بڑے بوڑھے کہتے ہیں خود کو ٹھوکر لگانے سے بہتر ہے کہ دوسرے کی لگی ٹھوکر سے سیکھ لیا جائے، لیکن انسان کی سرشت میں ایسا کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ کچھ باتیں کہنے اور سننے میں بہت اچھی لگتی ہیں، اور اسکے علاوہ کوئی بھی ہو ہر خواب تو سچا نہیں ہوتا، میں جدت کی مخالف نہیں اور نا ہی آئینی اصلاحات کو غیر اہم تصور کرتی ہوں، البتہ یہ ضرور ہے کہ اصلاحات میں زمینی حقائق کو ضرور ملحوظ خاطر رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے، مجھے یاد ہے انتخابی اصلاحی بل تیار کیا گیا تھا غالبا 22 مئی 2020 کو جسکا مقصد سینیٹ اور حالیہ گلگت بلتستان کے انتخابی عمل کوجدید طرز پر کروانے کی تجویز بھی سامنے آئی تھی۔ میں کہیں بہت پہلے ہی اس بات سے متفق تھی کہ نا نو من تیل ہوگا نا رادھا ناچے گی، مطلب یہ کہ گلگت انتخابات میں تو یہ تجویز ہی رہ جائے گی، عمل کرنا نا ممکن ہے، اور دیکھ لیں وہی ہوا، میری عقل شاید حکومتوں میں بیٹھے وزرا جتنی نہیں، لیکن شعور کسی کی میراث نہیں۔
اسلام آباد میں بیٹھ کر کئے جانے والے فیصلے زمینی حقائق سے کتنے لا علم ہوتے ہیں اسکا اندازہ مجھے گلگت بلتستان کے انتخابات سے ہوگیا اور وہ ایسے کہ وہاں مواصلاتی نظام نا ہونے کے باعث بے شمار دشورایاں تھی، جس جگہ بنیادی ضروت یعنی بجلی میسر نا ہو جہاں لوڈ شیڈنگ کا دورائینہ 18 گھنٹے ہو وہاں ہم الیکٹرانک ووٹنگ نظام کی باتیں کیسے کرسکتے، یہ حقیقت بھی جان رکھیں کہ گلگت بلتستان میں پن بجلی کے وسیع مواقع موجود ہیں اور اس پر کام بھی ہو رہا ہے لیکن اسکا فیض ابھی تک عوام کو حاصل نہیں ہوسکا، وزیر اعظم عمران خان انتخابی اصلاحات کو یقینا اہم سمجھ رہیں لیکن انکو یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں بنیادی ضرورتوں کا فقدان ہے، بلوچستان کے شہروں، پسنی، قلعہ سیف اللہ، نصیر آباد، چمن، میں کئی کئی گھنٹے عوام بجلی کو ترستے ہیں اور ہم چلے ہیں الیکٹرانک ووٹنگ نظام کو متعارف کروانے، رابط سٹرکیں صوبے میں ہیں نہیں اور ہمیں جدت بلا رہی ہے اس بات میں دو رائے نہیں کہ ہمیں جلد یا دیر انتخابی اصلاحات کے نظام میں الیکٹرانک ووٹنگ نظام کی جانب آنا ہوگا۔
اس نظام میں آپٹیکل اسکیننگ، ووٹ سسٹم اورپنج کارڈ شامل ہیں۔ اس نظام کی مدد سے آپ گھر بیٹھے ٹیلی فون، انٹر نیٹ اور پرائیوٹ کمپیوٹرکے ذریعے بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ لیکن میں کیا کروں کہ یہ سب بجلی سے چلتا ہے جو اس ملک میں کم یاب ہے، باجود اس حقیقت کے ہم سورج، پانی اور ہوا سے بجلی کے منصوبے نا صرف تیار کرسکتے ہیں بلکہ اپنی پیدواری صلاحیت کو بڑھا کر کم قیمت پر عوام کو بجلی مہیا کرسکتے ہیں، لیکن یہ کون سوچے؟ نادار کے پاس موجود پاکستانیوں کے مکمل کوائف کو اس عمل میں استعمال کی جائے گا؟ لیکن اس ملک میں بسنے والے کئی شہری آج بھی شناختی کارڈ سے محروم ہیں اور زیادہ دور نہیں کراچی میں اورنگی کے علاقے میں بسنے والوں لوگوں کا ہی حال دیکھ لیں، میرا نکتہ یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کا وزیر اعظم کا اعلان نہایت حوصلہ افزاء ہے لیکن زمینی حقائق سے منافی ہے ہمارے فیصلہ ساز لوگ، کچھ نہیں بس اسلام اآباد سے بائے روڈ گلگت تک کا سفر کریں۔۔۔ پھر ان خواہشات کا اظہار کریں۔