مسلمانوں کا ماننا ہے کہ جو انسان دنیا میں آتا ہے وہ ایک اللہ کو مانتا ہے۔ پیدائشی طور پر ہر کوئی مسلمان ہوتا ہے بعد میں وہ اس دھرم کی طرف ہوجاتا ہے جس میں وہ پیدا ہوا ہے۔ مسلمان یہ نہیں سمجھتا کہ جو مسلمان نہیں ہے وہ قابل مذمت یا قابلِ نفرت ہے۔ اور اس سے لڑائی کرنی بہت ضروری ہے۔ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں ان کو یہ بڑی پریشانی ہے کہ مسلمان انہیں کافر کہتے ہیں۔ جو آدمی اللہ کا شکر گذار نہیں ہوتا اسکو کافر کہتے ہیں اور مسلمانوں کے نزدیک وہ قابلِ نفرت نہیں ہوتا۔ انکے خیال میں یہ اصل صورتحال سے ناواقف ہوتا ہے۔ لِہٰذا اسے حقیقتِ حال سے آگاہ کرنا اوّلین فرض ہے۔ اسکے بعد بھی اگر وہ اپنے طریقے پر قائم ہے تو مسلمان کو افسوس تو ہوگا مگر وہ اسکے خلاف کوئی لڑائی بھڑائی کا حق نہیں رکھتا۔ کسی انفرادی مسلمان کو کسی بھی آدمی پر زبان، ہاتھ یا کسی اور طریقے سے زیادتی کا حق نہیں ہے۔ سوائے اسکے کہ مسلمان پر کسی نے بلا وجہ زیادتی کی ہو تو وہ اسکا پورا حق رکھتا ہے کے برابر کا بدلہ لے اور اگر غلط فہمی سمجھ کر معاف کردے تو اس سے اچّھی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ جو جھوٹا پروپگنڈا ہے کہ مسلمانوں نے اتنے ہندو مار دیئے۔ مسلمانوں کیلئےیہ ممکن نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ جوش اور انتقام میں اسلام کے دائرے سے باہر ہو گیا ہو۔ اسلام میں تو بلا وجہ ایک انسان کا قتل کرنا ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان کا بچانا ساری انسانیت کا بچانا ہے۔ آئے دن کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے ہندووں کا قتل عام کیا تھا۔ سرا سر جھوٹ۔ مسلمان کی طرف سے پہلے ہاتھ اٹھانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کہ جس نے اللہ کی مخالفت کی وہ مسلمان نہیں ہے اللہ کی ناشکری کرنا ایک کافرانہ عمل ہے۔ کیونکہ اسلام کے عقیدے مِیں اللہ اپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے۔ ہمارے اوپر جو بھی مہربانی ہوتی ہے وہ اللہ کی طرف سے اور جو تباہی آتی ہے وہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہو تا ہے۔ مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ دوسروں کے خدائوں کو برا مت کہو۔ مبادہ وہ تمہارے اللہ کو برا کہیں۔ St/Scst/Obc/Aadivasi/Mulnevasi/ کو ہندو کہنے والا برہمن انکو اچھوت کہتا ہےاسنے انکے بنیادی حقوق غصب کر رکھے ہیں۔ مسلمان کیلئے تو بطور انسان یہ یقینا ہمارے بھائی ہیں۔ جھگڑا تو جب کھڑا ہو گا جب یہ انسانیت چھوڑ ہندو بن کر مسلمان پر ہاتھ اٹھایئں گے۔ حالانکہ ہندو مت کو تو برہمن خود نہیں مانتا۔ اسنے انکو ہندو اس لیئے بنایا کہ انسانیت کے خلاف سارے جرائم ان سے کرائے اور ستّا (پاور) میں بیٹھ کر حکمرانی کرے موج اڑائے۔ بہوجن کرانتی مورچہ نے مسلمانوں اور دلت پر ہجوم کے حملے (Moblynching)کے خلاف آواز اٹھائی ہے تو برہمن کے چمچوں کو بڑی تکلیف ہے۔ کہ دلت مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں پچھتایئں گے۔ دو ہزار سال سے جو دلت کیساتھ برہمنوں نے کیا وہ قابلِ تعریف ہے؟ جو انسانیت اور امن کی بات کرتا ہے ان شر پسندوں کو برا لگتا ہے۔ سوامی اَگنِیویشَ بھی امن کی بات کرتے ہیں اور مورتی اور چڑھاوے کے بزنس کے خلاف ہیں تو جنکی بزنس خراب ہو رہی ہے وہ سوامی کو برا کہہ رہے۔ برہمن نے اچھوتوں کو دیوی دیوتا بنا کر دیئے اور پوجا کے دان اور دیاپر برہمن کا ادھیکار (حق) پہلے۔ برہمنوں نے اچھوتوں کوستّر برس سے مردم شماری کے حق سے محروم رکھّا ہے تاکہ برہمن ہمیشہ ستّا (پاور) مِیں رہیں۔ اور برہمنوں کے ان چمچوں کا پرو پگنڈا ہے کہ مسلمانوں نے ہندووں کا قتل عام کیا ہے۔ حکومت نے بہت سے چمچے چھوڑرکھے ہیں ان میں ایک مہاشےپشپندرا بھی ہیں جن کو علی گڑھ یونیورسٹی مِیںِ مسجد کی دیوار کے نیچے پناہ مِل گئی تھی تو وہ مسلمانوں سے ان کی خوش اخلاقی کا انتقام لے رہے ہیں۔ اور ہر جگہ ایسے تقریریں کرتے پھر رہے ہیں جیسے بہت بڑے مسلم عالم ہوں اور اسلام کی پول کھول رہے ہوں۔ ایسوں کیلئے اللہ کہتا ہے کہ ان کیلئے ہدائت نہیں بلکہ جہنّم ان کی آمد کی منتظر ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو بھارت مِیں امن کے دشمن ہیں اسپر انکو غزوَہ ہندکا خوف بھی ہے۔ وہ تو قدرت کا لکھا ہے ہم کیا کر سکتے ہیں۔
آجکل انڈین میڈیا مِیں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف ہر وقت بکواس جاری رہتی ہے۔ یہ میڈیا سچی خبروں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔ اور حکومت کی چمچہ گیری میں لگا رہتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹی خبریں ان کا طرّہ امتیا ز ہے ABP نیوز نے ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف ایک خبر سنادی کہ ملیشیا نے ڈاکٹر ذاکر نائک کو بھارت کےلیئے گرفتار کرلیا ہے اور وہ کل تک واپس آجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ مگر ای۔ وی۔ ایم کے گھٹالا کےلئے انڈین میڈیا بالکل خاموش رہا۔ اچھوتوں کی اتنی بڑی آبادی کیلئے میڈیا خاموش رہتا ہے۔
ایک یہودی طارق فَتح مسَلمان کے بھِیس مِیں مسلمانوں کے خلاف انڈین میڈیا کے کسی نہ کسی چینل پر اکثر براجمَان ہوتاہے۔ اکثر انڈین میڈیا مسلمانوں کی رسوائی کیلئے مسلم پرسنل لاء مِیں چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے۔ ہمیشہ آ تنتواد (دہشتگردی) کا شور مچاتا ہے اور پلوامہ مِیں صرف الیکشن پر اثر انداز ہونے کیلئے اپنی فوج کے بیالیس سپاہی مروا دیئے۔ جتنی آ تنتواد حکومت کی آشر واد سے ہو تی ہے دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملے گی۔ اب مودی کا موڈ ہے کہ اننت ناگ مِیں کوئی ایسی گھٹنا کرے کہ لوگ ای، وی، ایم کا گھٹالا بھول جایئں۔
مسلمانوں کو دہشتگرد کہنے والے مشرقی پاکستان مِیں مکتی باہنی کا قتل عام بھول گئے؟ جس کو مودی نے قبول بھی کیا۔ جبکہ اس وقت پاکستان میں ایک بنگالی کو بھی کسی نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔
مودی نے گجرات مِیں قصَائی کا روپ اسلیئے اختیار کیا تھا۔ کہ برہمنوں کواپنی وفاداری کا یقین دلا دے۔
بَہر حَال وقت آچکا ہے ظلم کے بادل چھٹنے والے ہیں۔ ظالم کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ آخر ٹائم میگزین تو پہلے ہی بتا چکا ہے۔