پیٹ، کندھے بغلوں کی گولائیاں اور ڈنٹر سب پیڑ سے بھرے تھے۔ دکھ، درد اور خوف سے میرا روم روم کانپ رہا تھا۔

کچھ دیر کے سکوت کے بعد اس نے اپنی بات جاری رکھی۔

"پھر میں نے اسے قتل کر دیا۔ پولیس نے مجھے اس پستول سمیت گرفتار کر لیا۔ اس محکمے میں کون ہے جو دھن دولت اور شریر روپی پاپ سے بچ سکے۔ یہ دولت ہی اس دنیا کا دین ایمان ہے۔ اس کے بھائی بندوں کو مردے سے کیا ملنا تھا؟ سو کچھ دن کے بعد پولیس کی تفتیش بدل گئی۔ ثابت ہوگیا کہ مقتول کے جسم سے برآمد ہونے والی گولی اس پستول کی نہیں تھی۔

اس لیے یہ پستول مجھے بہت عزیز ہے"۔

وہ خاموش ہوئی تو میں نے بھی اپنے سارے دکھ بتا دیے۔

"خصم سرہانے کا سانپ ہوتا ہے۔ اس زہریلے کیڑے کی پھنکار کے ساتھ جینا ہوتا ہے لیکن جب یہ ڈسنے لگے تو اس کی گچی مروڑ دینی چاہیے"۔

"اس نے مجھے ڈس لیا ہے"۔

"تم تو خود ڈاکٹر ہو اس زہر کا تریاق ڈھونڈ لاؤ"۔

"اسی لیے تو تمہارے پاس آئی ہوں"۔

"میں نے بڑی تپسیا کے بعد بدکردار مردوں کی تباہی کا وردان حاصل کیا ہے۔ اس بازار میں بہت سی عورتیں مردوں کی ڈسی ہوئی ہیں۔ کچھ ناقابل علاج بیماریوں کی وجہ سے بستر مرگ پر پڑی ہیں"۔

وہ اٹھی اور الماری سے ایک چھوٹی شیشی اٹھا لائی۔

"یہ لو ان کی رگوں سے نکلے ہوئے جراثیم کا محلول۔ اس کو انجیکٹ کرنا تمہارا کام ہے۔

جب وہ اس بیماری کا شکار ہو جائے تو سارے شہر میں خبر عام کر دینا۔ کوئی ناگن اس کے قریب بھی نہ پھٹکے گی۔ زہر اور امرت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ اس کے لیے زہر ہلاہل اور تمہارے لیے امرت کی بوند۔

تھوڑی سی عمر جو باقی بچے گی وہ کتے کی طرح دم ہلاتا تمہارے پاؤں چاٹنے کو ترسے گا"۔

میں واپس چل پڑی۔ سانپوں کی پھنکار پورے کمرے میں گونج رہی تھی اور وہ چسکیاں لے لے کر چائے پی رہی تھی۔