کراچی میں عرصہ دراز سے پینے کے پانی کی شدید قلّت ہے۔ مگر مافیا کی بہت افراط ہے۔ رشوت کی وجہ سےسرکاری اداروں کا کوئی نظم نہیں ہے۔ واٹر بورڈ کو اسکی ذمّہ داریوں کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ اگر خدانخواسطہ ان کو اپنی ذمّہ داریوں کا علم ہو جائے تو انکی رشوت کے کھانچے کھل جائیں گے۔ مثال کے طور پر یہ واٹر بورڈ کی ذمّہ داری ہے کہ ہر کسی کو پانی فراہم کرے۔ لہٰذا مافیا چوکس ہو گیا اور ٹینکر سے پانی سپلائی میں بے ضابطگی کے سبب مال بنانا شروع کر دیا۔ یہاں کے لوگ بھی فنکار ہیں۔ جہاں ممکن ہوا بورنگ سے پانی نکالکر ہائڈرنٹ لگالیئے اور پانی بیچنے کا کاروبارپرائیویٹ میں بھی چل پڑا۔ آبادیوں میں لوگوں نے گھر کےسامنے بورنگ کرا کر پانی حاصِل کیا۔ فیکٹریوں کو بھی تو پانی سپلائی کرنا بڑا کاروبا ر ہے۔ اسکے لئے لیاری ندی میں لیاری بائی پاس کے پل کے نیچے بورنگ کر کے وہاں سے فیکٹریوں کو پانی سپلائی کا کاروبار عروج پر ہے۔ سرکاری افراد کی شائد سمجھ میں نہیں آیا کہ یہاں یا کہاں کہاں کھانچہ فٹ کریں۔ اب ذرا اس کار گذاری کا تکنیکی جائزہ لیا جائے۔ بستیوں میں ہر گھر کے سامنے بورنگ نے ساری زمین کو چھلنی کردیا ہے۔ اور بڑے ہائدرنٹ کیلئے بڑے بور کے پائپ چار سو فٹ تک کی گہرائی کو چھو رہے ہیں۔ اسی طرح آبادیوں میں بھی گہرائی کا مقابلہ ہے کیونکہ میں نے ساٹھ فٹ تک بورنگ کرائی تھی۔ پڑوسی کو لگا کہ پانی کم آ رہا ہے۔ اسنےبورنگ سو فٹ کرادی۔ کچھ عرصَہ میں میری بورنگ میں پانی کم ہوتے ہوتے غائب ہو گیا۔ کیونکہ ساٹھ فٹ کا پانی سو فٹ کی بورنگ کی طرف جا کر میری بورنگ سے غائب ہو گیا۔ اب میں نے سو فٹ تک بورنگ کرالی تو دوسرا پڑوسی اور نیچے اتر گیا۔ اس طرح بورنگ کے کاروبار میں بڑا مال بننے لگا۔ اور رفتہ رفتہ۔ زیرِزمین پانی بھی غائب ہو رہا ہے۔ کیونکہ کراچی میں بارش سے محرومی ہے۔ اس لیئے زیر زمین پانی کے سطح کیسے بلند ہو۔ کوئی ادارہ ہے جو اس معاملے میں کسی نظام کیمطابق اس صورتِحال کا سامنا کرے گا؟ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ اب جہاں بھی بورنگ ہو گی ادارے کے افراد یا کوئی بھی ہمہ شمہ بورنگ والوں سے رشوت بٹورنا شروع کر دے گا۔ کیونکہ یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ طرح طرح کے کھانچے کھلے رہیں۔ اور اسی لیئے اسمبلی میں تعلیم نہ ہونے سے جمہوریت کے حسن کو بڑھاوا ملتا ہے۔ کسی علم ارضیات کے ماہرسے معلوم کیا جائے کہ اس بےہنگم بورنگ سے زمین کو کیا نقصان ہو گا۔ کسی اَرضی آفت سے زمین تو نہیں بیٹھ جائےگی۔ زلزلے کا ہلکا پھلکا جھٹکا سنگین تو نہین ہو جائے گا۔ لیاری بائی پاس کے پل کے نیچے چوڑی اور گہری بورنگ اس پل کو تو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ کسی نے پوچھا بھائی تمہارے پیٹ میں درد کیوں ہے، میرا جواب ہے کہ میں نے انگریزوں کی غلامی میں رہ کر آزاد پاکستان حاصل کیا تھا۔ نئی نسل کا کیا ہے انہیں کیا پتہ کہ آزادی کی قیمت کیا ہو تی ہے۔ یہ بھی آزادی کے بڑے قدرداں ہیں مگران کو اپنی قدروں سے آزادی چاہیئے۔ انکو سب کچھ انکے اپنے لیئے چاہیئے۔ پرویز مشرّف کا نعرہ تھا، سب سے پہلے پاکستان، اور پاکستان یہ خود اپنی ذات میں تھا۔ جیسے دونوں بڑے چوروں نے۔ جو کیا اپنے لیئےاور اپنے بچّوں کیلئے کیا۔ اور انہوں نے پاکستان کی رگوں سے پائی پائی نکال لی۔
آجکل ٹیکس (Net) کے جال میں غریب آدمی کو بھی ڈالنے کا سوچا جا رہا ہے۔ جبکہ امیر آدمی کو تو پلیبارگین (Plea. Bargain) میں بھی فائدہ ہے۔ سو چرائے تو پچاس واپس کیے۔ جبکہ ڈاکٹر شاہد مسعود بتا رہے تھے کہ کسی سرکاری ذریعے نے کہا ہے کہ یہ گھروں کے ملازم اور مزدور بھی بہت کماتے ہیں ان سے بھی ٹیکس لینا ہے۔ مجھے لگا کہ عمران خان کی حکومت ایسے تو گری نہیں ا ب بد دعائوں سے گرانے کا منصوبہ ہے۔
معصومیت تو پاکستانیوں پر ختم ہے۔ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکس نہیں دیا جاتا۔ کہتے ہیں کہ انگریزوں کی غلامی کے دور میں ٹیکس نہ دینا ہمارا کلچر بن گیا تھا۔ بھائی آپ فائلر سے زیادہ ٹیکس تو نان فائلر سے لیتے ہیں۔ موبائل ہی کی مثال لے لیجیئے۔ سو روپے کے کارڈ پر ستّائیسروپے کارڈ لوڈ کرتے ہی کٹ گئے۔ پھر ہر کال پر پلس ٹیکس۔ جی ایس ٹی الگ ایک مصیبت ہے۔ پیٹرول پر ٹیکس۔ بجلی پر جی ا یس ٹی پلس انکم ٹیکس۔ اسی طرح گیس پر۔
جو چیز خریدیں گے اس پر جی۔ ایس ٹی۔ جو سروسز ہونگی ان پر ٹیکس۔ اب آیئے، ٹھیلہ لگانے والوں پر پولیس کا بھتّہ پلس انکم ٹیکس( میں لانے کا پروگرام طے ہے) موٹر سایکل اسٹینڈ پر جعلی رسید اور اکثر بغیر رسید گاڑی چوری ہو جائے تو کوئی ذمہ اری نہیں۔ موٹر بائیک پر ھلمیٹ ضروری ھلمیٹ کامعیا رنقلی۔
اگر پوچھیں کہ آپ کیا دیں گے۔ جواب۔ ایک شاندار مستقبل وہ کیا؟ آنے والی گورنمنٹ ا س سے زیادہ کیا کرے گی لا محالہ رلیف دیگی۔ تو وہ ریلیف ہماری وجہ سے تو ہو گا؟