اللہ رب العزت نے تخلیق آدم کا ارادہ کیا تو فرشتوں نے کہا تھا کہ ہم آپ کا تقدس اور حمد بیان کرتے ہیں اور یہ فساد کرے گا اور خون پھیلائے گا تو اللہ آدم ؑ کو شرف سے نوازا (تمام نام سکھائے) اور پھر فرشتوں سے پوچھا کہ جوکچھ آدم ؑ جانتے ہیں تم بتاؤ اگر تم جانتے ہوتو فرشتوں نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا تو اس بناء پر اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ آدم ؑ کو سجدہ کرو اور سوائے ابلیس کے ان سب نے سجدہ کیا۔ ابلیس نے تکبرکیا اور اس بنا پر مردودکہلایا اللہ نے اسے اپنی بارگاہ سے نکال باہر کیا۔
جس طرح دوسرے حیوان ہیں اسی طرح بنی آدم ؑ بھی حیوانوں کی فہرست میں ہے مگر اسکو بولنے کا شرف عطا ہونے کی وجہ سے یہ حیوان ناطق قرارپایا اور اللہ کے دیے ہوئے علم کی بنیاد پر اشرف المخلوقات کہلایا۔
حیوانوں میں ان کے اعمال جبلت کے ماتحت ہیں اور ان میں اختیاری اعمال کا وجود نہیں ہے جس کی وجہ سے دنیا میں آنے کے امتحان سے شاید مبراء ہیں اور آدمی کو اللہ نے اس کے اعمال پر ایک حصہ اختیار دیا ہے اور اسی وجہ سے اس کے لئے دنیا دارالامتحان ہے خود غرضی ایک جبلت ہے جو آدمی اور حیوان میں مشترک ہے اور اختیارِ عمل کے ذریعے آدمی کو اس سے محفوظ رہنے کے لئے انسایت کا لبادہ پہننا پڑتا ہے جو علم کی صورت میں اس کے اندر تخلیق کے وقت عطا کیا گیا تھا مزید یہ کے آنے والے انبیاء نے اس میں اور بہتری پیدا کی دنیا میں اللہ نے اپنے رسولوں پرصحیفے اور کتا بیں نازل کیں، اور قیامت تک رہنمائی کے لئے آخری کتا ب قرآن کریم عطاء فرمائی اور آخری رسول نبیؐ کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ یہاں پہنچ کر آدمی ایک مکمل انسان کے شرف کو پہنچتا ہے جو آدمی قرآن کریم اور سیرت رسول ﷺ سے نا واقف ہے وہ شرف انسایت سے محروم ہے آپ اسے حیوان ناطق تو کہہ سکتے ہیں مگر انسان نہیں۔
اسلام کا مقصد آخرت کے یقین کی بنیاد پر پُر امن زندگی ہے لہذا ہمشہ یہ ہوا کہ آدمیوں کی بھیڑ (اکثریت) جسے آپ جمہورکہہ سکتے ہیں کے لئے۔ اللہ کا ایک فرستادہ مبعوث کیا جاتا رہا اوراس نے آدمی کو انسانیت کا درس دیا اور جمہور نے ہمیشہ اللہ کے بھیجے ہوئے نبی کو ستایا اس کی تکذیب کی اس کا مذاق اُڑایا اور اسے قتل کرے نے سے بھی گریز نہ کیا بنی اسرائیل کے طرز عمل پرقرآن میں کئی واقعات بتائے گئے ہیں۔
شیطان نے حسب تمنا آدم ؑ کی اولاد کو گمراہ کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے، جس کے لیے نت نئے طریقے آزماتاہے جیسا کے حضرت موسیٰ ؑ کے کوہ طور پر جانے کے بعد سامری کے ذریعے سونے کا بجھڑا بنوادیا اور نا فرمانی اور بے غیرتی کو ان کا دین بتایا اگر آپ توجہ فرمائیں تو شیطان نے جمہور کو غلط راستے پر ڈالا حضرت موسیٰ ؑ کی واپسی تک حضرت ہارون ؑ تنہا رہ گئے تھے۔
ہمارے ہاں اکثریت کے عمل کو صحیح سمجھا جاتا ہے جب کے عموماََ اکثریت غلط راستے پر ہوتی ہے (اکثرالناس ھم الفاسقون)۔
حضرت نوحؑ کو جمہور نے اتنا تنگ کیا کے انہوں نے ان کے حق میں بد دعا کی اور اللہ نے حضرت نوحؑ کو کشتی بنانے کا حکم وحی کیا (وحی اس لئے کے کشتی کا بنانا کوئی معمولی کام نہیں تھا اللہ نے اس کی ساری انجنیئرنگ ان کو سکھائی) اور اسطرح حضرت نوحؑ کو اللہ نے نا فرمان جمہور سے بچا کر جمہور کو عذاب (سیلاب) میں ڈبو دیا۔
فرعون اپنی جمہور کے ساتھ خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کر دیتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا۔ اللہ نے حضرت موسیٰ ؑ کی پیدائش سے لے کر نبوت اور نبوت سے لے کر فرعون کے غرق ہونے تک حفاظت فرمائی۔ فرعون غرق ہوگیا تو بنی اسرائیل کی جمہور اپنی نا فرمانی اور ڈھٹائی پر جمی رہی اور اللہ نے ان کو کیسے کیسے عذابوں سے گذارا۔
قرآن شریف ان کا شاہد ہے کے عادثمود کی سرکشی کا اللہ نے کیا جواب دیا انہیں اپنے قد کاٹھ اور پہاڑوں کو کاٹ کر گھر بنانے پر بڑا ناز تھا اللہ کے حکم سے پتھروں کی بارش نے ان کو تباہ کردیا ان کے آثار آج بھی اردن کے پہاڑوں میں پیٹرا (Patra) کے نام سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
صدوم (Sodom) حضرت لوط علیہ سلام کا علاقہ جس طرح بر باد ہوا یہاں بھی جمہور غلط راستے پر تھی حضرت لوط علیہ سلام تنہا ان کو اللہ کے حکم کے مطابق راہ راست پر لانے کی کوشش کر تے رہے ( ان کے آثار بحیرۂ مردار کے آس پاس دیکھے جاسکتے ہیں)۔
اصحاب کہف بھی گمراہ جمہور سے بچنے کی خاطر غار میں جا چھپے تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ سلام بھی جمہور کے سامنے تنہا تھے اور جمہور نے انہیں آگ میں پھینکنے کی سزا تجویز کی اللہ رب العزت نے اپنے بندے کے لئے آگ کو سلامتی کا حکم دیا۔
آپ جہاں بھی دیکھیں گے جمہور بھٹکی ہوئی نظر آئے گی میں آپ کو بہت ہی قریب کی مثال دیتا ہوں کہ مسافروں کا ایک بحری جہاز (Poseidon) تھا بحرِ متوسط (Medetranian Sea) میں کوئی (1974) کے آس پاس یونانی سمندر میں زلزلے کی تیس میٹر بلند لہر اُٹھنے کی وجہ سے الٹ گیا تھا ( Up Side Down) جہاز کا پیندہ سطح پر نظار آتا تھا اور جہاز سمند ر میں الٹا ڈوبہ ہوا تھا اس میں چارسو سے زیادہ مسافر تھے۔ سوائے چند کے جن کو (Propelar) پنکھے کے پاس تک پہنچنے کی وجہ سے پیندہ(Bulk Head) کاٹ کر بچالیا گیا تھا دوسرے سارے لوگ ڈوب کر مرگئے۔
ہالی وڈ نے اس پر ایک فلم (Posidon Adventure) بنائے ہے آپ اس میں دیکھیں گے کے جمہور راستے کا تعین اکثریت پر کرنا چاہتی تھی اوراقلیت (ایک چھ سال کا بچہ) کے مشورے کو غلط سمجھ نے کی وجہ سے بھٹک کر ڈوب گئی۔ آج بھی آپ کو اس طرح کے مشاہدات سے واسطہ پڑسکتا ہے۔
مگر مغرب نے شیطان کی امامت میں جمہور اور جمہوریت کو مقدس سمجھا ہے اور بربادی کے اس عمل مسلسل پر شیطان بڑا خوش ہے، مغرب زدہ نام نہاد مسلمان غلامی کے اثرات کے تحت مغربی فکر کو اچھا جانتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا جدت پسند اور مہذب سمجھتے ہیں، حکومت کر نے کا یہ طریقہ ان کو شیطان نے سکھایا ہے (Democracy of The People For the People & by the People) گمراہی کا ایک مستند فارمولا بنادیا گیا ہے۔
افسوس ان مسلمانوں پر ہوتا ہے کے اللہ کی ر ہنمائی کے با وجود شیطان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور اپنے لیے اسی گمراہی کو راہ نجات سمجھتے ہیں، گذشتہ پانچ سالوں میں پاکستان میں جس قدر جمہوریت کے پرچار کیا گیا ہے اس کی کوئی حد نہیں اور کسی نے یہ حساب نہ لگایا کے ملک تباہی کی کس منزل تک پہنچ گیا علامہ اقبال نے کہا کہ جمہوریت ایک طرز سے حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے مگر جو اللہ سے ہدات نہ مانگے اسے ہدایت کیسے مل سکتی ہے کاش کے مسلمانا ن پاکستان اس حقیقت کو سمجھتے ہماری فلاح صرف اللہ کی کتاب قرآن کریم کے احکام کی پابندی میں ہے۔