مندرجہ بالا عنوان سے ایک مقامی روزنامہ کا کالم پڑھا جس میں یہ انتباہ تھا کہ اردو کو رومن طرز پر لکھ کر اس کا خاتمہ کیا جارہا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ روزانہ اشتہاری بل بورڈز پر اب رومن میں اردو لکھی جا رہی ہے اور اب ایس ایم ایس SMS میں بھی اس طرز تحریر کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، ویب سائٹس نے بھی اپنے شائقین کی اردو نہ لکھ پانے کی مجبوری کی وجہ سے رومن میں اردو تحریر کی اجازت دی اسی طرح میڈیا پر تبصرے اور مراسلے رومن اردو میں بھیجے جا رہے ہیں۔
یہ رجحان ہے تو خطر ناک اور خاص طور سے اردو جیسی زبان کے لیے جو ہمارے دینی اور اسلامی سرمائے کی امین ہے اس کا اپنے رسم الخط میں جو حسن اور نکھار ہوتا ہے بھلا رومن اردو طرز میں کیسے ہو سکتا ہے۔
میں نے کوئی بیس سال پہلے اس رجحان کی طرف توجہ دلائی تھی مگر دوستوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ میں آپ سے عرض کروں کہ یہ بات اب پائے ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہ یہودو نصاریٰ اپنے منصوبوں کو دوسو برس پہلے شروع کرتے ہیں اور غیر محسوس طریقہ پر اپنے حریف پر حملہ آور ہو تے ہیں اور کامیابی کے لیے پرسکون طریقہ پر انتظار کرتے ہیں۔ مسلمان چونکہ بے چینی اور بے صبری کا مزاج رکھتے ہیں لہذا یہ (Slow poisoning) سست زہر دینے کی اصطلاح سے نا بلد ہیں۔
ایسی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں جہان انہوں نے اپنے فاتح (Invador) ہونے کے زعم پر ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد وزن اور سکّوں کے نظام میں دخل در معقولات کر کے سیر کے بجائے کلو گرام رائج کیا اور سکّوں کو اعشاری نظام میں تبدیل کیا ہمارا وزن اور سکّوں کا نظام بائنری (Binary) پر مشتمل تھا جس کو انہوں نے اعشاری میں تبدیل کر کے غریب آدمی کو نقصان پہنچایا اور سرمایہ دار کی حوصلہ افزائی کی۔ اشیائے خوردو نوش کے چھوٹے اوزان۔ سیر۔ آدھ سیر۔ پاؤ۔ آدھ پاؤاور چھٹانک تھے انہوں نے ادھا سیر (آدھا کلو کے قریب )کے پیکٹ سے نیچے 500 گرام کا آدھا 250 گرام نہیں کیا بلکہ 200 گرام کے پیکٹ بنوائے اس طرح چھٹانک والا پیکٹ 125 گرام کے بجائے 100 گرام رہ گیا کیوں کہ وزن کے بانٹ بھی اسی طرح ہیں لہذا چھوٹے پیکٹ خرید نے والوں کو 50 اور 25 گرام کا نقصان ہوا قیمت وہی اور وزن کم۔
جب کہ سیر اور من والے نظام میں زبانی فارمولے بنے ہوئے تھے جیسے جتنے آنوں کی چھٹانک اتنے روپے کا سیر وغیرہ۔ اسی طرح ہمارے سو سال سے زائد رائج نظام کی پوری جہت کو خراب کر دیا گیا۔
اسی طرح انہوں نے بڑی ہوشیاری سے اردو پر شب خون مارنے کی مہم شروع کر دی ہے کیوں کے بش نے جس صلیبی جنگ شروع کرنے کا تذ کرہ کیا تھا تو یہ کوئی مذاق نہیں تھا اسلام انکا دوسراحدف ہے اور اسی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ اردو میں رومن رسم الخط رواج پاجائے اورہماری نئی نسل اسلاف (بزرگوں ) کی لکھی ہوئی ہزاروں کتابوں کے پڑھنے سے محروم ہوجائے اس طرح اسلامی لٹریچر کا وجود خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ انٹرنیٹ کے جادو نے کتب بینی کے شوق پر ویسے ہی کاری ضرب لگائی ہے۔
جب کمال اتاترک نے ترکی زبان کے عربی رسم الخط کو رومن میں تبدیل کیا تو اسکامقصد بھی نئی نسل کو اسلامی ادب سے محروم کردینا تھا اور دوسری طرف اس نے شائر اسلامی پر بھی حملہ کیا اور خواتین کے حجاب پر پابندی لگائی۔ اسکرٹ پہننے کی ترغیب دی۔ بھلا ایسا آدمی اتاترک (ترکوں کا باپ ) کیسے ہوسکتا ہے۔ مگر یہ میڈیا اور انگریز کا پروپگنڈا تھا جس نے یہ سب کچھ کر دیکھایا میڈیا کو عقل سے پیدل نہ ہونہ چاہیئے اور ملکی تہذیب و تمدن کی سلامتی اور بقاء کے لئے میڈیا کو لگام دی جانی چاہیئے ہر جگہ مسلمانوں کو چوکس رہنا چاہیئے کہ دشمن کس درآڑ سے گھسنے کی کوشش کررہا ہے اور اس کو وہیں پر روک دینا چاہیئے۔ آج کل میڈیاکی غیر ذمہ داری کی وجہ سے بہت سے احمق بھی دانشوری کے دعویدار ہیں اور سستی شہر ت کی خاطر (Leftist) اصحاب الشمال بننا پسند کرتے ہیں اور اصحاب الیمین (Rightest) پر حملہ اور ہوتے رہتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس اصطلاح کو سورۃ واقعہ میں استعمال کیا ہے۔ اور وہاں اصحاب الشمال سراسر نقصان میں بتائے گئے ہیں افسوس آج کے نام نہاد دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ Leftist ہونا جدّت پسندی ہے اور Rightist ہونا قدامت پسندی ہے۔ میڈیا میں جمہور کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ جبکہ یہ اکثر فسق و فجور پر مبنی ہوتی ہے ابھی ہم نے ارٹیکل 62-63 کہ اطلاق پر میڈیا کہ تبصرے سنے ہیں ہمارے ہاں خواندگی کا فیصد اسقدر کم ہے کہ عوام کی اکثریت سوائے جہالت کے اور کیا اظہار کرسکتی ہے۔ وہ اپنی نادانستگی پر مغرور ہیں اور فخر سے بھیڑ چال کو اچھا سمجھتے ہیں۔
ترکی میں رومن رسم الخط کی کامیابی سے پہلے یہود و نصاریٰ نے ملیشیاء اور انڈونیشیا مسلمانوں کی بڑی آبادی والے ملکوں میں اس تجربے کو آزمایا تھا۔ اور برسہا برس کے اسلامی ادب کو تباہ کردیا تھا 20 سال کی قلیل مدت میں ملیشیاء اور انڈونشیا میں خط جاوی میں لکھی جانے والی اسلامی کتابیں پڑہنے والے ناپید ہوگئے اور اس حوالے سے مسلمان قرآن کریم پڑھنے سے بھی محروم ہونے لگے۔
ملیشیاء کی برطانوی تسلط کی آزادی کے بعد ان کے محب وطن اور اسلام پسند حکمرانوں اور دانشورں نے دوبارہ خط جاوی کو زندہ کرنے کے لئے ابتدائی اسکولوں سے تعلیم کے اعلی مدارس تک خطِ جاوی طرز تحریر کی تعلیم شروع کی اور قانون بنادیا کے ہر سڑک کانام انگریزی کے ساتھ خط جاوی میں بھی تحریر کیا جائے گا۔ سرکاری دفاتر میں بھی تمام بورڈ اس خط جاوی سے تحریر کئے گئے۔ اس طرح انھوں نے اپنی زبان اور اس کے طرز تحریر کو زندہ کرلیا مغربی استعمار نے ناچ گانے اور شراب خانے کا روا ج عام کردیا تھا تو آزادی کے بعد انھوں نے اسلامی طرز زندگی کو نشاۃ ثانیہ بخشی مسجدیں اور مدرسے آباد کئے۔ مہاتر محمد نے کہاتھا اب یورب کی طرف دیکھنا چھوڑدیں اور مشرق بعید کی طر ف دیکھیں۔ ملیشیاء کی رکارڈ ترقی ہم سب کے سامنے ہے جو قومیں اپنی تاریخ تہذیب و تمدن کو نہیں بھولتیں وہ آنے والی مشکلات پر قابو پاکر ترقی کی نئی راہیں ڈھونڈ لیتی ہیں۔
گورے کا یہ حملہ غیر مسلم اقوام پر بھی کار فرما تھا تاکہ ان کی یکجہتی کو تبا کردیا جائے اور Divide and Rule کے مطابق حکومت کی جائے۔ انھوں نے ویتنام، کمبوڈیا وغیرہ کی زبان کو بھی رومن میں لکھنا شروع کردیا حد یہ ہے کہ چینی (کانجی )رسم الخط کو چھوڑ کر رومن کا لبادہ پہنایا اور اسکا کمال یہ بتایا کہ چینی زبان میں ہر لفظ کی ایک تصویر ہے اس طرح کم از کم چار ہزار الفاظ کا یاد کرنا اور ان کے لکھنے کا طریقہ بہت مشکل ہے حالانکہ اس تصویر کشی (کانجی )والے طریقے سے پورا مشرق بعید ایک یکجہتی رکھتا تھا مگر ویتنام پر فرانس کے تسلط کے دوران انھوں نے ویتنامی زبان کو رومن کردیا تھا۔
چین کا ہزاروں برس سے تصویر کشی کا طریقہ کانجی کہلاتا تھا اور کانجی طرز تحریر پور ے مشرق بعید میں جانا پہچانا جاتا تھا۔ یعنی چاپانی، چینی اور ویتنامی سب کانجی میں ایک ہی طرح لکھتے تھے سب اس کو سمجھ سکتے تھے اگرچہ تلفظ الگ الگ ہونے کی وجہ سے مختلف انداز و آواز میں پڑہتے تھے۔ مثال کے طور پر پانی کے لیے بنائی ہوئی تصویر کو جاپانی میزو پڑھتا ہے اور چینی شوئی کہتا ہے۔
اسی طرح سارے مشرق وسطیٰ میں عربی رسم الخط رائج تھا حد یہ ہے کہ سلطان محمد کے زمانے سے عربی رسم الخط بحرمتوسط (Maditranion) میں داخلے سے لے کر چین تک عربی رسم الخط ہی مستعمل تھا جس کو انڈونشیا اور ملیشیا میں کچھ تبدیلی کے ساتھ خط جاوی کہا جاتا تھا۔ آج بھی چین کے کرنسی نوٹ پر خط جاوی میں چین کا نام لکھا ہوا ہوتا ہے۔ لہذا مسلمانا ن عالم کو رومن رسم الخط سے محتاط رہنا چاہیئے اگر خدانخواستہ یہ رواج پاگیا تو مسلمانوں کو بڑا نقصان ہوگا۔
صدر محمد ایوب کے دور میں اخبار جنگ میں رومن روسم الخط کے فروغ کے لئے ایک مہم چلائی گئی تھی اور اسکا ایک نمونہ ہر روز اردوکے ساتھ پیش کیا جاتا تھا اس کے نیچے ایک ٹوکن ہوتا تھا جس کے لئے کہا جاتا تھا کہ آپ اس ٹوکن کو ارسال کریں کہ آپ رومن کے حق میں ہیں یہ اس کے خلاف اس وقت کے مسلمانان پاکستان نے بھرپور مخالفت کی تھی۔
میری آپ سے بھر پور استدعا ہے کہ اردو کو اس کے رسم الخط کے ساتھ فروغ دیں اور اسی میں ہماری بھلائی اور یکجہتی ہے-