1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید حسین عباس/
  4. کھول آنکھ فلک دیکھ فضا دیکھ

کھول آنکھ فلک دیکھ فضا دیکھ

آپ نے کہانی سنی ہوگی کہ پہلے زمانے میں بادشاہوں کا انتخاب اس طرح ہوتا تھا کہ کسی مقررہ تاریخ پر صبح صبح شہر میں آنے والے پہلے شخص کو بادشاہ بنا لیتے تھے۔ یا جس کے سر پر اْلّوبیٹھ جاتا تھا اس کے سر پر بادشاہی کا تاج رکھ دیتے تھے۔ مجھے ایسا ہی لگتا ہے کہ بھارت اور پاکستان میں بھی بادشا ہ کےلئے شائد انتخاب کا یہی طریِقَہ ہے۔ حکومت کرنا ایک پِتّہ ماری کا کام ہے اسکا کوئی ایک معیار اور اصول ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں صَاحِبِ اقتدار یِہ سمجھتا ہے کہ اسکے سر پر جو اقتدار کا اْلّو بیٹھ گیَا ہےاس خوش قسمتی کی علامت ہے کہ پل کَھائوسڑک کھائو بے دھڑک کھائو اور یہ باپ کا مال سمجھ کر سارا ملک کھا گئے۔ ان کو کیا خبر کہ ملک کیسے چلتا ہے اور کیا ذمّہ داریاں ہوتی ہیں۔ اور یہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے کہ شاید کچھ سیکھ لیتے۔ دوسرے ملکوں میں بھی انہوں نے سوائے پیلا ہائوس، سینٹ پاولی، اور منڈیوں کے کچھ دیکھا نہیں ہوتا۔ بڑا تیر مارتے ہونگے۔ تو شیواذریگل، جانی واکر اسٹل گوانگ اسٹرانگ کی خبرسنی ہو گی۔ یہ سب لوگ ملک کو گرانے اور لوٹ مار کرنے میں کوئی پس و پیش کرنے والے نہیں ہوتے۔ جمہوریت کا نظام جاہلوں کی وہ بسَاط ہےجسپر ان جیسے بد قمار جو چال بھی چلتے ہیں وہ نہایت بری ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں اگر معقول حکمرانی ہوتی۔ اور تعلیم کی کوئی حکمت عمَلی ہوتی توہمارے ہمسَایہ ممٰا لک کی تاریخ اور مسَائل سے ہمیں آگاہی ہوتی۔ اسطَرح ہمیں اپنے ملک کےمسَائل سے نمٹنا آ جَاتا۔ اللہ نے ہماری ہمیشہ فاظت فرمائی اور محب وطن لیڈر بھی عطا کیئے۔ مگر ہماری جَمہور، ہمیشہ، َاکثَراْلنّاس ھْم الفاسِقون کے مِصداق ہر اچھے لیڈر کے پیچھے پڑ گئی۔ اور ہر فاسق کی حمائت کرتی رہی۔ اختلاف رکھنے والے لوگ کبھی بھی کسی ایک معقول بات پر متحد نہیں ہو سکتے۔ اور یہی جَمہوریت کا حْسن نواز شریف اور زرداری کو پالتا ہے۔ حکومت چلانے کے لیے کوئی قابل آدمی جو حکومت کے نشیب و فراز سے واقف ہو۔ لوگوں کے حقوق کو سمجھتا ہو ورنہ حکومت کے کاروبار کو برباد کرنا لوٹنا انکا طرّہ امتیاز ہوتا ہے۔ پکڑے جانے پر پوچھتے ہیں کہ انکاجرم کیا ہے۔
ہمارے لیڈر اپنے ملک سے واقف نہیں ہوتے تو ہمسَایا ملک کو کیا جانیں گے۔ ہمسَایا ممالک ایک دوسرے کی تاریخ سے واقف ہوں۔ اور ان کی عوام ایک دوسرے کے مزاج کو جانتے ہوں۔ ہمارے ذہنوں میں ہمارا سسٹم اور دینوا ضح ہو اور ہم اپنے اصولوں پر غیر متزلزل ہوں۔ تب تو ہم اپنے دشمن پر قابو کر سکتے ہیں۔ ہمارے نام نہاد پڑھے لکھے سورہ اخلاص سے نا واقف جمہوریت پر بڑے بڑے بھاشن دیتے ہیں۔
بھارت کو سمجھنے کیلئےبھارت کی اندرونی صورتحال کو جاننا ہو گا۔ بھارت میں آبادی کا ساڑھے تین فیصد(براہمن) بقیہ ۹۶ فیصد پر انکی مرضی کے خلاف حکومت کر رہاہے۔ ایس ٹی۔ ایس سی۔ او بی سی۔ مولنواسی۔ آدی واسی۔ مسلمان۔ سکھ۔ عِیسائی۔ بودھ۔ جَین۔ لنگائت۔ یہ کہتے ہیں کہ جب انگریز بھارت کو چھوڑ کر گیا تو شاید براہمن تو آزاد ہوا مگر براہمن کی غلامی سے ان کو آزادی نہیں ملی۔ جبکہ ۱۸۴۸؁ مِیں مسِٹرجوتی راو پْولے نے شودر اور نیچی ذاتوں کی آزادی کی تحریک چلائی۔ تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ گاندھی نےانگریزوں سے آزادی دلائی۔ مگر گاندھی اس تحریک کے چلائے جانے کے اکیس سال بعد پیدا ہوئے۔ (۲، اکتوبر ۱۸۶۹)
گاندھی جی اور کانگریس کے خیال مِیں انگریزوں نے بھارت کو غلام بنایاتھا۔ مسِٹر جوتی راو پوْلے کا کہناتھا کہ براہمنوں کو انگریزوں نے غلام بنایا ہو گا مگر شودروں اورنچلی ذاتوں کوتو براہمنوں نے غلام بنا رکھا ہے۔ اسلیئے وہ اس جدوجہد میں تھے کہ انکی پچّاسی فیَ صَد آبادی کو آزادی ملنی چاہیئے۔ جنکوبراہمنوں نے غلام بنا کر چھ ہزار ذاتوں(جاتی) میں تقسیم کر کے انکو اپنی مرضی کے کام بھی بانٹ دیئے۔ جیسے شودروں کو فضلہ اور گندگی اٹھا کر صفائی کا کام دیا۔ اور عام آبادیوں کے بجائے انکی بستیوں کو مرگھٹ اور گندے نالوں کے آس پاس بنانے کا پا بند کیا۔ انکے بچوں کو تعلیم کے حق سے محروم کردیا۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آج اکّیسویں صدی میں بھی یہ سوچ اسیطرح ہے۔ آج بھی یہ لوگ اچھوت کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ اور یہ بھارت میں بہت ذلّت کی زندگی گذارنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ اور براہمن انکو دہشت گردی کیلئے بھی استعمال کرتا ہے۔ اوراسنے مسلمانوں کیخلا ف شدید پروپگنڈا کیا ہے کہ صرف مسلمان ہی دہشت گرد ہوتا ہے۔ اور اچھوتوں کے ساتھ اس کا عمل آتنت(دہشت) نہیں تو اور کیا ہے۔ مگر اس نے اچھوتوں کو بھی مسلمانوں کے قتلِ عام پر آمادہ کیا ہے۔ اور ساڑھے تین فیصد کی آبادی کا براہمن پندرہ فیصد آبادی والےمسلمانوں کو اقلیّت کہتا ہے۔ اور اس بات کی اس طرح تکرار کی کہ مسلمان بھی ماننے لگے کہ وہ اقلیّت میں ہیں۔ براہمن کی اقلّیت تب اکثریت میں تبدیل ہوتی ہے جب ہم بھارت کو ہندوستان کہتے ہیں ورنہ اچھوت ہندو نہیں ہیں۔ بھلا کوئی خود کو اچھوت کیسے کہ سکتا ہے۔ یہ کلنک کا ٹیکہ تو براہمنوں نے لگایا ہے۔ اور ہندوستان کی نسبت سے انکو ہندو بھی کہتا ہے اسطرح اپنی تعداد کو اکثریت بنالیتا ہے۔ مگر اچھوت کو برابری کا حق نہیں دیتا۔ اور یہ ہندو کا لفظ انکی کسی کتاب میں بھی نہیں ہے۔ براہمن اپنے آپ کو آریا سماج کہتا ہے۔ انکے ہاں ایشور(اللہ) کی کوئی تصویر یا مورتی نہیں ہو سکتی اور نہ اسکے ساتھ کسی کو شریک کیا جا سکتا ہے۔ مگر انہوں نے اچھوتوں کو طرح طرح کے بھگوان بھی بنا کر دئے چھ ہزار ذاتوں کے الگ الگ مندر بھی بنائے۔ تاکہ انہیں لڑانا آسان ہو۔ اگر ان میں اتحاد ہو گیا تو براہمن کہاں جائے گا۔ جوتی راو پولے نےبراہمنوں کی طرفسے عائد کی ہوئی اس ذلّت کیخلاف آواز اٹھائی۔ (۱۸۴۸؁) شاہو مہاراج اور بابا صاحب(بھیم راو امبیڈکر) نے جوتی راوپولےکے مطابق آزادی کی تحریک کو آگے بڑھایا۔ لہٰذ ا ۱۹۱۶؁ کو کام شروع کیا اور ۱۹۱۸؁ کو ساوتھ وردک کمیشن کو تحریری طور پر کہا کہ شودروں اور نیچی ذاتوں(اچھوتوں) کی علیحدہ نمائندگی ہونی چاہیے۔ بال گنگادر تلیک نےمخالفت کی۔ اس وجہ سے انگریزوں نے نہیں مانا۔ ۱۹۱۹؁ کے قانون فرسٹ انڈیا ایکٹ کو بھیچک راو یادو نے نہیں مانا۔ ۱۹۲۸؁ میں سَائمن کمیشن نے یہ طے کیا کہ تمام نچلی ذاتوں اور اقلّیتوں کو نمائندگی دی جائے گی۔ اس وقت تک گاندھی جی کانگریس کے لیڈر بن چکے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اسطَرح تو اچھوتوں کو آزادی مل جائے گی۔ (گاندھی جی ذات میں َبنْیا اوراچھوتوں سے ذرا اوپر تھے۔ براہمن نے ذاتوں کو اسطرح بنایا کہ براہمہ کے مْنہ سے براہمن پیدا ہوا(حکمران) اور چھاتی سے چھتری(فوجی) پیٹ سے ویش(تاجر) اور پیروں سے شودر (اچھوت)
لِہٰذا گاندھی جی نے سائمن کمیشن کے خلاف آواز اٹھائی کہ اگر انگریزوں نے بابا صاحب کی بات کو مانتے ہوئے اچھوتوں کو نمائندگی دی تو میں جان دے دوں گا مَگر ایسا نہیں کرنے دوں گا۔ اگست۱۹۳۲؁ بابا صاحب کے مطَالَبات مان لیئے گئے۔ یعنی باباصاحب نے براہمنوں سے الگ ہو کر اچھوتوں کے ووٹ اور آزادی رائے کو منوالیا تھا۔ ستمبر ۱۹۳۲؁ میں گاندھی نے بھوک ہڑتال کی اوراچھوتوں سے یہ حق چھین لیا گیا۔ اور براہمنوں کو اچھوتوں کیلئے نمائندہ دینے کا اختیار مل گیا۔ اسطرح اچھوت دوبارہ غلام ہو گئے۔ (پونا پیکٹ) اچھوت سّتر سالوں سے اپنی آزادی کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ انکے ایک لیڈر ڈاکٹر وامن میشرام بقول انکے اکتالیس سالوں سےاچھوتوں کی بیداری کیلئے کام کر رہے ہیں انہوں نے اچھوتوں کی تمام برادریوں۔ اور مسلمانوں، سکھوں، عِیسایئوں، جَین، بودھ، لنگائت، کو متحد کرکے اپنا حق بحال کرنا چاہ رہے تھے۔ کہ ۲۰۱۹ کے الیکشن میں ای وی ایم کے گھٹالے نے سب امّیدوں پر پانی پھیر دیا۔ بھارت کا میڈیااس بےایمانی کو غریب عوام کیساتھ دہشتگردی نہیں مانتا مگر مسلمانوں کو پوری شدومد سے آتنتوادی کہتا ہے۔ اچھوتوں کی غلامی کو مَزید رجسٹرڈ کرنے کیلئے بھارت کو ہندو ریاست بنانے کا پورا منصوبہ ہے۔ جسکی وجہ سے پوری ریاست بد امنی کا مرکز بن جائے گی۔ ۲۱ پارٹیاں اس الیکشن کو دوبارہ بیلٹ کے ذریعہ سےکرانے کی مانگ کر رہی ہیں۔ سارے بھارت میں احتجاج ہو رہا ہے۔ اللہ انہیں کامیاب کرے اٰمین۔

سید حسین عباس

Syed Haseen Abbas

سید حَسین عبّاس مدنی تعلیم ۔ایم ۔اے۔ اسلامیات۔ الیکٹرانکس ٹیلیکام ،سابق ریڈیو آفیسر عرصہ پچیس سال سمندر نوردی میں گذارا، دنیا کے گرد تین چکر لگائے امام شامل چیچنیا کے مشہور مجاہد کی زندگی پر ایک کتاب روزنامہ ’امّت‘ کیلیئے ترجمہ کی جو سنہ ۲۰۰۰ اگست سے اکتوبر ۲۰۰۰ تک ۹۰ اقساط میں چھپی۔